سراپا نگاری کو شعروسخن کا جزوِ اعظم قرار دیا جاۓ تو غلط نہ ہو گا۔محبوب اور اشیا و مظاہرہ کی ایک اک ادا کو جزوِ سخن بنایا گیا ہے ،ایک مضمون کو سو رنگ سے باندھنے کا میلان عام ہے ۔ولی محبوب کے لب کو لعلِ بدخشاں اور میر تقی میر گلاب کی اک پنکھڑی ایسا قرار دیتے ہیں،غالب قیامت کے فتنے کو محبوب کے سروقامت کے مقابلے میں کمترخیال کرتے ہیں،قطار اندر قطار کھلے پھولوں پر اقبال کو پریوں کا گمان گزرتا ہے وہ ” حُسن و عشق” کے مکلامے میں حُسن کو برقرار اور عشق کو حاصل قرار دیتے ہیں،نظم "جلوہ حسن” کا مطلع ہے:
جلوہ حُسن کہ ہے جس سے تمنا بیتاب
پالتا ہے جسے آغوشِ تخیل میں شباب
اور ساتھ ہی ” حقیقتِ حُسن”ایسی آفاقی موضوع کی حامل نظم اقبال کے تصورِ حُسن کی بھرپور ترجمانی کرتی ہے :
خُدا سے حُسن نے اِک روز یہ سوال کیا
جہاں میں کیوں نہ مجھے تُو نے لازوال کیا
ملا جواب کہ تصویر خانہ ہے دُنیا
شبِ درازِ عدم کا فسانہ ہے دُنیا
ہوٸ ہے رنگِ تغیر سے جب نمود اس کی
وہی حسیں ہے حقیقت زوال ہے جس کی
حُسن کیا ہے !اس کی حقیقت کیا ہے! یہ موضوع ایسا ہے ہر خطّے ،ہر زبان اور کم و بیش ہر دانش ور، شاعر نثر اور نویس نے اس پر اپنے اپنے رنگ ڈھنگ سے اظہارِ خیال کیا ہے ۔اِس وقت میرے پیش نظر ممتاز ماہرِ نفسیات و فلسفہ پروفیسر سید کرامت حسین جعفری کی ایک تحریر ہے،یہ تحریر ادبی رسالہ ” ادبی دنیا” لاہور میں ” بحث و نظر” کے زیرِ عنوان شامل ہے،اس بحث میں سید علی عباس جلالپوری اور وزیر آغا نے بھی اپنی الگ الگ آرا ٕکے ساتھ حصہ لیا۔ ” ادبی دنیا ” کے مدیر مولانا صلاح الدین احمد اور شریک مدیر وزیر آغا ،ایم اے،پی ایچ۔ڈی تھے،یہ بحث خاص نمبر،دورِ پنجم،شمارہ ہفتم کے صفحات نمبر ٢١٣ تا ٢٢٢ کو محیط ہے۔
سید کرامت حسین جعفری اپنی راۓ کی ابتدا فلسفیوں کے اس خیال سے کرتے ہیں کہ خیروحق کی طرح حُسن کی قدروقیمت بھی اس کی اپنی ذات ہی میں پاٸ جاتی ہے۔وہ اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ تلاشِ حُسن،خیروحق کی تلاش کی طرح انسانی ذہن کے ارفع و اعلیٰ مقاصد میں سے ہے لیکن ان زاویوں کو تشکیک کی نظر سے دیکھتے ہیں کہ حُسن افلاطونی اعیان کی طرح کوٸ قایم بالذات شے ہے جو اپنے مظاہرہ سے علیحدہ اپنا وجود رکھتی ہے یعنی حُسن کوٸ ایسی دیوی ہے جو عالمِ محسوس سے بالا تر کسی مقام پر بیٹھی ہوٸ اپنی جلوہ فروشیوں سے اس دنیا کو منوّر کر رہی ہے۔ کرامت حسین جعفری اس اس امر کو تسلیم نہیں کرتے کہ حُسن شے میں نہیں ہوتا بلکہ دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتا ہے،وہ حُسن کے بارے میں تصوّریت کے نقطہ نظر کہ کوٸ شے اس لیے حسین ہے کہ وہ شریکِ حسن ہے کے بارے میں کہتے ہیں ” حُسن ایک غیر مرٸ شے مطلق ہے جس میں شرکت کی وجہ سے حسین چیزیں حسین ہوتی ہیں،یہ نظریہ ہمارے اندر تجسس کا راستہ بند کر دیتا ہے۔تصوریت کا نقطہ نظر نہ صرف موضوعی ہے بلکہ متدایر بھی ہے جو ہمیں پورا چکر دے کر پھر نقطہ آغاز پر لے آتا ہے "۔(ص٢١٤)،
کرامت حسین جعفری حُسن کے لیے ایک معیار کی ضرورت پر زور دیتے ہیں:
” ہمارے لیے معروضی معیار کو مرتب کرنا خیروصداقت کے معیار کو مرتب کرنے کی نسبت زیادہ مشکل کام ہے، ہم کسی خیال یا تصور کی حقّانیت یا کسی فعل کے خیر ہونے کا فیصلہ غیر جذباتی طور پر کر سکتے ہیں لیکن کسی شے کو حسین سمجھنے میں ہمارے احساسات کارفرما ہوتے ہیں،حسن کی جلوہ گاہ میں آ کر کوٸ شخص اپنے جذبات و احساسات سے مستغنی نہیں رہ سکتا جس طرح عقل اور غیر جذباتی طور پر ہم کسی بیان کو سچائی یا کسی فعل کو اچھا کہہ سکتے ہیں اسی طرح ہم ایک پارہ موسیقی کو حسین نہیں کہہ سکتے،بے شک ہم سماعت کے بعد کسی قدر لاتعلقی کے ساتھ اس پارہ موسیقی کے حسین ہونے کا اعلان کر سکتے ہیں لیکن سماعت کے وقت ہم غیر جذباتی نہیں رہ سکتے۔پس ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ حُسن میں ایک جذباتی اور عالمگیر معنویت پنہاں ہوتی ہے "۔(ص٢١٤۔٢١٥)،
کرامت حسین جعفری اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ حُسن کا معیار زمانے اور مقام کے مطابق تبدیل ہوتا رہتا ہے اس ضمن میں وہ مارلین منرو اور ایک افریقی وحشی کی محبوبہ کے حُسن کی مثال دیتے اور لکھتے ہیں کہ یہ معیار ایک محدود نوعِ جمال پر ہی اطلاق پذیر ہوتے ہیں جس میں اُس جنسی دلچسپی کا زیادہ حصہ ہے جسے مخصوص روایات کے باعث ایک خاص جذباتی معنویت حاصل ہو گیی ہے۔جسمِ انسانی کے مختلف نقاط پر جنسی دلچسپی کا مرکز انفرادی اور غیر یقینی طوردی پر بدلتا رہتا ہے،لہٰذا ایسا معیارِ حسن جو جنسی دلچسپیوں کے تلوّن پر منحصر ہو لازمی طور پر زمانے اور مقام کے ساتھ تبدیل ہوتا رہے گا”(ص٢١٥)۔
سید کرامت حسین جعفری ذہنی زندگی اور خارجی حقیقت کے گہرے ربط کی بات بھی کرتے ہیں۔ان کی راۓ میں ” اِس ربط کی سب سے زیادہ ارتقا یافتہ صورت ہمارا شعور ہےجس کے ذریعے ہمیں یہ علم ہوتا ہے کہ ہم اپنے آپ سے ایک بڑی کاینات کے اجزا ہیں لیکن شعورو آگاہی کا منبع ہماری جذباتیت ہے کیونکہ جذباتی ارتقا داخلی حقایق سے خارجی حقایق تک رساٸ حاصل کرنے ہی کا نام ہے "(ص٢١٥)۔
کرامت حسین جعفری حُسن کو ایک تجربہ قرار دیتے ہیں،اس ضمن میں اُن کے مضمون کے چند اہم نکتہ ملاحظہ ہوں :
* ایک چیز اِس لیے حسین ہوتی ہے کہ اُس میں نوعِ انسانی کے لیے ایک معنویت پوشیدہ ہوتی ہے۔
* حُسن کی معروضیت کی وجہ اس کی معنویت کا عالمگیر ہونا ہے اور جمالیات کا منصب اس معنویت کی نوعیت دریافت کرنا ہے۔
* حُسن انسانی تجربے سے ماوراخلاص کوٸ غیر مجسّم حقیقت نہیں ۔
* یہ ایک قدر ہےجس کا شعور انسان کو مشاہدہ و تجربہ سے حاصل ہوتا ہے۔
* حُسن اشیا کی وہ صفت ہے جو شکل و صورت یا رنگ و صوت کے وسیلے سے ہمارے اندر کاینات کے ساتھ ہماری وحدت و یگانگت کے احساس کو پیدا کرتی ہے۔
* حُسن کی ماہیت کو سمجھنے کے لیے ہمیں اِس دنیا سے ماورا کسی غیر محسوس دنیا کے وجود کو فرض کرنے کی ضرورت نہیں۔
* شفق کے حُسن کا انحصار کسی غیر مرٸ شے پر نہیں ہوتا،ہماری دنیا جس کا مشاہدہ ہم حواس کے ذریعے کرتے ہیں بذاتِ خود ایک حقیقی اور حسین دنیا ہے ۔
* جب ہم کسی حسین شے سے محظوظ ہوتے ہیں تو اس عمل میں ہماری اِنفعالی اور فعالی دونوں صفات کارفرما ہوتی ہیں اور اُس شے کا حُسن خود اس شے کے اندر حقیقی معنوں میں پایا جاتا ہے،ہم اس کی تخلیق نہیں کرتے۔
* میں حُسن کو ایک ایسا کُل سمجھتا ہوں جو اشیا کے عناصرِ ترکیبی کی جمالیاتی موزونیت سے پیدا ہوتی ہے۔
حُسن اور اُس کی حقیقت کے حوالے سے سید کرامت حسین جعفری کے کا زیر نظر مضمون مختصر ہے مگر اپنی پنہاییوں اور معنویت کے اعتبار سے بہت جامع ہے ۔ماہرینِ نفسیات و فلسفہ میں اُن کی راۓ ذاتی ہوتے بھی حُسن و جمال کے طالب علموں کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اور اِس ضمن میں مزید مطالعے کی تحریک پیدا کرتا ہے ۔