اُس کااصل نام کیاہے،مجھےمعلوم نہیںلیکن جب پہلی باراس کاقلمی نام سنا تولگاکہ کسی مزارکامجاوریاکسی روحانی آستانے کے صحن میں بیٹھاکوئی درویش ہوگا جودرگاہ کےانتظامات سنبھالنےکےعلاوہ شفاف سبزبوتلوں میں پڑے پانی کو دم کرکےمریدین سے دعائیںاورعطیات وصول کرتاہوگا ۔جس معاشرے میں دعائیں روزی روٹی کا ذریعہ بن جائیں وہاںمیرے جیسے دنیادارکےہاں ایسا خیال آنا کوئی بڑی بات ہے بھی نہیں لیکن چندہی دنوں بعدجب میڈیاپراُس کی تصویردیکھی توایک خوش گوارسی حیرت ہوئی۔میں نےقلمی نام کے بارے میں اپنی رائے دےدی ہے ،تصویرکے بارے میں اپنی خوش گواریت کومحفوظ کرتاہوں کیوں کہ اس طرح سے چیزوں کی تاثیراورتازگی زیادہ دیرتک محفوظ رہتی ہےاورویسے بھی آپ کو معلوم ہےکہ یہاں’ ’ فریم سےباہر‘‘نکلنے والوں کےقدیانیت نہیں دیکھےجاتے بس حدلگائی جاتی ہے۔میری بھی عافیت اسی میں ہے کہ فریم سے باہرنکلنےکی بجائےاپنی حدودکاخیال رکھوں۔
’’ فریم سے باہر ‘‘کی کہانیوں کی بڑی خوبی اُن سے لکھاری کی خوداپنی تخلیقی شخصیت کااُبھرکرسامنےآناہے۔ایسی خوبی کم افسانہ نگاروں کے ہاںملتی ہے۔ممکن ہے کہ کچھ لوگ سوال اُٹھائیں کہ تخلیق کارکے نمایاں ہونے سے تخلیق کااپنارنگ دب جاتاہے۔میرے نزدیک ہرتخلیق کارکوئی نہ کوئی روپ دھارے اپنے شاہکار میں ضرور موجود ہوتاہے۔کبھی ہیروکے طورپراور کہیںوِلن کے رُوپ میں۔اچھاتخلیق کارمعاشرے کےاجتماعی مسائل میں گھرے کرداروں کے دکھوں اوراپنے ذاتی دکھوں کی آمیزش سے تخلیقی فضاتیارکرتاہے۔اس میں نسبت تناسب کاکوئی خاص فارمولاتونہیں ہوتالیکن قارئین کی داد یاپسندیدگی اس کے مقام ومرتبہ کا تعین کرتی ہے۔
’’فریم سے باہر ‘‘ میں دعا ایک توانااورچوکس تخلیق کارہ کےروپ میں سامنے آتی ہے۔جس کے ہاتھ میں کئی رنگ اورذہن میں لاتعدادکہانیاں ہیں۔وہ مختلف کرداروں میں بٹی ہوئی عام فنکارہ نہیں بلکہ اپنی ذات کو مختلف کرداروں میں ڈھالنے کامشکل فن جانتی ہے اور جب چاہتی ہے اپنی اصل تک واپسی کاسفربھی طے کرلیتی ہے۔وہ کبھی ’’ موتیے کے پاس ‘‘بیٹھی سندرساافسانہ لکھنے کی خواہش مندہوتی ہے توکبھی’جھولتی لتی کہانیاں ‘‘سے ابھرتی سرگوشی کی مانند ،کہیں اس کی اپنی کہانی’بارشیں ‘‘ میں بھیگتی ہےتوکہیں’’ پڑھی لکھی اُداسی ‘‘ میں اپنابچپن خوداپنے ہاتھوںلکھتی لڑکی نظرآتی ہے۔میں نے اسے’’ زندگی کی جیب ‘‘ میں ایک جیب کترےکہانی کارکےروپ میں بھی دیکھاہے اور’’معمہ‘‘کےدبنگ لکھاری کے روپ میں بھی،وہ ’’ناریل پانی ‘‘کاایساشاعرہےجوکہانی لکھناچاہتاہےاور’’نتھلی والی‘‘ میںضرورت کےتحت کہانی لکھنے کاارادہ کرنے والابھی، ’’اَتھری گھوڑی ‘‘ میں کاغذوں پرقصے کاڑھنے والی دعا عظیمی ’’بھیدبھری دیواریں‘‘کاشاعربننےکی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔
ہمیں دعاعظیمی کی ان کہانیوںکی فضااورکردارٖکسی طورغیر مانوس محسوس نہیں ہوتے۔یہ ہماری اپنی کہانیاں ہیں،جیتے جاگتے لیکن بے بس اورمجبورسماج کی سچی کہانیاں۔دعاعظیمی ،میں اور آپ سب کہانیاں ہی توہیں۔۔۔ دعاوں میں لپٹی ،کچھ مکمل اور کچھ نامکمل کہانیاں۔اس جبراورافراتفری کے دورمیں جب اپنی لاشیں خود اپنے کاندھوں پرڈھونے اوران کی قیمت بھی خودوصول کرنے کارواج عام ہوجائے تواپنی اَن کہیوںکوکہنےکےلیے دعاعظیمی جیسے ترجمان کامل جاناایک نعمت سے کم نہیں۔
میری ایک عجیب عادت ہے کہ میں کتاب کا آخری باب،آخری کہانی یا آخری غزل /نظم سب سے پہلے پڑھتاہوں ،جانے کیوں۔ شاید میرے ذہن میں کہیں ہو کہ لکھاری آخری صفحات تپر زیادہ کھُل کر سامنے آتاہے۔صاف سنائی دیتاہے،زیادہ اونچابولتاہے اور اس کی فکر کی توانائی زیادہ بہترطریق سےمحسوس کی جاسکتی ہے۔ ’’ فریم سے باہر ‘‘مجموعے کاآخری نثرانہ ہے۔واااااہ!۔کمال کا نیاپن ہےاس میں۔ کتنے معنی چھپے ہوئے ہیں اس سوادوصفحات پردرج تحریرمیں ۔اگرکوئی اسے ہی سنجیدگی سےکھولنے لگ جائے کوئی تو ایک ناول کامزہ لے۔
’’ فریم سے باہر ‘‘ دعاعظیمی کے افسانوں کاشاندارمجموعہ ہےجس میں ۲۷افسانے اوردس نثرانے شامل ہیں۔دعاکی خوبی یہ ہے کہ وہ مختلف سوچتی ہے اوراپنی کہانیوں کی بُنت میںبھی عام رواج سے ہٹ کراپناراستہ نکالتی ہے۔ ’’ فریم سے باہر ‘‘ کے عنوان سے اس مجموعے میں افسانے اورنثرانےکےتحت دوالگ تحریریں شامل دیکھ کرمجھے کچھ حیرانی سی ہوئی لیکن ان دونوں کوپڑھ کردعاعظیمی کی فکری وسعت کی داد دیناپڑی۔نثرانے میں اس عنوان کے تحت لکھت میںآزاد معاشرےکی تشکیل کی جُستجونظرآتی ہے۔ ایک ایسامعاشرہ جس کادستورانسانی حُرمت وعظمت کےتابع ہو او راس کے ہرفردتک کی بنیادی ضروریات تک یقینی رسائی ممکن ہو۔ آرٹ گیلری معاشرے کااستعارہ ہےجس میں رکھی گئی تصویریں مختلف طبقات کی خواہشات اور ضروریات کی نمائندہ ہیں۔افسانہ نگاران سب تصویروں کوایک خاص فریم میں دیکھناچاہتی ہیں ،ایک ایسا دستور جس کے تحت ہرفردآزاداورخودمختارہو۔یہ جہاں جبراورظلم کے خلاف مزاحمت کی علامت ہیں وہاںمکالمے کے اندازمیں اپنی حدود کاتعین بھی خودکرتی دکھائی دیتی ہیںاورکہتی ہیں:
ا۔ ’’ ہم بڑھئی کی تلاش میں ہیںجوہمارےچوکٹھےہمارے مطابق بنادے،جیسے پائوں نہیں کٹوائے جاسکتےجوتی پائوں کےبرابرلینی پڑتی ہے،ایسے میں ہم چاہتی ہیں فریم ہمارے سائزکےمطابق ہو۔ ‘‘
ب۔’’ حکم ہواتھاکہ بڑی تصویروں کےیاپائوں کاٹ دیے جائیں یاسر
اورمزاحمت کرنےوالوں کی زبانیں
جانےکرنٹ سے
جانےادویات کھلاکر
تصویروں کے منہ بندکیےجارہےتھے۔
ایک بےبس ہنسی پوری آرٹ گیلری پرچسپاں کردی گئی تھی۔ ‘‘
افسانے کے حصےمیں ’’ فریم سے باہر ‘‘بھی ایک مکالمے کی صورت ہی ہےلیکن دوجیتی جاگتی خواتین کے درمیان۔یہ افسانہ اپنے موضوع اورڈکشن کےاعتبارسےبہت خوب صورت ہے۔میراجسم میری مرضی جیسے موضوع پربحث کااُسلوب زبردست ہے۔اورا س کایہ مکالمہ ہم سب کودعوت فکردیتاہے۔اس میں گفتگوکااندازدیکھیے:
ا۔ ’’وہ کہتی مجھے حیرت ہوتی ہےکہ لوگ بنائے ہوئے قاعدے کلیہ سےہٹ کرکیوں نہیں سوچتے۔‘‘
ب۔’’عجیب ملک ہے،ہرتصویراپنے فریم سے باہر ہے ‘‘
اس افسانے کااختتام تقسیم درتقسیم معاشرے پرطنزبھی ہے اوردُکھ میں بھیگی سچائی بھی:
’’ ہجوم مشتعل تھا۔اس کے گھرکے شیشوں پرپتھراو ہونے لگامشتعل ہجوم اس کے گھرگھس آیا۔ ‘‘
’’ملعون تھا،میں نےکیاہے اس کا خون ‘‘
ایک شخص نے نعرہ لگایا۔’’ فریم سے باہرتھاحرامی ‘‘
باقی ہجوم مرےہوئے انسان پرپل پڑا۔بہت دنوں تک خبروں کی مکھیاں بھِن بھِن کرتی رہیں۔ ‘‘
میرے نزدیک ہرلکھاری کی لکھت اپنے فکری مزاج کے مطابق اپناقاری خود تلاش کرتی ہے ۔دعاعظیمی کی لکھت کی انفرادیت نیچر کے ساتھ لطیف اندازمیں اٹھکیلیاں کرتے کرتےزندگی سے نظراندازہونے والے سادہ کرداروں کو کہانیوں میں ڈھالناہے ۔یہی وجہ ہے کہ بھاگ بھری،شاداں،جھلی،شامی،دعا،بھوری،اتھری گھوڑی،بلور،سرگم،کمو،چھنواورہیرے جیسے گاوں کے عام کرداراس کی کہانیوں کواعتباربخشتے ہیں۔فطرت کے ساتھ اس گہرے ربط نےاس کی کہانیوں میں ایک خاص سکون اورٹھہراو کی فضاقائم کررکھی ہے۔
دعاعظیمی کامشاہدہ بہت تواناہے۔ کہانیوں میں موجود جملوں کی نئے اندازسے بندشوں اورالفاظ کےنئے معانی تک رسائی کاعمل نےاسے اردو افسانے کے بڑے لکھاریوں کی صف میں لاکھڑاکیاہے۔میری اس بات کی دلیل سے الگ ہوکر ذرااِن جملوں کو دیکھیے اورمزہ لیجیے۔بسترکی سلوٹوں میں چاندنی کی کرنیں مچلنے لگیں /پھریہ بات سارے گائوں میں اَچارکی خشبوکی طرح پھیل گئی /وہاں اسے رکھامجاور مل گیا/اسے کیاسمجھاتاکہ اصیل زنانی اوراتھری گھوڑی میں کیافرق ہے / شناخت کی کہانی نے دیکھتے دیکھتے محبت کی کہانی کوڈس لیا /کاغذوںپرقصے کاڑھتی ہوں /ساون کی بدلی کی طرح کھوجانا/باسی پھولوں کی مہک ہواکونئی کہانیاں دے رہی تھی /وہ جواب دینے کی بجائے چھل چھل رورہی تھی ۔
دعاکی کہانیوں میں ایک خاص قسم کی پاکیزگی کااحساس ابھرتاہے۔اس کی کہانیوں میںسفیدلباس والی خوشی /سفیدبادل/سفیدپرندے اورکتھئی گھوڑے کے مقابل سفیدگھوڑے کی پسندیدگی اسی بات کی علامتیں ہیں۔دعاعظیمی کے افسانوں پربہت کچھ لکھاجارہاہے اورلکھاجاتارہے گا۔مجھے توبس اسے فریم سے باہرکی اشاعت پرمبارک باددیناہے اورمجھے احساس ہے کہ اس کام میں مجھ سے ہمیشہ کی طرح کچھ زیادہ دیر ہوگئی ہے۔
…………………….