ڈاکٹررفیع الدین ہاشمی
’’خضر ِراہ‘‘ علامّہ اقبال نے انجمن حمایت ِاسلام لاہور کے ۳۷ ویں سالانہ جلسے، منعقدہ ۱۶ اپریل ۱۹۲۲ء، میں ترنم سے پڑ ھ کر سنائی ۔ یہ جلسہ اسلامیہ ہائی سکو ل شیراں والا گیٹ میں منعقد ہوا تھا۔ چودھری محمد علی بتاتے ہیں: ’’ جلسے سے چند روز قبل ان کی طبیعت ناساز تھی، مگر عین جلسے کے دن ان کی طبیعت سنبھل گئی۔ جلسے میں تشریف لائے۔ اگرچہ بوجہ نقاہت مسند پر بیٹھ کر نظم ’ خضر راہ ‘ سنائی لیکن آواز میں وہی سوزر اور لہجے میں وہی تاثیر تھی‘‘۔ ( سیارہ : اقبال نمبر۱۹۶۳ء: ص۳۰)
’’خضرراہ‘‘ کو اقبال نے نہایت دردر انگیز لَے میں پڑ ھا تھا۔ غلام رسول مہر کا بیان ہے کہ :’’ یہ نظم سننے کے لیے بے شمار آدمی جمع ہو گئے تھے… پورا مجمع بیس ہزار سے کم نہ ہوگا۔ بعض اشعار پر اقبال خودبھی بے اختیار روئے اور مجمع بھی اشک بار ہو گیا۔ بیان کیا جاتاہے کہ اقبال پر جتنی رقت ’’ خضر راہ ‘‘ پڑ ھنے کے دوران میں طاری ہوئی ،اتنی کسی نظم کے دوران میں نہ ہوئی ‘‘۔ ( مطالب بانگِ درا: ص ۳۰۶) بعض دوسری نظموںکے برعکس ’’ خضرراہ‘‘پہلے سے شائع نہیں کی گئی۔ اقبال کے پاس نظم کا ایک قلمی نسخہ موجود تھا، تاہم نظم کا زیادہ ترحصہ انھوں نے حافظے کی مدد سے زبانی سنایا۔ نظم کی ابتدائی شکل میں چھٹے بند کا چوتھا شعر:
نوعِ انسانی کے لیے سب سے بڑی لعنت یہ ہے
شاہ راہِ فطرت اللہ میں یہ ہے غارت گری
بانگِ درا کی ترتیب کے وقت اقبال نے اس شعر کو نظم سے حذف کر دیا۔ ’’صحرا نوردی‘‘ کے تحت تیسرا شعر ، ابتدائی صورت میں یوں تھا:
ریت کے ٹیلے پہ وہ آہو کا بے پروا خرام
وہ گداے بے برگ و ساماں ، وہ سفر بے سنگ و میل
’’زندگی ‘‘ کے تحت آخری شعر( یہ گھڑی محشر کی ہے …) ’’ خضر راہ‘‘ کے ابتدائی متن میں موجود نہیں تھا۔یہ ایک اور نظم ’’ کلاہِ لالہ رنگ‘‘ کاآخری شعر تھا۔ بعد میں نظم کو متروک قرار دے کر یہ شعر ’’ خضر راہ ‘‘ میں شامل کر دیا گیا۔
’’خضرراہ‘‘ اقبال نے ۱۹۲۲ء میں لکھی۔ اس زمانے میں دنیاے اسلام کی حالت بد سے بد تر ہو چکی تھی۔ جنگ ِ عظیم دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے تباہی و مصیبت کا پیغام لائی تھی۔ سلطنت ِ عثمانیہ بکھر گئی تھی، عرب دنیا مختلف ٹکڑ وں میں بٹ چکی تھی، جن پر استعماری طاقتوں کے کٹھ پتلی شاہ حسین اور اس کے بیٹے دادِ حکمرانی دے رہے تھے۔ اعلانِ بالفور (۱۹۱۷ئ) کے ذریعے برطانیہ نے یہودیوں کو فلسطین میں صہیونی ریاست کے قیام کے لیے بنیاد فراہم کر دی تھی۔ ترکی کا اندرونی خلفشار بڑ ھ گیا تھا۔ مصطفی کمال اور ان کے ساتھیوں نے انقرہ میں متوازی حکومت قائم کر لی تھی۔ براے نام خلافت چند دنو ں کی مہمان نظر آتی تھی۔ بیرونی دباؤ بھی کم نہ تھا۔
ادھر ہندستان میں مسلمانوں کی حالت بہت قابلِ رحم تھی کیونکہ بہت سے لوگ تحریک ہجرت کی بے نظمی او رراہ نمائوں کی بے تدبیری کا نتیجہ بھگت رہے تھے۔ ۱۹۱۹ء میں جلیانوالہ باغ امرتسر کے الم ناک سانحے میں جنرل ڈائر کی وحشیانہ فائرنگ سے سیکڑوں افراد ہلاک ہو گئے اور پنجاب میں مارشل لا نافذ ہو ا، اس سے ہندستانیوں کی مشکلا ت میں اور اضافہ ہوا۔
فکری جائزہ
زیر مطالعہ نظم میں اقبال نے، مختلف مسائل اپنے خیالات کے اظہار کے لیے خضر کے روایتی کردار کا سہارا لیا ہے۔
٭خضر کی شخصیت:
خضر کی شخصیت کے بارے میں تاریخی اور ادبی روایات معروف تو ہیں مگر مستند نہیں اور ان کی روشنی میں کسی واضح نتیجے تک پہنچنا ممکن نہیں۔ قرآن و حدیث میں خضر کا تذکرہ موجود ہے اور یہ ماخذ زیادہ یقینی ، مستند اور معتبر ہے۔
قرآن پاک کی سورۃ الکہف میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ایک واقعہ بیان ہوا ہے۔ اس واقعے کا تعلق اس دور سے ہے جب مصر میں بنی اسرائیل پر فرعون کے مظالم کا سلسلہ جاری تھا۔ قرآن پاک کے مطابق یہ واقعہ اس طرح ہے:
’’ (ذرا ان کو وہ قصہ سناؤ جو موسیٰ ؑ کو پیش آیا تھا )جبکہ موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا تھاکہ’’میں اپنا سفر ختم نہ کروں گا جب تک کہ دونوں دریاوں کے سنگم پر نہ پہنچ جاؤں، ورنہ میں ایک زمانۂ دراز تک چلتا ہی رہوںگا‘‘۔ پس جب وہ ان کے سنگم پر پہنچے[غالباً موسیٰ ؑ کا یہ سفر سوڈان کی جانب تھا اور مجمع البحرین سے مراد وہ مقام ہے جہاں موجودہ شہر خرطوم کے قریب دریاے نیل کی دو بڑی شاخیں البحرالابیض اور البحر الارزق آکر ملتی ہیں۔ سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ: تفیہم القرآن، جلد سوم، ص ۳۵]تو اپنی مچھلی سے غافل ہو گئے اور وہ نکل کر اس طرح دریا میں چلی گئی جیسے کہ کوئی سرنگ لگی ہو۔ آگے جاکر موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا:’’ لاؤ ہمارا ناشتا، آج کے سفر میں تو ہم بری طرح تھک گئے ہیں‘‘۔ خادم نے کہا: ’’آپ نے دیکھایہ کیا ہوا؟جب ہم اس چٹان کے پاس ٹھہرے تھے، اس وقت مجھے مچھلی کا خیال نہ رہا اور شیطان نے مجھ کو ایسا غافل کر دیا کہ میں اس کاذکر (آپ سے کرنا) بھول گیا۔ مچھلی تو عجیب طریقے سے نکل کر دریا میں چلی گئی‘‘۔ موسیٰ نے کہا’’اس کی تو ہمیں تلاش تھی‘‘۔ چنانچہ وہ دونوں اپنے نقش قدم پر پھرواپس ہوئے اور وہاں انھوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا، جسے ہم نے اپنی رحمت سے نوازا تھا اور اپنی طرف سے ایک خاص علم عطا کیا تھا۔
’’ موسیٰ نے اس سے کہا:’’ کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں تاکہ آپ مجھے بھی اس دانش کی تعلیم دیں جو آپ کو سکھائی گئی ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا:’’ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے اور جس چیز کی آپ کو خبر نہ ہو، آخر آپ اس پر صبر کربھی کیسے سکتے ہیں۔‘‘ موسیٰ نے کہا:’’ ان شاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں کسی معاملے میں آپ کی نافرمانی نہ کروں گا۔ ‘‘ اس نے کہا:’’ اچھا ، اگر آپ میرے ساتھ چلتے ہیں تو مجھ سے کوئی بات نہ پوچھیں، جب تک کہ میں خود اس کا آپ سے ذکر نہ کروں‘‘۔
اب وہ دونوں روانہ ہوئے۔ یہاں تک کہ وہ ایک کشتی میں سوار ہوگئے تو اس شخص نے کشتی میں شگاف ڈال دیا۔ موسیٰ نے کہا :’’آپ نے اس میں شگاف ڈال دیا تاکہ سب کشتی والوں کو ڈبودیں؟ یہ تو آپ نے ایک سخت حرکت کر ڈالی‘‘۔ اس نے کہا:’’ میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے ‘‘؟ موسیٰ نے کہا:’’بھول چوک پر مجھے نہ پکڑیے ، میرے معاملے میں آپ ذرا سختی سے کام نہ لیں‘‘۔
’’ پھر وہ دونوں چلے۔ یہاں تک کہ ان کو ایک لڑکا ملا اور اس شخص نے اسے قتل کردیا۔ موسیٰ نے کہا:’’ آپ نے ایک بے گناہ کی جان لے لی، حالانکہ اس نے کسی کا خون نہ کیا تھا۔ یہ کام تو آپ نے بہت ہی برا کیا‘‘ ۔اس نے کہا:’’ میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے‘‘۔ موسیٰ نے کہا:’’ اس کے بعد اگر میں آپ سے کچھ پوچھوں تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھیں۔ لیجیے، اب تو میری طر ف سے آپ کو عذر مل گیا‘‘۔
’’ پھر وہ آگے چلے، یہاں تک کہ ایک بستی میں پہنچے اور وہاں کے لوگوں سے کھانا مانگا۔ مگر انھوں نے ان دونوں کی ضیافت سے انکار کر دیا۔ وہاں انھوں نے ایک دیوار دیکھی جو گراچاہتی تھی۔ اس شخص نے اس دیوار کو پھر قائم کر دیا۔ موسیٰ نے کہا: ’’ اگر آپ چاہتے تو اس کام کی اجرت لے سکتے تھے‘‘۔ اس نے کہا: ’’ بس ، میرا تمھارا ساتھ ختم ہوا۔اب میں تمھیں ان باتوں کی حقیقت بتاتاہوں ، جن پر تم صبر نہ کر سکے۔ اس کشتی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ چند غریب آدمیوں کی تھی جو دریا میں محنت مزدوری کرتے تھے۔ میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کر دوں کیونکہ آگے ایک ایسے بادشاہ کا علاقہ تھا جو ہر کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا۔ رہا وہ لڑکا تو اس کے والدین مومن تھے، ہمیں ا ندیشہ ہوا کہ یہ لڑکا اپنی سرکشی اور کفر سے ان کو تنگ کرے گا۔ اس لیے ہم نے چاہا کہ ان کا رب اس کے بدلے ان کو ایسی اولاد دے جو اخلاق میں بھی اس سے بہتر ہو اور جس سے صلہ رحمی بھی زیادہ متوقع ہو اور اس دیوار کا معاملہ یہ ہے کہ یہ دو یتیم لڑکوں کی ہے جو اس شہر میں رہتے ہیں۔ اس دیوار کے نیچے ان بچوں کے لیے ایک خزانہ مدفون ہے اور ان کاباپ ایک نیک آدمی تھا، اس لیے تمھارے رب نے چاہا کہ یہ دونوں بچے بالغ ہو ں اور اپنا خزانہ نکال لیں۔ یہ تمھارے رب کی رحمت کی بنا پر کیا گیا ہے۔ میں نے کچھ اپنے اختیار سے نہیں کر دیا ہے۔ یہ ہے حقیقت ان باتوں کی جن پر تم صبر نہ کر سکے‘‘۔ ( سورۃ الکہف: ۶۰۔۸۲ ترجمہ قرآنِ مجید از سیّد ابوالاعلیٰ مودودی: ص۷۶۹۔۷۷۳)
اس واقعے میں محض ایک ’’ بندے ‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے اس کا نام نہیں بتایا گیا مگر معتبر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کانام خضر ہے۔
قرآن پاک کے بیان کردہ مندرجہ بالا واقعے کے مطابق حضرت خضرؑ کے بارے میں یہ وضاحت نہیں ملتی کہ وہ انسان تھے یا کوئی غیرانسانی مخلوق؟ البتہ یہ ضرور پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں عقل و دانش کی غیر معمولی صلاحیت عنایت کی تھی۔ اسی لیے حضرت موسیٰ ؑ بھی دانش کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ان کے پاس پہنچے۔
علما کا رجحان یہ ہے کہ خضر ایک غیر انسانی شخصیت ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے تفویض کردہ امور و افعال کی انجام دہی کے لیے مقرر ہے۔ بھولے بھٹکوں کی راہنمائی بھی ان میں سے ایک کام ہو سکتا ہے۔
٭صحرا نوردی اور گردشِ پیہم:
خضر سے شاعر کا پہلا سوال یہ ہے :
چھوڑ کر آبادیاں، رہتا ہے تو صحرا نورد
زندگی تیری ہے بے روز و شب و فردا و دوش
یعنی خضر کو صحرا نوردی اس قدر عزیز کیوں ہے؟
دراصل اقبال طبعاً صحرائیت اور بدویت پسند ہیں اور اپنی اس پسندیدگی کے اظہار و بیان کے لیے ایک سوال کی صورت میں وجہ جواز پیدا کی ہے۔ صحرا نوردی کا اقبال کے بنیادی فلسفے سے گہرا تعلق ہے۔
اقبال کی شاعری کی بنیاد ان کا انقلابی فکر ہے ۔ ان کے نزدیک فرد کی بقا، قوموں کی تعمیر و ترقی اور تسخیرِ کائنات کے لیے محنت ِ پیہم، جہدِ مسلسل، کشمکش و معرکہ آرائی، سعی و عمل اور سخت جانی و سخت کوشی کی خصوصیات بہت ضروری ہیں۔ چونکہ ان اوصاف کی پختگی میں صحرانوردی سے مدد ملتی ہے، اس لیے انھیں صحرا نوردی عزیز ہے۔ جب انسان صحر ا نوردی کے لیے نکل کھڑا ہوتا ہے تو وہ ایسے ذوق و شوق سے آشنا اور ایسی لذت سے ہم کنار ہوتا ہے جو اسے راحت و اطمینان اور عیش کوشی کی زندگی میں کبھی نصیب نہیں ہو سکتی۔ صحرا نوردی کو پرکشش بنانے کے لیے اقبال اب ایک پر لطف صحرائی منظر کی تفصیل پیش کرتے ہیں۔ اس منظر کا نقشہ یہ ہے:
صحرا میں کسی نخلستان کے آس پاس کوئی قافلہ اترا ہوا ہے۔ یہ قافلہ ہماری دنیا کے لوازمات سے بے پروا اور سفر کے دنیاوی پیمانوں سے بے نیاز ہے۔ نخلستان کے چشمے پر اہل کرواں کا جمگھٹا دیکھ کر جنت کے کوثر و تسنیم اور سلسبیل کی یاد تازہ ہوتی ہے جس کے گرد مومنین ساقی ِ کوثر کے ہاتھوں آبِ حیات پینے کے لیے بے تاب ہوں گے۔ نخلستان کے گرد، دور دور تک ریت کے ٹیلے بکھرے ہوئے ہیں اور ان پر آہوانِ صحرائی ایک شانِ بے نیازی اور اندازِ دل ربائی کے ساتھ محو خرام ہیں اور اب شام ہو گئی ہے۔ صحرا میں چاروں طرف کامل سکوت چھایا ہوا ہے۔ ایسے میں غروبِ آفتاب کامنظر کس قدر دل فریب و دل آویز ہے۔ سیکڑوں سال پہلے غروبِ آفتاب کا ایسا ہی منظر حضرت ابراہیم ؑ کے لیے بصیرت افروزی اور خداشناسی کا پیغام لایاتھا۔ (قرآن پاک کی سورۃ الانعام میں یہ واقعہ تفصیل سے مذکور ہے) اسی صحرا میں شام کے وقت جب آفتاب بالکل غروب ہونے کو ہے ، ایک قافلہ اپنا سامانِ سفر تازہ کرنے کے بعد اگلی منزل کے لیے روانہ ہو رہاہے۔ فضاے دشت میں بانگ ِ رحیل بلند ہو رہی ہے ۔ رات ڈھل رہی ہے۔ صبح صادق قریب ہے۔ مشرق سے ستارۂ سحری نمودار ہوا ہے۔ اس کی نمود میں ایسا حسن ، رعنائی اور لطافت ہے کہ بامِ گردوں سے جبریلِ امین جھانکتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ ان حسین مناظر اور پاکیزہ کیفیات کی دل آویزی میں کچھ ایسی کشش ہے کہ محبت کے سودائی ،مادّی زندگی کی آلودگیوں سے فرار ہو کر ویرانوں (بالفاظ دیگر دل فریب صحراؤں) کی تلاش میں سر گرداں رہتے ہیں۔
بدویت کا ایسا بھر پور مرقع پیش کرنے کے بعد وہ قاری کو اس نتیجے تک لے آتے ہیں کہ کسی کو اس صحرا نوردی پر تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ انسانی زندگی اسی صحرا نوردی ، تگاپوے دمادم، سخت جانی اور سرگرانی سے عبارت ہے اور حیاتِ انسانی کاوجود انھی خصوصیات کا مرہونِ منت ہے۔
مگر اس سے قطع نظر اقبال کی صحرائیت پسندی کے کچھ اور وجوہ بھی ہیں :
ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری کا کہنا بالکل بجا ہے:’’ اقبال دشت ِ حجاز پر مٹا ہوا ہے‘‘ عبدالسلام ندوی کے خیال میں اس کا سبب یہ ہے کہ دورِ اول کے مسلمانوں کا اصلی مولدومنشا ہی صحراے عرب ہے… عرب کی سادہ، صحرائی اور بدویانہ زندگی ہی نے دورِ اول کے مسلمانوں میں فاتحانہ اخلاق پیدا کیے تھے… پھر یہ کہ صحرائی زندگی میں …تکلف و تصنع کا شائبہ بھی نہیں ہوتا۔ اس لیے اخلاق ، مذہب اور معاشرت سب اپنی اصلی حالت پر قائم رہتے ہیںاور فطرت کا جو منشاہے ، وہ پورا ہوتا رہتا ہے… صحرا نشین آدمی میں قو ّتِ برداشت بہت زیادہ ہوتی ہے اور قناعت پسندی کے سبب اس کی ضروریات اور مطالبے نسبتاً بہت کم ہوتے ہیں۔ کسی بڑے شہر کے باسی یک متمدن انسان میں وہ جوش و لولہ نہیں ہوتاجو عام طورپرصحرا نشینوں میں پایا جاتا ہے:
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندۂ صحرائی یا مردِ کہستانی
صحرا کی بے سروسامانی اور خود دارانہ زندگی کا نام اقبال کی اصطلاح میں ’’ فقر‘‘ ہے ۔ فقر کی بدولت صحرائی علاقوں سے مجدد ، رفارمر اور پیغمبر اٹھتے رہے ہیں۔ اقبال روحانی اور جسمانی قو ّتوں کے حصول کے لیے صحرائیت و بدویت کو ضروری سمجھتے ہیں ۔ یہی قو ّت دین و دنیا کی سعادتوں کا سنگ بنیاد ہے۔ ( اقبال کامل: ص ۲۸۱- ۲۸۲)
پروفیسر آسی ضیائی کے خیال میں اقبال کی بدویت پسندی کا ایک اہم نفسیاتی سبب ان کے ’’اس ردّ ِ عمل میں دیکھا جا سکتا ہے جو ان کے ذہن میں فرنگی تہذیب کے خلاف پیدا ہوا۔ چونکہ یورپ کی سائنسی اور علمی سرگرمیوں کے سوا، انھیں یورپ کی ہر چیز سے تنفّر ہو گیا تھا، اس یورپ کی تمدنی زندگی کی سطحیت ، تصنع اور عافیت سوزی بھی بری طرح کھٹکنے لگی اور انھوں نے محسوس کیا کہ تمدن کی اس انتہا پر پہنچنے کے بعد انسان کے لیے تباہی ہی تباہی ہے جس سے پناہ، صحرا و کوہساری کے پرسکون ماحول میں مل سکتی ہے۔ ( کلام اقبال کا بے لاگ تجزیہ: ص ۱۶۹۔۱۷۰)
اقبال خودکو ’’لالۂ صحرایم‘‘ کہتے ہیں۔ انھیں لالۂ صحرا سے خاص انس ہے۔ وہ بار بار اس کی خوبیوں کا ذکر کرتے ہیں ۔ یہ بھی ان کی بدویت پسندی کی دلیل ہے۔
٭زندگی کی حقیقت:
شاعر کا دوسرا سوال انسانی زندگی کی حقیقت و ماہیت کے بارے میں ہے۔ انسانی زندگی کی حقیقت اس وقت تک معلوم نہیں ہوسکتی جب تک اس کائنا ت اور دنیاکی تخلیق کی اصل غرض و غایت کا پتا نہ چلے۔ کائنات اور انسان کے بارے میں دو نظریے اہم اور قابلِ لحاظ ہیں:
ایک نظریے کے مطابق کائنا ت کی تخلیق محض اتفاقی ہے۔ کائنات کی تمام چیزیں جن میں ہماری دنیا اور اس کے باسی بھی شامل ہیں خود بخود وجود میں آگئی ہیں۔ اور ان کی خلقت کا سبب مادّے کے سوا کوئی اور شے نہیں۔ ڈاکٹر یوسف حسین خاں نے اسے حیات و کائنات کی ’’ فطری توجیہ‘‘ کا نا م دیا ہے۔ قدیم ملوکیت اور شاہی نظام، تہذیب ِ مغرب اور سرمایہ داری ، مارکسی فکر اور کمیونزم … سب اسی نظریے کی پیداو ار ہیں۔ اقبال کے خیال میں ان سب نظاموں نے انسانیت کو دہکتے ہوئے جہنم کے کنار ے پہنچا دیا ( علامّہ اقبال کا یکم جنوری ۱۹۳۸ء کا نشری پیغام: حرفِ اقبال، ص ۲۲۴- ۲۲۵) دوسرے گروہ نے انسان کو لاچار و بے بس ، مجبور ، عاجز اور مسکین قرار دیا۔ زندگی ایک وبال ٹھہری۔ ارسطو کا قول ہے: ’’پیدا نہ ہونا سب سے اچھا ہے اور موت زندگی سے بہتر ہے‘‘۔ رواقیت (Stoicism) کے نظریات پیدا ہوئے ۔حکما و رواقیّین کے نزدیک انسان کا خود اپنے آپ کو قتل کرنا کوئی برا کام نہیں تھابلکہ ایک ایسا باعزت فعل تھا کہ لوگ جلسے کرکے ان میں خودکشیاں کیا کرتے تھے۔ حد یہ ہے کہ افلاطون جیسا حکیم بھی اسے کوئی معصیت نہیں سمجھتا تھا۔ ( سید ابوالاعلیٰ مودودی: الجہادفی الاسلام: ص ۱۹) شوپن ہار کے فلسفے کاخلاصہ یہ ہے کہ دنیا ایک خراب آباد یا زندوں کی دوزخ ہے۔ تیاگ، رہبانیت، ترکِ دنیا اور عجمی تصو ّف کو انھی بنیادوں پر فروغ ہوا۔ یہ نظریہ دنیا میں امن و سلامتی اور خوش حالی کا موجب نہیں ہو سکتا۔
حیات و کائنات کے بارے میں دوسرا نظریہ اسلام کا ہے ۔ جس کے مطابق اس کائنات کو ایک بلند و برتر ہستی نے ،جور ب العالمین ہے،تفریح طبع کی خاطر نہیں بلکہ ایک خاص مقصد کے پیش ِ نظر تخلیق فرمایا ہے۔ کائنات کا نظام اس کے مقررہ اصولوں کے مطابق چل رہا ہے۔ کائنات کی کوئی شے رب العالمین کے حکم سے سر مو انحراف نہیں کر سکتی۔ اس نظام میں انسان کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ دیگر مخلوقات کو اس کی خدمت کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ انسان قدرت کے مخفی خزانو ںکو اپنے کام میں لاتے ہوئے زندگی کونہ صرف بہتر اور خوش حال بناسکتا ہے بلکہ اسے ایسا کرنے کی تاکیدکی گئی ہے۔ مگر اس کے ساتھ یہ ضروری ہے کہ وہ چند اصولوں اور قوانین کی پابندی کرے ۔ احکام و فرائض کا خیال رکھے اور اوامر و نواہی کو بجالائے۔ ان کے بارے میں وہ جوا ب دہ ہے ۔ یہی تصو ّرآخرت ہے۔ جواب دہی کی پابندی انسان پر اس لیے عائد کی گئی کہ اس کی سر گرمیوں میں تواز ن قائم رہے۔ اسی کو ’’ فلاح و کامرانی‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
مختصر اً، اس قرآنی فکر کو ہم تین پہلوؤں میں تقسیم کر سکتے ہیں:
۱۔ انسانی شرف و فضیلت اور عظمت آدم
۲۔ انسانی زندگی میں عمل و حرکت کی اہمیت اور اس کی قو ّت تعمیر و تسخیر( خودی)
۳۔ زندگی کی ناپایداری اور امتحان گاہ( تصو ّرِآخرت)
جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے اقبال کے نزدیک انسانی زندگی ا ور اس کے شرف کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کے اندر جرأت و بے باکی ، وسیع النظری، بلندہمتی، استقلال اور ’’گرم دم جستجو‘‘ ’’ نرم دم گفتگو‘‘ جیسی خصوصیات و کیفیات پیدا ہوں ۔ وہ امروز و فردا کے چکر میں الجھے نہ سود و زیاں کے اندیشے میں مبتلا ہو۔ یہ سب باتیں اس لیے ضروری ہیں کہ انسان کے لیے کارِجہاں بہت دراز ہے۔ اس مصرعے: ’’جاوداں، پیہم دواں، ہردم جواں ہے زندگی‘‘ کی تشریح اقبال کے ہاں جابجا ملتی ہے:
ستار وں سے آگے جہاں او ر بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
ہر لحظہ نیا طور ، نئی برق تجلی
اللہ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے
ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا
حیات ذوقِ سفر کے سوا کچھ اور نہیں
زندگی کے اسی تحرک میں سرِّآدم مضمر ہے۔ یہ سر آدم کیا ہے؟ تسخیر و تعمیرکائنات کی وہ قوّت جو انسانی زندگی میں پنہاں ہے ۔یہ قو ّت اسی صورت پیدا ہو سکتی ہے کہ انسان اپنے اندر خدا کی ودیعت کر دہ خفتہ صلاحیتوں کو بیدار کرے۔ یہ دوسری چیز ہے جس پر نظم کے اس حصے میں اقبال نے زور دیا ہے۔
۲۔ تسخیر و تعمیر کائنات، فکر اقبال کا ایک اہم پہلو ہے جو براہِ راست قرآ ن پاک سے ماخوذ ہے۔ دراصل انسان کو کائنات کی مخلوقات پر جو فضیلت عطاکی گئی ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنی پوری صلاحیت اور استعداد کو بروے کار لاکر زندگی کو اسلامی معیاروں کے مطابق بہتر اور حسین بنانے کے لیے پیہم جدوجہد کرے اور اسی کا نام جہاد ہے ۔ اسلام میں جہاد پر جس قدر زور دیا گیا ہے، وہ محتاج بیان نہیں ہے۔ زیر مطالعہ نظم میں اقبال نے انسان کی قو ّتِ تعمیر و تسخیر کے ذکر کو انتہائی مربوط شکل میں پیش کیا ہے۔
۳۔حیات و کائنات کا تیسراپہلو یہ ہے کہ دنیا ایک ناپایدار چیز ہے اور یہ انسان کے لیے دارالامتحان ہے۔ اس سلسلے میں قرآنی فکر کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان اس دنیا میں غیر ذمہ دار نہیں ہے بلکہ اس کے اعمال کاحسا ب لیا جائے گا اور ہر ایک کو اس کے کیے کا بدلہ ملے گا۔ زندگی کے اس تیسرے پہلو کو اقبال نے صرف ایک شعر میں بیان کر دیا ہے:
قلزم ہستی سے تو ابھرا ہے مانندِ حباب
اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی
اقبال چاہتے ہیں کہ انسان دنیا کی اس آزمایش گاہ سے، جو اس کے لیے دارالامتحان ہے ، کندن بن کر نکلے۔ امتحان کی اس تیاری کے لیے وہ انسان کو باربار اس کے امتیازوشرف کا احساس دلاتے، اس کے ذوقِ عمل و جدوجہد کو ابھارتے اور خاتمے پر ایک بار پھر اسے آزمایش کے لیے تیار ہونے کی ہدایت کرتے ہیں:
یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
اس شعر کی تنبیہ نما نصیحت کا مخاطب بحیثیت مجموعی بنی نوع انسان اور ضمناً ہندی مسلمان ہے۔ ۲۲- ۱۹۲۱ء میں عالم اسلام کے سیاسی و تہذیبی حالات کا مطالعہ کیاجائے تو ’’ یہ گھڑی محشر کی ہے‘‘ کی صداقت سمجھ میں آتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان ابھی تک غفلت کی نیند سور ہا ہے۔
٭قدیم ملوکیت وشہنشاہیت:
اقبال ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت پر یقین رکھتے تھے۔ اقبال تمہیداً سلطانی و حاکمیت کے اس بنیادی اصول اور انسانی برہمنیت کے مختصر تذکرے کے بعد خواجگی کی قدیم صورت ( شہنشاہیت اور ملوکیت) کے بیان کی طرف آتے ہیں۔
قدیم ملوکیت کی بنیاد ہوس کے ’’پنجۂ خونیں‘‘ اور جبر و استبداد پر استوار تھی۔ وضاحت کے لیے اقبال نے ’’رمز آیہ اِنَّ الْمَلُوْکَ‘‘کہہ کر قرآنی تلمیح کاسہارا لیا ہے۔ سورۃ النمل میں آتا ہے:
اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَۃً اَفْسَدُوْہَا وَ جَعَلُوْا اَعِزَۃَّ اَہْلِہَا اَذِلَّۃٌ (سورۃالنمل: ۳۴)بادشاہ جب کسی ملک میں گھس آتے ہیں تو اسے خراب اور اس کے عزت والوں کو ذلیل کردیتے ہیں۔
علامّہ اقبال، قرآنی تلمیح کے حوالے سے جو کچھ کہنا چاہتے ہیں، مولانا مودودی نے بہت عمدہ پیراے میں اس کی وضاحت کی ہے۔ مذکورہ قرآنی آیت کی تشریح کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں:
’’ اس ایک فقرے میں امپیریلزم اور اس کے اثرات و نتائج پر مکمل تبصرہ کر دیا گیا ہے۔ بادشاہوں کی ملک گیری اور فاتح قوموں پر دست درازی کبھی اصلاح اور خیر خواہی کے لیے نہیں ہوتی ۔ اس کی غرض ہی یہ ہوتی ہے کہ دوسری قوم کو خدانے جو رزق دیا ہے اور جو وسائل و ذرائع عطا کیے ہیں ، اس سے وہ خو د متمتع ہو ں اور اس قوم کو اتنا بے بس کر دیں کہ وہ کبھی ان کے مقابلے میں اپنا سر اٹھا کر اپنا حصہ نہ مانگ سکے ۔ اس غرض کے لیے وہ اس کی خوش حالی اور طاقت اور عزت کے تمام ذرائع ختم کر دیتے ہیں۔ اس کے جن لوگوں میں بھی اپنی خودی کا دم داعیہ ہوتا ہے، انھیں کچل کر رکھ دیتے ہیں۔ اس کے افراد میں غلامی، خوشامد ، ایک دوسرے کی کاٹ ، ایک دوسرے کی جاسوسی ، فاتح کی نقالی ، اپنی تہذیب کی تحقیر، فاتح تہذیب کی تعظیم اور ایسے ہی دوسرے کمینہ اوصاف پیدا کردیتے ہیں اور انھیں بتدریج اس بات کا خوگر بنا دیتے ہیں کہ وہ اپنی کسی مقدس سے مقدس چیز کو بیچ دینے میں تأمّل نہ کریں اور اجرت پر ہر ذلیل سے ذلیل خدمت انجام دینے کے لیے تیار ہو جائیں‘‘۔ (تفہیم القرآن:حصہ سوم: ص ۵۷۳)
ملوکیت کی انھی چالبازیوں اور مکاریوں کو اقبال نے جادو گری، ساحری، سازِ دلبری اور طلسم ِ سامری کا نام دیا ہے۔ سراج الدین پال کے نام ایک خط میں ’’ حکمران کی ساحری‘‘ کی تشریح وہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:’’ انحطاط کا سب سے بڑا جادو یہ ہے کہ یہ اپنے صید پر ایسا اثرڈالتا ہے ، جس سے انحطاط کا مسحور اپنے قاتل کو اپنا مربی تصو ّر کرنے لگ جاتا ہے ۔ یہی حال اس وقت مسلمانوں کا ہے‘‘۔
مطلق العنان حکمرانوں نے ہر دور میں بے بس اور کمزور انسانوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ فراعنۂ مصر ، تیمور ، چنگیز خان ، ہلاکو خان اور قدیم شاہانِ روم اس کی ادنیٰ مثالیں ہیں۔ دنیا کی کوئی قوم ملوکانہ چنگیزیت سے محفوظ نہیں رہی۔ بقول اقبالؔ:
ازو ایمن نہ رومی نے حجازی است!
شخصی حکومتوں میں بادشاہ اپنے سحر کو قائم رکھنے کے لیے اشرفیوں اور جاگیروں کی تقسیم اور لکھ ہزاری مناصب اور خلعتوں کے عطا ایسے حربوں سے کام لیتے تھے جبکہ جدید دور میں تمغے ، اعزازات اور اونچے مناصب اسی مقصد کو پورا کرتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں ’’سازِدلبری‘‘ کی حیثیت رکھتی ہیں:
شیاطینِ ملوکیت کی آنکھوں میں ہے وہ جادو
کہ خود نخچیر کے دل میں ہو پیدا ذوق ِ نخچیری
ان ’’ساز ہاے دلبری ‘‘کو انسان کے حلقۂ گردن میں ڈال کر اسے رسوا کیا گیا۔ حالانکہ وہ فطرتاً آزاد پیدا کیا گیاہے۔ اس عالم میں ملوکیت کے لیے جبر و استبداد کا کھیل جاری رکھنا مشکل نہیں ہوتا :
خواجگی میں کوئی مشکل نہیں رہتی باقی
پختہ ہو جاتے ہیں جب خوے غلامی میں غلام
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جبر و استبداد کایہ سلسلہ جب ایک خاص حد سے آگے بڑ ھ جاتا ہے توفطرت مداخلت کرکے ظالم کا ہاتھ روک دیتی ہے اور اسی قوم سے کوئی ایسافر د پیدا ہوتا ہے یا کوئی ایسی تحریک اٹھ کھڑی ہوتی ہے جو استبداد کا تختہ الٹ کر ملوکیت کو اس کی قبر میں دفن کر دیتی ہے:
خونِ اسرائیل آجاتا ہے آخر جوش میں
توڑ دیتا ہے کوئی موسیٰ طلسمِ سامری
فراعنۂ مصر‘ قیصرانِ روم ‘ اکاسرۂ ایران ‘ شاہانِ یونان اور دنیا کے دوسرے جابر حکمرانوں اور شخصی ملو کیتوں کا زوال اسی شعر کی ادنیٰ تفسیر ہے۔ اس شعر میں جو تلمیحات استعمال ہوئی ہیں‘ ان کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت موسیٰ فرعون کے گھرانے میں پرورش پا کر جوان ہوئے ۔ ایک روز شہر میں گھوم رہے تھے کہ ایک جگہ انھوں نے ایک اسرائیلی اور قبطی کو دست و گریبان دیکھا۔ قبطی حکمران قوم سے تعلق رکھتا تھا اور اسرائیلی رعایاتھے۔ فرعون کی سلطنت میں ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جاتے تھے ۔ حضرتِ موسیٰ ؑ یہ منظر دیکھ کر اپنے جذبات پر قابونہ رکھ سکے اور انھوں نے اسرائیلی کو پٹتا دیکھ کر اس کے مد ِ ّ مقابل قبطی کو ایک زوردار گھونسا رسید کیا‘جس سے وہ موقع ہی پرہلاک ہو گیا: ’’خونِ اسرائیل آجاتا ہے آخر جوش میں‘‘کا ایک اشارہ تو اسی واقعے کی طرف ہو سکتا ہے۔
دوسرے مصرعے میں ’’ طلسم سامری‘‘ کی تلمیح استعمال کی گئی ہے۔ یہ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ جب حضرت موسیٰؑ بنی اسرائیل کو لے کر جزیرہ نماے سینا میں پہنچ گئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو چالیس شب و روز کے لیے کوہِ طور پر طلب کیا ۔ آپ کی غیر حاضری میں ’’سامری‘‘ نامی ایک شخص نے سونے کو پگھلا کر ایک بچھڑے کی شکل بنائی ۔ یہ بچھڑا زندہ بیلوں کی سی آواز نکالتا تھا۔ بنی اسرائیل اس بچھڑے کی پرستش کرنے لگے۔ حضرت موسیٰ ؑ نے واپسی پر یہ ماجرا دیکھا تو انھیں سخت غصہ آیا۔ انھوں نے اپنی قوم کو لعنت و ملامت کی۔ سامری کا معاشرتی مقاطعہ کیا گیا یا وہ کوڑھ ایسی بیماری میں مبتلا ہو گیا۔
٭جمہوریت:
پانچویں صدی عیسوی میں رومن امپائر کا نظام درہم برہم ہو گیا۔ یورپ کی تمدنی و سیاسی اور معاشی وحدت بالکل پارہ پارہ ہو گئی۔ یورپ چھوٹے چھوٹے اجزا میں بٹ گیا اور نظام جاگیر داری (Feudal System)کا آغاز ہوا۔ کلیسا نے نوخیز نظامِ جاگیرداری سے موافقت کر لی (اور اس کا پشت پناہ بن گیا۔ یہ گویا ملوکیت کی نئی شکل تھی) پھر نشأت ثانیہ (Renaissance)کی ہمہ گیر تحریک سے یہ جمود ٹوٹا۔ خیالات‘ معلومات اور ترقی یافتہ طریقوں سے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ کلیسا اور جاگیرداری کے خلاف کشمکش شروع ہوگئی۔ ان دونوں کے خلاف قوم پرستی کا بت تراشا گیا۔ دین و سیاست میں تفریق پیدا ہوئی۔ اخلاقی اقدار کمزور ہو گئیں۔ زندگی کے ہر شعبے اور راہِ عمل میں مکمل آزادی کا پرچار ہونے لگا۔ یہی خیالات جدید جمہوریت کی بنیاد بنے۔
جدید مغربی جمہوریت کو اقبال نے اسی لیے قدیم ملوکیت کی نئی شکل قرار دیا کہ نتائج کے اعتبارسے یہ بھی قیصریت سے مختلف نہ تھی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مغرب میں دین و اخلاق کو سیاست سے بے دخل کر دیا گیا۔ تحریک نشأت ثانیہ کی انتہا پسندی کا نتیجہ یہ ہوا کہ میکاولی جیسے لوگوں نے کھلم کھلا کہا کہ سیاست میں اخلاقی اصولوں کا لحاظ رکھنا ضروری نہیں (اسی لیے علامّہ نے میکاولی کو ’’ مرسلے از حضرتِ شیطان‘‘ کہا ہے) اقبالؔ نے ’’ خضر راہ‘‘ میں دین و سیاست کی علاحدگی سے پیدا ہونے والے مفاسد کا ذکر اگرچہ بہت ہی اختصار کے ساتھ کیا ہے‘ مگر اس سلسلے میں اقبال کے نقطۂ نظر کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں :
نظامِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اور سیاست اگر’’لا دیں‘‘ ہو تووہ زہرِ ہلاہل سے بھی بڑ ھ کرخطرناک ہو گی۔
جمہوریت کااستبدادی نظام ‘ جسے اقبال نے ایک جگہ ’’دیو بے زنجیر‘‘ کہا ہے ‘ نتائج کے لحاظ سے ملوکیت اور شہنشاہی کے نظام سے بھی بد تر اور سخت گیر ثابت ہوا۔
اقبال کے نزدیک مغرب کے ظاہر و باطن میں واضح تفاوت ہے ۔ پیشانی پر رعایات‘ حقوق اور حمہوریت کے سائن بورڈلگے ہیں، قیامِ امن ‘ خوش حالی‘ ترقی اور آزادی کے فروغ کے لیے انجمنیں اور مجالس بنائی جاتی ہیں مگر جمہوری قبا میں ملبوس یہ ’’ دیو استبداد‘‘ اپنے پنجۂ ہوس سے کمزور قوموں کا شکار کھیلنے کے لیے ہر وقت آمادہ رہتا ہے۔ ’’ سرمایہ و محنت‘‘ کے عنوان کے تحت اقبال کہتے ہیں :
نسل ‘ قومیّت‘ کلیسا‘ سلطنت‘ تہذیب‘ رنگ
خواجگی نے خوب چن چن کر بنائے مسکرات
اس بلیغ شعر میں اقبال نے مغربی جمہوریت اور سامراجی نظام کے تلخ ثمرات (دین وسیاست کی علاحدگی ‘ نو آبادیاتی نظام ‘ نسلی امتیاز اور نیشنلزم کی لعنتوں) کی نشان دہی کی ہے۔
آگے بڑ ھنے سے پہلے عام قاری کی ایک ذہنی خلش دور کرنا ضرور ی ہے۔ جمہوریت بظاہر کوئی بری شے نہیں تو پھر اقبال باربار مغربی جمہوریت کی برائیاں کیوں گنواتے ہیں اور اس کی مذمت کیوں کرتے ہیں؟
مغربی جمہوریت کی بنیاد اس اصول پر ہے کہ حاکمیت کا اختیار عوام کو ہے اور کثرتِ راے سے وہ جو فیصلہ چاہیں ‘ کر سکتے ہیں، یعنی حق و صداقت اور خوب و ناخوب میں تمیز کرنا عوام کا کام ہے ۔ گویا انھیں مادر پدر آزادی میسر ہوتی ہے۔ مگر انسانی معاملات اور مسائل بہت پیچیدہ ہیں اور اس کے مقابلے میں انسان کا علم محدود ہے ۔ اس کی ظاہر بیں نظریں ہر معاملے کی تہ اور اس میں پوشیدہ نتائج و اثرات تک نہیں پہنچ پاتیں۔ بسا اوقات وہ ’’جمہوری حق‘‘ کے بل بوتے پر ایسی حرکت کر بیٹھتا ہے جس میں اسے اپنا فائدہ نظر آتا ہے مگر وہ اس کے لیے کسی گڑ ھے میں گرنے کے مترادف ہوتی ہے، مثلاً: یہ جمہوریت ہی کا کرشمہ ہے کہ برطانیہ میں ہم جنسیت (Homo-sexuality)کو جائز ٹھہرایا گیا ہے اور اس کے لیے باقاعدہ قانونی تحفظ موجود ہے اور اب امریکہ کی بعض ریاستوں میںہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی جواز مل گیا ہے۔ اسی طرح شراب نوشی طبی لحاظ سے صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ امریکی حکومت نے ۱۹۳۳ء میں شراب کی خرید و فروخت ‘ درآمد و برآمد‘ ساخت و پرداخت اور استعمال پر پابندی لگادی تھی، مگر امریکہ کے ’’ جمہور‘‘ نے شراب کی بندش کے قانون کو منسوخ کر ا دیا۔ وجہ کیا ہے؟ معاشرے میں اہل الراے ‘ فہمیدہ‘ جہاں دیدہ اور ملکی مسائل پر گہری نظر اور وقیع راے رکھنے والے لوگ ان لوگوں کے مقابلے میں اقلیت میں ہوتے ہیں جن کی اپنی کوئی راے نہیں ہوتی اور جنھیں کسی بھی فوری جذبے ‘ٖ اشتعال‘ لالچ ‘ خوف، ظاہر ی نفعے یا پرو پیگنڈے کے زور سے کسی ناجائز بات کے حق میں ہموار کرنا آسان ہوتا ہے۔ ’’ معیار‘‘ کو نظر انداز کرکے محض’’گنتی‘‘ کی بنیا د پر کیے جانے والے فیصلے بسا اوقات قوموں کو گمراہ کرتے ہیں ۔ رائج الوقت جمہوریت کے اصول (One man one vote)کی رو سے تو قائد اعظم یا علامّہ اقبال جیسا صاحب ِ فہم و بصیرت شخص اور ایک ان پڑھ دیہاتی برابر کی حیثیت رکھتے ہیں ان کی راے (ووٹ) کا وزن برابر ہے مگر دونوں کی تعلیم ‘ فہم و عقل‘ بصیرت و دانائی اور شعور و دانش میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ان پڑھ دیہاتی بھی بطور انسان بلاشبہہ واجب الاحترام ہے مگر دستور و قانون‘ اور دانش و حکمرانی کے امور و معاملات بہرحال اسے نہیں سونپے جاسکتے خواہ وہ کتنی ہی کثیر تعداد میں ووٹ کیوں نہ لے لے۔ اس لیے محض کثرت ‘ کوئی پایدار بنیاد نہیں ہے۔ہٹلر کثرتِ راے والی جمہوریت کے خلاف یہ دلیل دیا کرتا تھا کہ اگر سو گدھے ایک طرف ہوں اور ایک انسان دوسری طرف… تو ایک انسان کی بات صائب سمجھی جائے گی‘ نہ کہ ( جمہوریت پر عمل کرتے ہوئے ) سو گدھوں کی بات لائقِ ترجیح ہوگی۔ اقبال نے بھی یہی بات کہی ہے:
گریز از طرز جمہوری غلامِ پختہ کارے شو
کہ از مغزِ دو صد خر ‘ فکر انسانی نمی آید
٭سرمایہ داری:
یورپ میں سرمایہ داری.ٗ تحریک نشأت ثانیہ ‘ لبرل ازم اور روشن خیالی کے پس منظر میں ابھر ی تھی۔ مگر سرمایہ داروں نے اپنے طرزِ عمل سے ثابت کر دیا کہ ان کی روشن خیالی دراصل خود غرضی تھی۔ انھوں نے صنعتی انقلاب کے فوائد لوٹنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ معاشیات کا باوا آدم، آدم سمتھ آزاد معیشت کا سب سے بڑا وکیل تھا مگر اسے بھی تسلیم کرنا پڑ ا ۔ کہ کاروباری لوگ جب کہیں باہم جمع ہوتے ہیں تو ان کی صحبت پبلک کے خلاف سازش پر اور قیمتیں چڑ ھانے کے لیے کسی قرارداد ہی پر ختم ہوتی ہیں۔حد یہ ہے کہ تقریبات میں بھی مل بیٹھنے کا جو موقع مل جاتا ہے ‘ اس کو بھی یہ حضرات اس جرم سے خالی نہیں جانے دیتے۔
صنعتی انقلاب اور مشینوں کے فروغ سے دستی کاری گری کا خاتمہ ہوا اوربے روز گاری بڑھی۔’’بے روزگاری کسی ایک مسئلے کا نام نہیں ہے بلکہ وہ انسان کی مادّی ‘ روحانی ‘ اخلاقی اور تمدنی زندگی کے بے شمار پیچیدہ مسائل کا مورثِ اعلیٰ ہے‘‘۔ اس بے روز گاری کے سبب سودا چکانے کی ساری طاقت سرمایہ دار کے ہاتھوں میں جمع ہو گئی۔ افلاس اور خستہ حالی سے تنگ آکر مزدوروںکو کم اجرتوں پر بہت زیادہ وقت اور محنت کرنے پر راضی ہونا پڑا۔ وہ جانوروں کی طرح کام کرنے لگے۔ تنگ و تاریک مکانات میں رہنے لگے۔ ان کی صحتیں تباہ اور ذہنیتیں پست ہو گئیں۔ اخلاق بری طرح بگڑنے لگے۔ ( اسلام اور جدید معاشی نظریات: ص ۲۹- ۳۳)
اقبال کہتے ہیں کہ سرمایہ دار، صدیوں سے مزدور کا استحصال کرتا چلا آرہا ہے۔ ’’ساحرِالموط‘‘ کا اشارہ حسن بن صباح ( م: ۱۱۲۴ئ) کی طرف ہے۔ یہاں اقبال واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ایک سرمایہ دار بھی حسن بن صباح ہی کی طرح مزدور کا استحصال کرتا ہے اور مزدور کے لیے اس کے ظلم و استحصال سے بچ نکلنا اتنا ہی مشکل ہے جس قدر کسی باطنی یافدائی کے لیے حسن بن صباح کے چنگل سے نکل بھاگنا۔ یہاں اقبالؔ نے مزدور کی سادگی اور سرمایہ دار کی مکاری او ر حیلہ سازی کی طرف بلیغ اشارے کیے ہیں۔ اب نانِ جویں کو ترسنے والا مزدور مظلومیت کی تصویر بنا مایوسی کے عالم میں کھڑا ہے ، اقبالؔ اسے نوید سناتے ہیں:
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
اور:
آفتابِ تازہ پیدا بطن گیتی سے ہوا
یہاں اقبال کا اشارہ ۱۹۱۷ء کے روسی انقلاب کی طرف ہے۔ چونکہ دعویٰ یہ کیا جارہا تھا کہ اب روس میں مزدوروں کی حکومت قائم ہو گئی ہے، ا س لیے اقبال مزدور سے مخاطب ہوتے ہیں کہ ’’ تیرے دور‘‘ کا آغاز ہو چکاہے۔
بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں دنیا پر سرمایہ دارانہ نظام مسلط تھا اور ہر جگہ مزدوروں کا استحصال ہو رہا تھا، اس لیے روس میں’’ مزدوروں کی حکومت‘‘ قائم ہونے کا تاثر پھیلا اور سرمایہ داری اور مغربی سامراج کے جبر و استبدادکے مقابلے میں روسی انقلاب کو بالعموم سراہا گیا۔ اقبال نے بھی اسی تاثر کے تحت مزدور کو ’’آفتاب تازہ ‘‘ کی نوید سنائی، تاہم ابھی روسی اشتراکیت کے حقیقی خدوخال سامنے نہیں آئے تھے اور بعد میں جب اس کے بھیانک چہر ے سے نقاب ہٹی تو اقبال یہ کہنے پر مجبور ہوئے:
زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا
طریقِ کوہ کن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی
بنابریں یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ اقبال نے روسی انقلاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس توقع کا اظہار کیا کہ مستقبل میں یہ انقلاب مزدوروں کے لیے مفید ثابت ہوگا مگر یہ کہنا درست نہیں ( جیسا کہ اقبال کے بعض مفسّروں کو غلط فہمی ہوئی ہے) کہ یہاں اقبال نے اشتراکی انقلاب کی تحسین و توصیف کی ہے یا انھوں نے مزدوروں کو اشتراکیت اختیار کرنے کی تلقین کی ہے۔ ( یوں بھی یہ بات اقبال کے بنیادی افکا ر سے مطابقت نہیں رکھتی۔ معاً بعد اگلی ہی نظم میں اقبال نے ’’ طلوعِ اشتراکیت‘‘ کی نہیں ’’ طلوعِ اسلام‘‘ کی نویدسنائی ہے۔)
٭عالم اسلام:
’’دنیاے اسلام‘‘ کے تحت اقبال نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے، اس کا پس منظر عالم اسلام کی وہ صورت حال ہے جس کاذکر ابتدا میں کیاگیا ہے۔ خضر سے شاعر کا سوال ہے:
بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفیٰ
خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمانِ سخت کوش
جواب میں خضر کہتے ہیں:
کیا سناتا ہے مجھے ترک و عرب کی داستاں
مجھ سے کچھ پنہاں نہیں اسلامیوں کا سوز و ساز
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال عربوں اور ترکوں کی باہمی آویزش کے اسباب و علل اور نتائج و عواقب سے نہ صرف آگاہ تھے بلکہ اس کے بارے میں انھیں سخت تشویش تھی۔ پہلے شعر میں ’’ہاشمی ‘‘سے مراد مکہ کا شریف ( یعنی حکمران) حسین ہے۔ علامّہ کو اس بات کا سخت قلق تھا کہ عربوں نے ترکوں کے خلاف بغاوت کرکے ان کے خونِ ناحق سے ہاتھ رنگے۔ مغربیوں نے بھی پہلے جنگِ بلقان اور پھر جنگِ عظیم میں ترکوں کی قتل و غارت گری کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا:
ہو گیا مانندِ آب ارزاں مسلماں کا لہو
’’کلاہ ِلالہ رنگ‘‘ سے مراد خلافت ہے ۔ اس زمانے ( ۱۹۲۲ئ) میں ’’ نوجوان ترکوں ‘‘ خاص طور پر کمال اتاترک اور اس کے ہم خیال ساتھیوں نے ’’ خلافت‘‘ کے ادارے کو عضوِمعطل بنا کر رکھ دیا تھا۔ ان کے تیور بتارہے تھے کہ وہ خلافت کو، جوپہلے ہی براے نام تھی ‘ زیادہ دنوں تک برداشت نہیں کریں گے۔ خلافت کی اس بے وقعتی پر اقبال ہی نہیں، ہندستان کے تمام زعما اور درد مند مسلمان بے چین تھے۔ تحریک خلافت اسی بے چینی ‘ ملی احساس اور درد مندانہ تڑپ کا نتیجہ تھی۔ اس اضطراب کے نتیجے میں ہندستان سے سیدامیر علی اور سر آغا خاں نے ترک لیڈروں کو خط لکھا کہ دنیا بھر کے مسلمان، خلیفہ کی موجودہ غیر موثر حیثیت سے مطمئن نہیں لہٰذا خلافت کو پورے اختیارات کے ساتھ بحال کیا جائے۔ مگر اتاترک نے ۱۹۲۴ء میں خلافت کی بساط لپیٹ دی۔ اقبال کے نزدیک حکمت مغرب ( عیارانہ ڈپلومیسی یا سیاسی چال بازی) زوال مسلم کا ایک سبب ہے اور دوسری وجہ خود مسلمانوں کا اپنے مذہب و اخلاق سے انحراف ہے۔
اقبال مسلمانوں کی اس حالت زار پر سخت متاسف ‘ بے چین اور مضطرب ہیں۔ وہ پھر اسی سنہرے دور کے منتظر ہیں جب دنیا کے ایک بڑے حصے پر اسلام کی حاکمیت قائم تھی۔ مگر اس کی واپسی کے لیے ضروری ہے کہ اس وقت دنیا میں مسلمانوں نے اپنا جو (Image) بنا رکھا ہے ‘ اسے تبدیل کیا جائے مغربی تہذیب کی نقالی ‘ یورپ کی ذہنی غلامی اور اسلام کے بارے میں معذرت خواہانہ فرومایگی اسی کے مظاہر ہیں۔ یہ سب باتیں ’’ زمین و آسمانِ مستعار‘‘ کے ذیل میں آتی ہیں۔ جب تک مسلمان اسے پھونک نہیں ڈالتا اس وقت تک ’’ جہانِ نو‘‘ تعمیر ہونا ممکن نہیں ۔ نظم کے اس حصے میں اقبال نے فارسی کو فلسفۂ خودی کی طرف متوجہ کیا ہے۔
پھر مسلمانوں کی سربلندی ‘ دین کے تحفظ اور نظامِ اسلامی کے قیام کے لیے اتحادِ اسلامی ناگزیر ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کا باہمی اتحاد فکرِ اقبال کا اہم پہلو ہے۔ اس کی بنیاد اسلام ہے نہ کہ وطن ‘ نسل ‘ رنگ یا زبان ۔ فکر اقبال کا یہ پہلو‘ قرآنی تعلیمات سے ماخوذ ہے:
وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا َتفَرَّقُوْا( آل عمران: ۱۰۳)سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔
وَ لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَ ہُمُ الْبَیِّنٰتُ (آل عمران: ۱۰۵) کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایات پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے۔
علامّہ اقبال نے مسلمانوں کو ’’بتانِ رنگ و بو‘‘ کو توڑنے کا مشورہ دیا اس لیے کہ یورپ میں نسلی اور وطنی امتیاز کی بنیاد پر فروغ پانے والی قوم پرستی کے مہلک نتائج وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے۔ جناب وحید احمد کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’ اس زمانے میں سب سے بڑا دشمن‘ اسلام اور اسلامیوں کا، نسلی امتیاز و ملکی قومیّت کا خیال ہے۔ پندرہ برس ہوئے جب میں نے پہلے پہل اس کا احساس کیا، اس وقت میں یورپ میں تھا اور اس احساس نے میرے خیالات میں انقلابِ عظیم پیدا کر دیا‘‘۔ ( انوار اقبال: ص ۱۷۶)
عرب ترک آویزش کا سبب عصر نو کا یہی فتنہ ہے جس سے عرب دھوکا کھا گئے، مگر انھوں نے ابھی تک اس سے سبق نہیںسیکھا۔ اپنی داستانِ عبرت آج تقریباً ایک صدی بعد بھی عربوں کو متحد نہیں کر سکی۔ علامّہ اقبال کا یہ شعر عربوں کی موجودہ حالت کی تفسیر ہے:
نسل اگر مسلم کی ‘ مذہب پر مقد م ہو گئی
اڑ گیا دنیاسے تو مانندِ خاکِ رہ گزر
یہ شعر اور اس بند کا آخر ی شعر:
اے کہ نشناسی خفی را از جلی ہشیار باش
اے گرفتارِ ابوبکرؓ و علیؓ ہشیار باش
اسی آیت کریمہ ( وَ لَا تَفَرَّقُوْا…)کی تشریح ہے ۔ سیاسی اور بین الاقوامی سطح سے قطع نظر ‘ مسلمان دین و شریعت کی فروعی باتوں اور معمولی مسائل پر آپس میں الجھے ہوئے ہیں۔ مناظر ہ بازی اور شغلِ تکفیر مولویوں کا شیوہ بن چکا ہے ۔ ان کا سارا زور ایسے مسائل پر صرف ہو رہا ہے کہ حضراتِ صحابہؓ میں سیدنا ابوبکرؓ افضل تھے یا سیدنا علیؓ؟ اقبال مسلمانوں کو اس غلط روش سے محترز اور ہوشیار رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔آخری بند اختتامیہ ہے۔
خضر نے اس سے پہلے اس بات کی نشان دہی کی ہے کہ عالم اسلام کے لیے سب سے بڑا فتنہ مغرب کی سرمایہ دارانہ تہذیب اور فرنگی سامراج ہے جس نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سیاسی و اقتصادی اور ذہنی طور پر مسلمانوں کو تباہ کیاہے۔ دوسری طرف مغرب نے سائنسی ترقی کے سبب اپنی ہلاکت کا سامان خود مہیا کر لیا ہے۔ اب صورت حال بدل رہی ہے ۔ صیاد خود اپنے ہی دام میں الجھنے والا ہے۔ وہ زمانہ بہت قریب ہے جب سرمایہ دارانہ تہذیب اپنی موت آپ مرجائے گی۔ استعارے کی زبان میں یہ بات یوں بیان کی ہے:
تو نے دیکھا سطوتِ رفتارِ دریا کا عروج
موجِ مضطر کس طرح بنتی ہے اب زنجیر دیکھ
اس سے پہلے ’’شمع اور شاعر‘‘ میں اقبال کہہ چکے ہیں:
دیکھ لو گے سطوتِ رفتارِ دریا کا مآل
موجِ مضطر ہی اسے زنجیرِ پا ہو جائے گی
اقبال کو یقین ِ کامل ہے کہ دنیا کی امامت کا منصب یورپی تہذیب کی خود کشی کے سبب خالی ہونے والا ہے ۔ مسلمان اپنی خاکستر سے ایک جہانِ نو تخلیق کرکے اس منصب کو سنبھالیں گے۔اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر وہ صراطِ مستقیم پر چلتے رہے تو یقیناً دنیا میں انھیں غلبہ و اقتدار حاصل ہو کر رہے گا۔
اَنْتُمْ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (سورہ آل عمران: ۱۳۹)غلبہ و اقتدار تمھیں ہی حاصل ہوگا اگر تم مومن ہو۔
اور اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَاد (سورہ آل عمران :۹) اللہ تعالیٰ اپناوعدہ کبھی خلاف نہیں کرتا۔
ہر زماں پیش نظر لا یخلف المیعاد دار
میں اسی آیت کریمہ کی طرف اشارہ ہے۔
فنی تجزیہ
’’خضرراہ‘‘ ترکیب بند ہیئت کے گیارہ بندوں پر مشتمل ہے۔ یہ نظم بحر رمل مثمن محذوف الآخر میں ہے۔ بحر کا وزن اور ارکان یہ ہیں: فَاعِلَاتُنْ فَاعِلَاتُنْ فَاعِلَاتُنْ فَاعِلْنَ
٭نظم میں خضر کی کردار کی اہمیت:
’’ خضرراہ‘‘ میں حیات انسانی اور دورِ حاضر کے چند مسائل پر بحث کی گئی ہے ۔ اقبالؔ نے نظم کے آغاز ہی میں خضر کے سامنے چند سوالات پیش کر کے قاری کی دلچسپی اور تجسس کو ابھارا ہے۔ سوالات کا خاتمہ اس شعر پر ہوتا ہے:
آگ ہے ‘ اولادِ ابراہیم ہے ‘ نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے
اب خضر سے جوابات سننے کا اشتیاق تمام حسیات کو سمیٹ کر سماعت کے مرکز پر لے آتا ہے اور قاری کویوں معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی بہت بڑا پیغمبر یا فلسفی‘ کائنات اور زندگی کے اہم گوشوں کو بے نقاب کرنے کے لیے اسٹیج پر آ کھڑا ہوا ہے۔ نظم میں یہ ڈرامائی کیفیت جس نے بیان کو زیادہ مؤثر‘ با وزن اور بھر پور بنا دیا ہے ‘ صرف اس لیے پیدا ہوئی ہے کہ شاعر نے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے خضر کے کردار کو ذریعہ یا واسطہ بنایا ہے۔ اگر اقبال زیر بحث مسائل پر سیدھے سادے طریقے سے ( بزبانِ خویش) اظہارِ خیال کر دیتے ( اور خضر کا کردار معرض گفتگو میں نہ لاتے ) تو ایک طرف تو نظم بالکل سپاٹ رہ جاتی اور دوسری طرف ان کے افکار و خیالات میں پیغمبرانہ فرمان کی وہ شان پیدا نہ ہوتی جو ہمیں نظم کی موجودہ صورت میں ملتی ہے۔ کیونکہ پہلی صورت میں اقبال جن خیالات کا اظہار کرتے وہ ایک انسان کا نتیجۂ فکر ہوتے ( جس کا علم بھی محدود ہے اور نظر بھی ) مگر موجودہ صورت میں خیالات ایک ایسی ہستی( خضر ) کے ہیں جو ’’ چشم ِ جہاں بیں ‘‘ ہے اور جس کے علم کا یہ حال ہے کہ :
علم موسیٰ ؑ بھی ہے تیرے سامنے حیرت فروش
نظم میں اقبال نے اپنے افکار و خیالات کو جس تیقن ‘ اعتماد اور زورد ار طریقے سے پیش کیا ہے‘ اس کا سبب خضر کا کردار ہے اور نظم میں خضر کے کردار کی یہی اہمیت ہے۔
مگر اس اہمیت کا ایک سبب اور بھی ہے ۔ نظم کے ابتدا میں ایک پر اسرار کیفیت طاری ہے جیسے ابھی ہمارے سامنے کسی طلسماتی دنیا کے اوراق کھلنے والے ہیں۔ یہاں قاری کی ذہنی کیفیت روایتی داستان سننے والے سامع سے مختلف نہیں۔ وہ پورے اشتیاق ‘دلچسپی اور انہماک کے ساتھ نظم کی طرف متوجّہ ہو جاتا ہے۔ اس کا سبب بھی خضر کا کردار ہے۔ اگر اقبال خضر کے کردار کا سہار ا نہ لیتے تو نظم کی طر ف قاری کو یوں متوجّہ کرنا اور اس کے لیے نظم میں اس درجہ انہماک پیدا کرنا ممکن نہ تھا۔
٭ڈرامائی کیفیت:
’’خضرراہ‘‘ میں اقبال جو باتیں کہنا چاہتے ہیں ‘ قارئین ( یا سامعین ) کے لیے انھیں زیادہ باوزن اور مؤثر بنانے کی خاطر انھوں نے خضر کے کردار کا سہارا لیا ہے اور اس طرح نظم میں ایک ڈرامائی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔
ڈرامے کا پہلا سین ساحلِ دریا کا وہ منظر ہے جہاں شاعر دلِ مضطرب کے ساتھ محو نظارہ ہے۔ پورے ماحول پر ایک گہراسکوت چھایا ہوا ہے۔ جس کا حیرت افزا تأثر قاری میں تجسس پیدا کرتا ہے۔ وہ گہرے سکوت کے اس سمندر میں چھپے ہوئے کسی طوفان کا منتظر ہے‘ یہاں تک کہ خضر اسٹیج پر نمودار ہو کر مکالمے کی ابتدا کرتا ہے:
…… اے جویاے اسرارِ ازل
چشم دل وا ہو تو ہے تقدیر عالم بے حجاب
جواباً شاعر خضر سے مختلف سوالات پوچھنا شروع کرتا ہے۔ اس کے پاس سوالات کی ایک طویل فہرست ہے۔ شاعر کے ’’ جہانِ اضطراب‘‘ میں ایسی شدت ہے کہ وہ ایک سوال کرکے اس کے جواب کا انتظار نہیں کر سکتا بلکہ بیک وقت سارے سوالات خضر کے سامنے پیش کر دیتا ہے۔ ڈرامے کا باقی حصہ خضر کے طویل جواب پر مشتمل ہے۔ شاعر نے جس ترتیب کے ساتھ خضر کے سامنے حیات و کائنات اور بین الاقوامی سیاست کے بارے میں سوالات پیش کیے ہیں‘ وہ اسی ترتیب سے ان کے تفصیلی جوابات دیتے چلے جاتے ہیں ۔ حتیٰ کہ خضر کے جوابات کے دوران میں نظم کے اختتام تک شاعر کوئی مزید سوال نہیں کرتا۔ خضر کے جوابات اتنے جامع‘ مفصل اور شافی و کافی ہیں کہ شاعر کا ہمہ پہلو اضطراب پوری طرح رفع ہو جاتا ہے اور اسے مزید کوئی سوال حل کرنے کی حاجت نہیں رہتی۔ اس ڈرامائی کیفیت نے شاعر کے بیان کو زیادہ جاندار اور مؤثر بنا دیا ہے۔
٭نظم کا دھیما لہجہ:
بحیثیت مجموعی نظم کا لہجہ نرم ‘ ملائم اور دھیما ہے۔ پہلے بند کا سکوت افزا منظر اور الفاظ کی نرمی‘ لہجے کا دھیما پن ظاہر کر رہی ہے۔ اس حصے میں شاعر کے محتاط لہجے سے گویا’’ سرھانے میرؔ کے آہستہ بولو‘‘ والی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ اس کے بعد کم و بیش پوری نظم کے لہجے میں نرمی اور دھیما پن غالب ہے۔ اگر کہیں لا شعوری طور پر پُرجوش کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے تو (ہرچند کہ اس کے معقول اسباب ہوتے ہیں) شاعر اسے دوبارہ مدھم کر دیتا ہے‘ مثلاً: دوسرے ہی بند میں جہاں شاعر‘ خضر کے سامنے مختلف سوالات پیش کر رہا ہے‘ اس کے لہجے سے شدت اور جوش جھلکتا ہے:
فطرتِ اسکندری اب تک ہے گرمِ ناو نوش
_______
بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفی
خاک و خوں میں مل رہاہے ترکمانِ سخت کوش
یہاں شاعر جن واقعات کی طرف اشارہ کر رہا ہے، وہ اس کے لیے شدید رنج و غم اور اضطراب کا باعث ہیں‘ اس لیے اس کے لب ولہجے میں قدرے گرمی و جوش کا پیدا ہونا فطری ہے ۔ پھر اس گرمی و جوش میں سوز وگداز بھی شامل ہے۔ ’’ صحر ا نوردی‘‘ کے حصے میں لہجہ دھیما اور نرم ہے۔’’ زندگی‘‘ چونکہ شاعر کے نزدیک’’ گردشِ پیہم‘‘ اور ’’ پیہم دواں ہر دم جواں‘‘ ہے جس میں انسان کو ’’ تیشہ و سنگِ گراں‘‘ سے سابقہ پیش آتا ہے اور اس کی ’’ قو ّتِ تسخیر‘‘ کی آزمایش بھی ہوتی ہے‘ اس لیے نظم کے اس حصے میں قدرے جوش و خروش پیدا ہو گیا ہے مگر دوسرے ہی بند میں شاعر نے :
تا بدخشاں پھر وہی لعلِ گراں پیدا کرے
اور :
سوے گردوں نالہ ٔ شب گیر کا بھیجے سفیر
رات کے تاروں میں اپنے رازداں پیدا کرے
کہہ کر پُرجوش لب و لہجے (Tone)کو مدھم کر دیا ہے۔ یہ مدّ و جزر اور اتار چڑھاؤ نظم کے باقی حصوں میں بھی موجودہے ۔
بحیثیت مجموعی نظم پر دھیما پن غالب ہے۔ اختتام بھی ناصحانہ ہے اور نصیحت نرم لہجے میں ہی کی جاتی ہے۔ لہجے کی نرمی اور دھیمے پن کا سبب ’’ خضر راہ‘‘ کے کرداروں ( شاعر اور خضر )کی حیثیت اور ان کا مقام و مرتبہ بھی ہے۔ شاعر کی حیثیت ایسے جویاے حق انسان کی ہے جو کائنات کے ان اسرار و رموز اور بین الاقوامی مسائل اور پیچیدگیوں کا حل چاہتا ہے جو اس کے ذہن کو الجھائے ہوئے ہیں۔ گویا خضر کے سامنے اس کی حیثیت ایک طالب علم کی ہے اور ظاہر ہے کہ طالب علم کا لہجہ جوش و خروش اور تندی و تیزی کا نہیں ‘ بلکہ نرمی اور ملائمت کا اور مؤدبانہ ہوتا ہے۔ دوسری طرف خضرؑ ایک صاحب علم اور صاحب نظر بزرگ ہیں۔ اس لیے ’’ اسرارِازل‘‘ کے لہجے میں نرمی او ر دھیما پن ‘ مقامِِ استاد کے تقاضے کے عین مطابق ہے۔ جہاں ان کا لہجہ قدرے پرجوش ہوتا ہے ‘ وہ بالکل ایسے ہے جیسے ایک استاد کوئی عالمگیرسچائی بیان کر رہا ہوتو دلائل و براہین کے ساتھ اس کے جذبات بھی شامل ہو جاتے ہیں۔
’’ خضر راہ‘‘ میں لہجے کی نرمی اور دھیمے پن کے ساتھ بیان کی متانت اور سنجیدگی بھی پائی جاتی ہے۔ اقبال نے سید سلیمان ندوی کے نام ایک خط میں وضاحت کی ہے کہ لہجے میں دھیمے پن اور بیان میں متانت کا سبب خضر کا وہ کردار ہے جس کا تصو ّر ہم سورۃ الکہف کے مطالعے سے حاصل کرتے ہیں ۔ (اقبال نامہ‘ اول: ص ۱۱۹)
٭رنگِ تغزل:
’’خضرراہ‘‘ اگرچہ ایک نظم ہے جس میں حیات و کائنات کے حقائق و ٹھوس مسائل کو موضوعِ سخن بنایاگیا ہے مگر چونکہ اقبال کے مزاج میں شعریت اور تغزل رچابسا ہے‘ اس لیے غزلوں کے علاوہ ان کی بیشتر نظموں میں بھی تغزل کا رنگ نمایاں ہے۔ ’’خضر راہ‘‘ کے بعض حصوں اور شعروں میں ہمیں اقبال کا یہی رنگِ تغزل نظر آتا ہے:
ریت کے ٹیلے پہ وہ آہو کا بے پروا خرام
وہ حضر بے برگ و ساماں‘ و ہ سفرِ بے سنگ و میل
تازہ ویرانے کی سوداے محبت کو تلاش
اور آبادی میں تو‘ زنجیریِ کشت و نخیل
برتر از اندیشۂ سود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی
جادوے محمود کی تاثیر سے چشم ایاز
دیکھتی ہے حلقۂ گردن میں سازِ دلبری
ہو گئی رسوا ‘ زمانے میں کلاہِ لالہ رنگ
جو سراپا ناز تھے ‘ ہیں آج مجبورِ نیاز
اور اس طرح کے بہت سے دوسرے اشعار اس رنگِ تغزل کا پتا دیتے ہیں جو اقبال کی شاعری کا ایک نمایاں وصف ہے اور جو کسی طر ح چھپائے نہیں چھپتا۔ ’’ خضرراہ‘‘ میں تغزل کی یہ روح جابجا آشکارا ہے۔
٭دیگر فنی محاسن:
’’ خضر راہ‘‘ اگرچہ اس دور میں لکھی گئی جب اقبال کی شاعری فنی ارتقا کے ان مدارج پر نہیں پہنچی تھی جہاںاقبال نے ’’ مسجد قرطبہ‘‘ ’’ ذوق و شوق‘‘ اور ’’ساقی نامہ‘‘ ایسے شاہ کار تخلیق کیے‘ اس کے باوجود ’’ خضرراہ‘‘ میں اقبال کی فنی انفرادیت نمایاں ہے۔فنی محاسن کے چند نمایاں پہلو ملاحظہ ہوں:
الف: نادر تراکیب:
قلزمِ ہستی‘ شہیدِ جستجو‘ پیکِ جہاں پیما‘ نقدِ حیات ‘ تگا پوے دمادم‘ ضمیر کن فکاں‘ شمشیرِ بے زنہار‘ سازِ دلبری‘شاخِ آہو‘ شاخِ نبات‘ اعرابی والا گہر وغیرہ۔
ب: تشبیہا ت:
جس کی پیری میں ہے مانند سحر رنگ شباب
_______
قلزمِ ہستی سے تو ابھرا ہے مانند حباب
_______
غنچہ ساں غافل ترے دامن میں شبنم کب تلک
_______
ہو گیا مانند آب ارزاں مسلماں کا لہو!
جیسے گہوارے میں سو جاتا ہے طفلِ شیرخوار
موج مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مستِ خواب
ج:۔مرصّع کاری:اقبال نے شعوری طور پر لفظی صنعت گری کی طرف کبھی توجّہ نہیں دی کیونکہ انھیں اپنے بقول:’’ فن کی باریکیوں کی طرف توجّہ دینے کے لیے وقت نہیں ملا‘‘۔ تاہم ان کے کلام میں صنائع بدائع کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے جو اقبال کی غیر شعوری فنی مہارت کا شاہ کار ہے۔ ’’ خضرراہ‘‘ سے چند مثالیں:
۱۔صنعتِ تلمیح:
بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفی
خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمانِ سخت کوش
_______
زندگانی کی حقیقت کوہ کن کے دل سے پوچھ
جوے شیر و تیشہ و سنگِ گراں ہے زندگی
_______
ساحرِ الموط نے تجھ کو دیا برگِ حشیش
_______
وہ سکوتِ شامِ صحرا میں غروبِ آفتاب
جس سے روشن تر ہوئی چشم جہاں بینِ خلیل
_______
آ بتاؤں تجھ کو رمز آیۂ اِنّ الملوک
۲۔ صنعتِ تجنیس محرف:( دو الفاظ کا حروف کی تعدا د ترتیب کے اعتبار سے مشابہ ہونا لیکن اعرب کے لحاظ سے مختلف ہونا) :
خام ہے جب تک تو ہے مٹی کا اک انبار ہے تو
پختہ ہو جائے تو ہے شمشیرِ بے زنہار تو
۳۔ صنعتِ ملمّع:( کلام میں ایک سے زیادہ زبانیں جمع کرنا۔ ایک مصرع اردو‘ دوسرا فارسی میں۔)
ملک ہاتھوں سے گیا ‘ ملت کی آنکھیں کھل گئیں
حق ترا چشمے عطا کردست غافل درنگر
۴۔ صنعت مراعاۃ النظیر:
آگ ہے ‘ اولادِ ابراہیم ہے ‘ نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے
۵۔ صنعت ترافق: ( جس مصرعے کو چاہیں ‘ پہلے پڑ ھیں،معنی میں کوئی فرق نہ آئے) :
رات کے افسوں کے طائر آشیانوں میں اسیر
انجم کم ضو گرفتارِ طلسم ماہ تاب
د: محاکات:
’’خضر راہ‘‘ میں محاکات یا تصویر کاری کی بہت خوب صورت مثالیں ملتی ہیں۔ امیجری کا ایک عمدہ نمونہ نظم کاپہلا بند ہے جس میں شاعر کو دریا کے ساحل پر ٹہلتا ہوادکھایا گیا ہے۔ یہاں الفاظ کا انتخاب اور تشبیہات کا استعمال بھی پرسکوت تصویر کے عین مطابق ہے۔ جناب غلام رسول مہرؔکے بقول:’’ خضر راہ‘‘ کا موضوع منظر کشی نہ تھا‘ تاہم جہاں کہیں اتفاقیہ موقع آگیا ہے‘ وہاں اس کمال کی کرشمہ فرمائیاں بھی دیدنی ہیں‘ مثلاً: ابتدا میں رات کے وقت ساحل دریا کی کیفیت ملاحظہ ہو:
شب سکوت افزا ‘ ہو ا آسودہ ‘ دریا نرم سیر
تھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصویر آب
جیسے گہوارے میں سوجاتا ہے طفل شیر خوار
موج مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مست خواب
رات کے افسوں سے طائر آشیانوں میں اسیر
انجم کم ضو گرفتارِ طلسم ماہ تاب
دیکھیے تین شعروں میں صر ف چند چیزیں پیش کی ہیں لیکن زمین سے آسمان تک پورے ماحول کی مکمل تصویر لفظوں میں اتار دی ۔ پھر منظر کی مناسبت سے الفاظ چنے‘‘۔ ( مکاتیب اقبال بنام گرامی: ص ۲۰۹- ۲۱۰)دوسر ی خوب صورت تصویر ’’ صحرا نوردی‘‘ کے تحت صحرائی منظر ہے۔ اسی طرح آخری بند میں ایک منظر:
آفتابِ تازہ پیدا بطنِ گیتی سے ہوا
آسماں ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک
توڑ ڈالیں فطرتِ انساں نے زنجیریں تمام
دوریِ جنت سے روتی چشمِ آدم کب تلک
فنی محاسن کے یہی وسیلے’’ خضر راہ‘‘ کے حسن و دل کشی میں اضافہ کرتے ہیں اور اسی سے وہ رنگیں بیانی پیدا ہوتی ہے جس کے بارے میں اقبال نے کہاہے :
شاعرِ رنگیں نوا ہے دیدۂ بیناے قوم
مولانا غلام رسول مہر لکھتے ہیں: ’’ خضرراہ‘‘ یقیناً ایک بے مثال نظم ہے۔ اس میں اقبال کی شاعری نئی اوج گاہوں پر پہنچ گئی [ ہے] … اس کے اکثر اشعار کی مثال کلامِ اقبال کے سوا اردو یا کسی دوسری زبان کی قومی شاعری میں نہیں مل سکتی‘‘۔ ( مکاتیب اقبال بنام گرامی: ص ۱۲۵)
หวยจ่ายไว
نومبر 7, 2019หวยจ่ายไว