مظفرحنفی
غالبؔ صدی کا یہ لطیفہ آپ کو یاد ہو گا کہ ایک جج صاحب نے مرزا کو فلسفی نہیں مجرم قرار دیا تھا۔ اس مقالے کے عنوان سے میری نیت پر بھی شبہ کیا جا سکتا ہے، لیکن باور کیجیے کہ میں خواجہ حسن نظامی کو نہ تو ملّا رموزی، عظیم بیگ چغتائی، پطرس، شوکت تھانوی، شفیق الرحمان، مجتبیٰ حسین جیسے خالص مزاح نگاروں کی صف میں بٹھانا چاہتا ہوں، نہ ہی رشید احمد صدیقی، کنہیّا لال کپور، ابراہیم جلیس اور فکر تونسوی جیسے طنز نگاروں کے قبیلے میں شامل کرنا چاہتا ہوں۔ ممکن ہے میری اس بات پر کچھ لوگوں کو ’’ شیخ چلّی کی ڈائری‘‘ یاد آئے، جسے خواجہ صاحب نے چھ حصوں میں شائع کیا تھا۔ اس ضمن میں وہ تحریریں بھی پیش کی جا سکتی ہیں جو ان کے مجموعۂ مضامین ’’چٹکیاں اور گدگد یاں ‘‘ میں شامل ہیں، لیکن جب ہم تقریباً دو سو کتابوں کی اس طویل فہرست پر نگاہ ڈالتے ہیں جو خواجہ صاحب کی شگوفہ کاری کا نتیجہ ہیں، تو کہنا پڑتا ہے کہ خواجہ حسن نظامی اور مذکورہ بالا طنز و مزاح نگاروں میں ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ طنز و مزاح خواجہ صاحب کے اسلوب کا ایک جزو ہے اور دوسروں کے ہاں اسی کا نام اسلوب ہے۔
مجھے عرض کرنے دیجیے کہ محض ’’ چٹکیاں اور گدگدیاں ‘‘ اور ’’ شیخ چلّی کی ڈائری‘‘ کے سلسلے کی کتابیں دیکھ کر خواجہ حسن نظامی کے اسلوب اور ان کے طنز ومزاح کے ساتھ انصاف کیا ہی نہیں جا سکتا۔ حق تو یہ ہے کہ ان کی تبلیغی، دینی اور تاریخی تصنیفات ہوں، سفر نامے، تقریظیں، قلمی چہرے اور ادبی کتابیں ہوں، کتبِ عملیات، انشائیے اور فکاہیے ہوں یا روزنامچے، ہر جگہ خواجہ صاحب کا اسلوبِ بیان، طنز و مزاح کی سان پر چڑھا ہوا نظر آتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے مکاتیب بھی اس صفت سے خالی نہیں ہیں۔ عام طور پر تہنیت ناموں کے جواب میں شکر گزاری اور اظہار ممنونیت سے کام چلایا جاتا ہے، لیکن خواجہ صاحب کو ’’ شمس العلماء‘‘ کا خطاب ملنے پر جن لوگوں نے انھیں تہنیت نامے روانہ کیے ان کے جوابات میں بھی جگہ جگہ طنز و مزاح کی چھوٹ نظر آتی ہے۔ مثلاً حکیم احمد قادری کو، جو طبی بور ڈ کے سکریٹری ہیں، خواجہ صاحب کی طرف سے جواب ملتا ہے :
’’ حکیم صاحب کی تہنیت کا شکرانہ دل سے، دماغ سے، جگر سے، گردے سے، پھیپھڑے سے تما م اعضائے رئیسہ سے ادا کرتا ہوں۔ اپنے طبی بورڈ میں یہ تحقیقات پیش کیجیے کہ خطابات کا اثر جوانوں پر زیادہ ہوتا ہے یا بڈھوں پر زیادہ ہوتا ہے۔ میرا ذاتی خیال تو یہ ہے کہ بڈھوں پر اثر نہ ہوتا ہو گا کیونکہ مجھ پر کوئی اثر نہ ہوا۔ ‘‘
ایک اور مبارکباد پر یہ پھندنا بھی ملاحظہ ہو:
’’ برف کھِلانے والے، ہر موسم کے پھل کھلانے والے اور سنیما دکھانے والے لالہ کنور سین اور ان کے سب جین بھائیوں کی مبارکباد چائے کی طرح گرم ہے، برف کی طرح ٹھنڈی ہے اور پھلوں کی طرح میٹھی ہے۔ ‘‘
بلا مبالغہ ایسے ہزاروں تہنیتی مکاتیب پر خواجہ صاحب نے اپنے دلچسپ اسٹائل میں نوٹ لگائے ہیں اور قدم قدم پر اپنے مزاج کی شگفتگی کا مظاہرہ مزاحیہ فقروں کی صورت میں کیا ہے۔ یہی صفت ان کے عام مراسلوں میں بھی نظر آتی ہے۔ وہ اپنے نام آنے والے خطوط کے مجموعے، مکتوب نگاروں کے بارے میں دلچسپ اور مختصر تبصروں کے ساتھ شائع کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اگر اسے عملی صورت مل جاتی تو خواجہ صاحب کی شخصیت اور فن کے کئی نئے پہلو ہمارے سامنے آتے۔ اردو کے تحقیقی مقالوں میں جو بے رنگ، بے کیف، خشک اندازِ بیان اختیار کیا جاتا ہے، اس سے سب واقف ہیں۔ خواجہ حسن نظامی کا قلم اس سنگلاخ زمین میں بھی موجِ خرام یار کی طرح گل کترتا چلتا ہے۔ ’’ تحقیقات ادویات‘‘ کے سلسلے میں خشخاش کا ذکر اس مزاحیہ انداز سے شروع ہوتا ہے :
’’ افیمی صاحب اس عنوان کو پڑھ کر اچھل پڑیں گے اور ناک میں خنخنا کر کہیں گے ’’ ارے بھئی واہ، آج تو ہماری چنیا بیگم کی اماں کا ذکر ’منادی‘ میں چھپا ہے۔ ‘‘
ظاہر ہے اندازِ بیان ایسا دلچسپ ہو تو موضوع کی ثقالت بھی گوارا ہو جاتی ہے مضمون کا خاتمہ بھی کم دلچسپ نہیں کہ یہاں چلتے چلتے اس دور کی سیاست پر طنز کی ایک ضرب کاری لگا دی گئی ہے۔ لکھتے ہیں :
’’ ضرورت ہے کہ ہندوستانی افیم کی اماں سے فائدہ اٹھائیں اور خشخش کا حریرہ پی کر اپنی اس دماغی طاقت کو بڑھائیں جو آج کل مسلم لیگ اور کانگریس کے الیکشنوں میں بہت زیادہ درکار ہے۔ ‘‘
بات یہ ہے کہ خواجہ صاحب کے مزاج میں طنز و ظرافت کی جڑیں اتنی گہرائی تک پیوست ہیں کہ وہ سنجیدہ ترین موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے بھی لا شعوری طور پر طنزیہ اور مزاحیہ لہجہ اختیار کرتے ہیں۔ غالبؔ مشاہدۂ حق کی گفتگو میں بات بنانے کے لیے بادہ و ساغر سے کام لیتے تھے، خواجہ صاحب مسائلِ تصوف میں طنز و مزاح سے مطلوبہ اثر پیدا کرتے ہیں۔ ایک جگہ توکّل سے متعلق اپنے نظریہ کی وضاحت کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :
’’ بر توکّل زانوئے اشتر بہ بند‘‘ پر عمل کرتا ہوں کہ خدا پر توکّل بھی کرتا ہوں مگر اونٹ کا پاؤں بھی باندھ دیتا ہوں، کیونکہ ایسا توکّل جائز نہیں سمجھتا کہ میاں اونٹ کہیں بھاگ جائیں اور میں خدا پر توکّل کیے بیٹھا رہوں کہ وہ میرے اونٹ کو بھاگنے نہیں دے گا۔ ‘‘
خواجہ حسن نظامی کے روزنامچے بھی اس حقیقت کے غمّاز ہیں کہ طنز و مزاح ان کی مختلف المزاج اور مختلف النوع تحریروں میں ایک قدرِ مشترک ہے۔ انھوں نے تقریباً تیس سال تک پابندی کے ساتھ روزنامچہ لکھا ہے۔ اس روزنامچے کے گوناگوں اوصاف پر ڈاکٹر نثار احمد فاروقی مفصل مضمون لکھ چکے ہیں۔ مجھے یہاں اس کی محض اس صفت کا ذکر کرنا مقصود ہے کہ مختلف لوگوں سے اپنی ملاقاتوں یا مختلف جلسوں میں پیش آنے والے واقعات و کوائف کی مرقع کشی درکار ہو یا خلوت کدے میں نہاں خانۂ دل سے ابھرنے والے جذبات و احساست کی عکاسی مطلوب ہو، خواجہ صاحب ظرافت کی پھلجھڑیوں اور طنز کے شگوفوں سے تحریر کو مزیّن کرنا نہیں بھولتے۔ اس بحر بے کنار کی چند موجیں بھی دیکھ لیجیے۔ ۲۱ اگست ۱۹۳۱ء کو لکھتے ہیں :
’’ جمعہ کی نماز کے لیے درگاہ میں جانے کی ہر چند تدبیریں کیں، مگر طوفانی بارش راضی ہی نہ ہوئی۔ اسی حال میں جانا چاہا تو خبر آئی، نماز ہو چکی۔ میرے سب بچے نماز میں شریک ہوئے۔ باپ سے تو اولاد اچھی رہی۔ مگر وہ موم کی تھی اور میں نون ( نمک) کا تھا۔ ‘‘
۵؍ جون ۱۹۴۶ء کے روز نامچے میں رقم طراز ہیں :
’’آج مولوی عنایت الرحمان خاں صاحب نے اپنے باغ کے گیارہ آم بھیجے تھے، میں نے رسید لکھی تو لکھا بارہویں امام چونکہ غائب ہیں اس واسطے آپ نے گیارہ آم بھیجے ہیں۔ ‘‘
۸؍ مارچ ۱۹۴۶ء کا یہ اقتباس بھی ملاحظہ ہو:
’’ رات کو دَلی مسور کی دال اور پالک کا ساگ کھایا تھا، کھاتا جاتا تھا اور یہ گیت گاتا جاتا تھا’ بائیکاٹ کرو، بائیکاٹ کرو، لال مرچوں کا بائیکاٹ کرو‘ مجھے لال مرچوں سے بہت تکلیف ہوتی ہے میرا باورچی خانہ روسی خیال رکھتا ہے اس واسطے لال مرچوں کا حلقہ بگوش ہے۔ ‘‘
۲۴؍ فروری ۱۹۴۶ء کو اپنے بیٹے حسین کو ایک خط میں انھوں نے فیکٹری بند کرنے کی ہدایت کی۔ اس فیکٹری میں بکروں کا گوشت خشک کر کے ملک سے باہر بھیجا جاتا تھا۔ اپنے اس عمل سے لطف اندوز ہوتے ہوئے خود کلامی کے طور پر لکھتے ہیں :
’’ بکروں کی اماں سے کہہ سکوں گا، لو بھئی! لوگ کہتے تھے بکرے کی ماں کب تک اپنے بچوں کی خیر منائے گی، میں نے تمھارے بچوں کی جان بچانے کا فرمان جاری کر دیا۔ ‘‘
۱۷؍ فروری ۱۹۴۶ء کو عبد الکریم خاں صبرؔ کی وفات پر اظہار افسوس کرتے ہیں تو ایسے سنجیدہ موقعہ پر بھی ان کی طبعی ظرافت اپنے اظہار کی راہ اس طرح تلاش کر لیتی ہے :
’’ خدا ان کی مغفرت کرے اور پسماندوں کو صبر دے لیکن چونکہ مرحوم کا تخلّص صبرؔ تھا اس واسطے کوئی نہ سمجھ لے کہ میں یہ دعا دیتا ہوں کہ صبرؔ قبر سے اٹھ کر پسماندوں کے پاس آ جائیں۔ ‘‘
۱۲ فروری ۱۹۴۶ء کو ایک مسجد کی صفائی اور مرمت کرائی گئی ہے جس کی نسبت عوام کو وہم تھا کہ یہاں جنّات رہتے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں :
’’ اب میں خود تھوڑی دیر اس مسجدمیں بیٹھا کروں گا کیونکہ مجھے جنّات سے بہت محبت ہے۔ انسانوں کی صحبت سے اکتا گیا ہوں۔ اب جنّات سے دل لگانا چاہتا ہوں۔ جنات کی عورتیں پریاں کہلاتی ہیں، وہ سب درکار نہیں ہیں کیونکہ سنیما والوں کو بہت سی پریوں کی ضرورت ہے، وہ وہاں چلی چائیں گی، بڈھے بڈھے جِن میرے پاس رہیں گے، ان کو رضا کار پولیس میں بھرتی کروں گا اور کہوں گا کہ اب تقیّے کی ضرورت نہیں ہے، تم انسانوں کی نظروں سے پوشیدہ کیوں رہتے ہو؟‘‘
آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ میں دانستہ خواجہ صاحب کی ایسی تحریروں سے اقتباسات پیش کر رہا ہوں جن کے موضوعات طنزیہ اور مزاحیہ اسلوب کے متقاضی نہیں ہیں اس کے باوجود ان کی افتاد طبع نے ہر مقام پر اور ہر موضوع میں اپنے اظہار کی راہ نکال لی ہے۔ کتابوں کے مقدمات اور تقریظوں میں بھی عموماً سنجیدگی، متانت اور بردباری کے لبادے اوڑھ لیے جاتے ہیں لیکن خواجہ صاحب کو دیکھیے کہ ایک کتاب کی تمہید میں، اور وہ بھی علامہ اقبالؔ کی کتاب ( اکبری اقبالؔ) کی تمہید میں کس بانکپن کے ساتھ طنز و مزاح کی مدد سے حق بیانی کی صورت پیدا کر لیتے ہیں :
’’ لاہور میں سیالکوٹ کے رہنے والے ایک صاحب رہتے ہیں جن کا نام محمداقبال ہے اور ڈاکٹر ہے اور پی ایچ ڈی ہے۔ وہ شعر گاتے، شعر بجاتے ہیں اور موقعہ پاتے ہیں تو شعر پیدا بھی کر لیتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اقبالؔ ہمیشہ آسمان پر اڑتے ہیں، زمین پر کبھی آنا ہوتا ہے تو اس زمین پر جو آسمان سے بھی زیادہ دور ہوتی ہے اس لیے وہ لوگ جن کے پاس ہوائی جہاز نہیں ہیں، یہ کہتے رہ جاتے ہیں کہ اقبالؔ کہاں ہے ؟‘‘
خواجہ حسن نظامی کے طنز و ظرافت کے بہت خوبصورت مرقعے ان بے شمار خاکوں میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں جو انھوں نے قلمی چہروں کے نام سے لکھے ہیں۔ مثلاً مولانا ابو الکلام آزاؔد کے بارے میں لکھا ہے :
’’اگر ان کو ہندوستان کا بادشاہ بنا دیا جائے تو ایک دن کم بارہ مہینے سوتے رہیں۔ صرف ایک دن بیدار ہو کر کام کریں، کیونکہ یہ کسی کام کو جلدی کرنے کے عادی نہیں ہیں۔ ‘‘
اور سر محمد یعقوب کا قلمی چہرہ ان الفاظ سے مکمل کرتے ہیں :
’’ اگر ان کی داڑھی لمبی ہوتی تو شاید وہ بھی مولویوں کی طرح فقط دعوت کھایا کرتے، کھلانے سے احتیاط کرتے اور مجرد بھی نہ رہتے چار نکاح کرتے۔ ‘‘
ان اقتباسات کو جو خواجہ صاحب کے مکاتیب، تحقیقی مضامین، تقریظ، مسائل تصوف سے متعلق مضامین، روزنامچے اور قلمی خاکوں سے ماخوذ ہیں، پیش نظر رکھتے ہوئے بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بے شمار موضوعات پر ان کے سیکڑوں انشائیوں میں طنز و مزاح کی کارفرمائی کس حد تک ہو گی۔ جبکہ ہمارے ہاں انشائیے عرصہ دراز تک مزاحیہ مضامین کا رول ہی ادا کرتے رہے ہیں۔ ان انشائیوں میں ’’ مس چڑیا کی کہانی‘‘ بھی شامل ہے جو مولانا ابو الکلام آزادؔ کی ’’ چڑیا چڑے کی کہانی‘‘ سے کئی سال قبل، اس سے زیادہ دلچسپ انداز میں بیان کی گئی تھی۔ اسی طرح ان کی انگنت ریڈیائی تقاریر میں ظرافت اور طنز کی شمولیت کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ ان کا مقصد ہی دلبستگیِ عوام تھا۔ اور ’’چٹکیاں اور گدگدیاں ‘‘، ’’ خصائل کی تصاویر‘‘ کا سلسلہ ’’شیخ چلّی کی ڈائری‘ وغیرہ تو خیر سے خالصتاً طنز و ظرافت پر مشتمل تخلیقات ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ خواجہ حسن نظامی کی تصانیف پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہی یہ احساس ہو جاتا ہے کہ اردو نثر کے اس نظیر اکبر آبادی نے، جس کے موضوعات لا محدود ہیں، مختلف میدانوں میں موضوعات کے اعتبار سے مختلف اسالیب بیان اختیار کیے لیکن اکثر و بیشتر مقامات پر طنز و مزاح قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ جن عوامل نے خواجہ حسن نظامی کو صاحبِ طرز نثر نگار بنایا ہے ان کا ایک نمایاں جزو طنز و مزاح ہے۔ یہ ضرور ہے کہ ان کی تحریر تبسم زیرِ لب ہی تک لے جاتی ہے، قہقہوں پر مجبور نہیں کرتی۔ خواجہ صاحب کا مزاح معمولی سے معمولی مضمون کو دلکش اور پُر تاثیر بنا دیتا ہے۔ ان کا نادرہ کار تخیل اور الفاظ کے ساتھ جمہوری برتاؤ بھی قابلِ رشک ہے۔ وہ انتہائی سادہ و سلیس عبارت استعمال کرتے ہیں اور طنز و مزاح کی آمیزش سے اس میں دلچسپی پیدا کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے اس کی عوامی اپیل میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ وہ حسبِ ضرورت اور حسبٍ موقعہ طعن، تشنیع، طنز بدیہہ، رمز، پھبتی، ملامت، کنایہ اور پھکڑ پن سے بھی کام لیتے ہیں۔ خواجہ صاحب کا اسلوب اتنا منفرد ہے کہ ان کی تحریریں ہاتھ اٹھا اٹھا کر غزل کے مقطعوں کی طرح اپنے تخلیق کار کا اعلان کرتی ہیں۔ ہر صاحبِ طرز فنکار کا اسلوب اس کی شخصیت کا غماز ہوتا ہے اور خواجہ صاحب کے صاحبِ طرز ہونے میں دو رائیں ہرگز نہیں ہو سکتیں۔
کہیں مولانا ابو الکلام آزاد نے کہا ہے کہ خواجہ صاحب کے مضامین کے عنوانات غیر متین اور سبک ہوتے ہیں اور رام بابو سکسینہ نے بھی شکایت کی ہے کہ ان کے خیالات میں گہرائی نہیں ہوتی۔ میں اس پہلو پر غور کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ عام طور پر وہ تخلیقات جو خالصتاً مزاح پر مشتمل ہوں، خالص طنزیہ تخلیقات کے مقابلے میں ہلکی نظر آتی ہیں کیونکہ طنز اپنی مقصدیت کی وجہ سے تحریر میں وزن پیدا کر دیتا ہے مثال کے طور پر ملّا رموزی اور شوکت تھانوی کے مقابلہ میں رشید احمد صدیقی اور کنھیّا لال کپور کی تخلیقات کا ادبی مرتبہ طنز کی شمولیت و افادیت اور مقصدیت کی وجہ سے بڑھا ہوا محسوس ہوتا ہے لیکن خواجہ حسن نظامی کے ہاں معاملہ بالکل منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ ان کی بیشتر تخلیقات کے پسِ پشت کوئی نہ کوئی اخلاقی یا اصلاحی مقصد ہے۔ وہ میرؔ کی طرح عوام کے بارے میں گفتگو کر کے خواص پسندنہیں بننا چاہتے بلکہ عوام سے براہِ راست مخاطب ہوتے ہیں۔ اس اعتبار سے وہ ایک عوامی فنکار ہیں۔ ان کے طنز کا نشتر زیادہ گہرائی میں اس لیے نہیں اترتا کہ وہ کسی جرّاح کے ہاتھ میں نہیں، ایک درد مند صوفی کے ہاتھ میں ہے ورنہ کون سی ایسی سماجی، اخلاقی یا سیاسی خامی رہ گئی ہے جس پر خواجہ نے دمادم حملے نہ کیے ہوں۔ بلاشبہ خواجہ حسن نظامی کو صاحبِ طرز نثر نگار بنانے میں طنز و مزاح کا بڑا ہاتھ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (تنقیدی نگارشات، حصہ دوم ۔ مظفر حنفی، ترتیب و تدوین: فیروز مظفر)