از: نوید فدا ستی
اقبال نے کسی وجد آفریں کیفیت کے زیرِ سایہ انکشافِ ذات کے مہربان ترین لمحات میں یہ شعر کہا ہو گا جس میں تخلیق کار اور تخلیق ایک ہو جاتے ہیں شعر ملاحظہ کیجے۔
مقامِ گفت گو کیا ہے اگر میں کیمیا گر ہوں
یہی سوزِ نفس ہے اور میری کیمیا کیا ہے
بنیادی طور پر کیمیا دو خصوصیات کے حامل مرکبات یا عناصر کو آپس میں مشتبہ کر کے ان کی مدد سے کسی تیسرے مرکب کے تیار ہونے جیسے تخلیقی پُراسرار ، خواب ناک اور حیران کُن عمل کو کہتے ہیں یعنی موجودات کا وصال کروا کر اک نئی چیز کو ظہور میں لانے کو کیمیا کہا جاتا ہے۔ ادب میں کیمیا گری تانبے کو سونا بنانے کے عمل سے عبارت ہے یعنی لفظوں اور مصرعوں کو یک جان کر کے ایک خوب صورت شعر کی شکل میں تخلیق کرنا یہ ہو بہ ہو سونا بنانے کے قدیم عمل جیسا زیرک ہے زمانوں میں کیمیا گری کے فن کے مالک کو کاہن کا درجہ حاصل ہے اور یہ درجہ بادشاہوں کے دربار میں سب سے ذہین آدمی کے پاس ہوتا ہے کاہن اس آدمی کو کہتے ہیں جو قوموں کے نصیب ان کے معروضی حالات علمِ نجوم کی مدد سے بتاتا تھا کاہن کا درجہ بڑے بڑے بادشاہوں کو نصیب نہیں ہوتا ادب میں کاہن یعنی کیمیا گر اس آدمی کو کہا جائے گا جو لفظوں کا بازی گر ہو جس کے پاس لفظوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہو اور اُس ذخیرے سے وہ کئی نئے جہان تخلیق کرنے کا لازوال ہنرجانتا ہو۔ جو بے جان لفظوں کو زندگی بخشنے کا فن کرتا ہو جسے مختلف ایلمنٹ کو یک جا کر کے ان ایلمنٹ سے اک نئی خاصیت کو جنم دے کر نئے نئے تخلیقی پھول کاڑھنے آتے ہوں کیمیا گر یا کاہن کہلائے گا میں شعری دنیا میں اس مرتبے پر دلاورعلی آزر کو مکمل آب و تاب اور پورے قد و قامت کے ساتھ دیکھتا ہوں جس کی دلیل میں چند اشعار پیش خدمت ہیں۔
اُس نے آہستہ سے انصاف کا پلڑا کھینچا
اور سنا دی گئی مٹی کو سزا پانی کی
مجھے دکھائی بھی دینے سے رہ گیا ہے وہ چاند
مری نشت ستارے نے کیا بدل دی ہے
ورنہ یہ لوگ کہاں اپنی حدوں میں رہتے
میں نے معقول کیا حاشیہ برداری کو
یہ ہیولا جو رُکا ہے تری دنیا بن کر
یہ پسِ ارض و سماوات کہاں تک جاتا
ہو گئے انتظار میں پتھر
ہم محبت کے سومنات میں تھے
کوئی تو ہے کہ جسے ضو ملی سورج سے
کوئی تو ہے جو مرے روبہ رو چمکتا ہے
شہر ویران ہو جائے گا ایک دن باغ تبدیل ہو جائیں گے دشت میں
دیکھیے رنگ اڑتے ہوئے پھول کا سوچیے یہ نظارے کہاں جائیں گے
ان اشعار کا تجمل ، وارفتگی اور تمثیل نگاری اس کے مطالعہ کے بعد اپنی چھب دکھانا شروع کرتی ہے تو آپ پر ایک نئی دنیا کا در کھلتا ہے دلاور علی آزر اپنے ہم عصر شعراء میں امکانات کو درست سمت دینے اور خوابوں کو بروئے کار لانے میں سب سے زیادہ قدرت رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ اُس کی شاعری کے مطالعے سے ہماری سمعی حِسیں اور روحانی بصارتیں ایک خاص کیفیت سے جڑ کر اپنے لیے راحت و تسکین کا سامان پیدا کرنے لگتی ہیں۔ یہ کوئی معمولی عمل نہیں کہ آپ اپنے قاری کو ایک جہانِ حیرت سے پیوستہ و وابستہ کر کے حقیقتِ اصل کا جواز فراہم کر دیں۔ یہ حیران کُن عمل دلاورعلی آزر کی شاعری میں اس خوش سلیقگی سے طے پاتا ہے کہ پڑھنے والے کو اس کی خبر تک نہیں ہوتی اور وہ کڑی محنت اور جاں کاہ مشقت سے گزر کر جو حاصل کرنا چاہتا ہے کر لیتا ہے کچھ اشعار ملاحظہ کیجے گا۔
شانوں پہ کس کے آئے گا یہ بارِ کائنات
اب تک تو خیر میں ہوں پر آئندہ کون ہے
وہ بہتے دریا کی بے کرانی سے ڈر رہا تھا
شدید پیاسا تھا اور پانی سے ڈر رہا تھا
اک صدی بیچ سے غائب ہوئی آوازوں کی
ماترے گنتے ہوئے وقت نے سم توڑ دیا
اس نے پوچھا کہ کوئی آخری خواہش آزر
میں نے اک نام لکھا اور قلم توڑدیا
نیند میں حضرتِ یوسف کو اگر دیکھا ہے
عین ممکن ہے ‘ گھرانے سے الگ ہو جاو
خوں خوار اندھیرے کی حکومت ہے گلی میں
اِس وقت کہاں جائے کوئی گھر سے نکل کر
پیڑ مبہوت ہوئے دیکھ کے اس منظر کو
دھوپ جب اُس کے اشارے سے نکل کر آئی
ساتویں رنگ سے آگے نہیں جاتی آنکھیں
آٹھواں رنگ نظارے میں نہیں ہو سکتا
چھلک رہی تھی شرابِ کہنہ سبوئےجاں میں
خمارِ خواہش سے ہر قدم لڑکھڑا رہا تھا
پیمبروں کے تسلسل کے بعد آخرِ کار
زمیں پہ فقر کی دولت بھی عام ہو چکی ہے
ذہن تک اپنے رسائی نہ کبھی دی میں نے
نبض کس طرح پکڑتا کوئی نباض مری
کس نے کہا تھا جھانک کے دیکھو خلاوں میں
کس نے کہا تھا گنبدِ بے در میں در بناو
لغّتِ بود سے نابود کیا ہے ترکیب
شرحِ موجود و عدم کرتے ہوئے گزری ہے
شاعری میں تجربوں کی آنچ ، مشاہدوں کی دھوپ اور ذات و کائنات کے رنگ ہم آمیز نہ ہوں تو شعر تخلیق کی بلند ترین سطحوں کو نہیں چھو سکتا اس کے لیے لازم ہے کہ آپ کو قدرت کی طرف سے بیش بہا تخلیقی سرمایہ عطیا کیا گیا ہو اور آپ اسے بروئے کار لا کر شعر کی تعمیر کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں پھر لفظ کے تمام تر مثبت اور منفی امکانات کو نگاہ میں رکھنا پڑتا ہے تب کہیں جا کر آپ اسے برتنے کا حوصلہ جٹا پاتے ہیں ورنہ کھیل آپ کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے جس شاعر میں یہ ہنر ہو وہ اظہار کے نئے نئے زاویے اور ڈھنگ تلاش کرتا رہتا ہے اظہار کے انوکھے پن سے اس کی شاعری کا لطف دو آتشہ ہو جاتا ہے جیسے دلاورعلی آزر کے یہاں اظہار کا انوکھا پن متاثر کُن ہے اظہار کا وہ انوکھا پن جس سے دوسرے شعراء چاہتے ہوئے بھی نہیں بچ سکتے اور کسی نہ کسی سطح پر اس رنگ کو اپنا لیتے ہیں۔ دلاورعلی آزر کی غزل گوئی کا انداز اس قدر مختلف ہے کہ آپ اس کے اشعار کو کسی اور سے منسوب نہیں کر سکتے اگر میں اس کی شاعری کے لیے یہ کہوں تو بے جا ہرگز نہ ہو گا کہ اس کا اسلوب بے مثال شعری تراش ، سانس در سانس رواں دواں مصرعوں اور اپنے ہی پوشیدہ کوڈز سے مل کر تیار ہوتا ہے اُس کی غزل کی شناخت کرنے کے لیے مقطع نہیں دیکھنا پڑتا ردیف و قافیہ کا بھرپور اہتمام اور اُن کا دلآویز اظہار پڑھنے والے کو انگلی پکڑ کردلاورعلی آزر تک لے جاتا ہے اس کی انفرادیت لفظ لفظ ، مصرع مصرع اور شعر شعر سے نمایاں ہوتی ہے یہ لب و لہجہ دلاورعلی آزر کے لیے مخصوص ہے اس کے اشعار کا واہبی تسلسل اس کی شاعری کے مطالعہ کے دوران کہیں ٹوٹنے نہیں پاتا یہ کمال اور مقام اُس کے ہم پایہ و ہم مشرب شعراء میں کسی اور کو ہنوز حاصل نہیں ہو سکا۔ اس کے اشعار ایک خاص کیفیت کے آئنہ دار ہوتے ہیں اس کے کلام میں ایک ایسی سحر آفریں تاثیر پائی جاتی ہے جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے کچھ مزید اشعار کی زحمت اُٹھائیں۔
حدِ ادب کی بات تھی حدِ ادب میں رہ گئی
میں نے کہا کہ میں چلا اُس نے کہا کہ جائیے
اُس کی آنکھیں دیکھنے والو تم پر واجب ہے
شکر کرو اِس دنیا میں کچھ اچھا دیکھ لیا
کمال یہ ہے مجھے دیکھتی ہیں وہ آنکھیں
ملال یہ ہے انہیں دیکھنا نہیں آتا
اُس سے ملنا تو اسے عید مبارک کہنا
یہ بھی کہنا کہ مری عید مبارک کر دے
سانس روکے ہوئے آئنے کی حیرت سے ادھر
اس پری رو کو سنورنے کی پڑی ہوئی ہے
شعر وہ لکھو جو پہلے کہیں موجود نہ ہو
خواب دیکھو تو زمانے سے الگ ہو جاو
میں نے اک پھول کے پردے میں اسے دیکھ لیا
اس طرح پہلی محبت ہوئی آغاز مری
شام ہوتی ہے تو ہوتا ہے مرا دل بے تاب
اور یہ تجھ سے لپٹنے کے لیے ہوتا ہے
فطرت سے انہیں تان ملاتا ہوا سمجھو
خاموش پرندوں کو بھی گاتا ہوا سمجھو
بدن کی قید میں اک آدمی ہے حبس زدہ
نکالتے ہیں اُسے اور ہوا لگاتے ہیں
ابنِ آدم ہوں سو کیا میرا بھروسہ ہے کہ میں
اپنی اوقات دکھانے پہ اُتر آتا ہوں
تصویر سے آگے کی طلب تھی مرے دل میں
سو میں نے کسی اور ہی منظر سے بھری آنکھ
یہ انکسار ہماری سمجھ سے باہر ہے
وہ ہم پہ ظلم کرے اور ہم ادب کیے جائیں
داستاں گو نے آخر میں بتایا آزر
سارے کردار نبھانے کے لیے ہوتے ہیں
وہ خامشی ہمیں درکار تھی درونِ وصال
کہ جس میں دل کا دھڑکنا فصول ہو رہا تھا
زمیں پہ پھول کی میت پڑی تھی رستے میں
فلک پہ ایک ستارہ ملول ہو رہا تھا
گر نیند آ بھی جائے تو کچھ فائدہ نہیں
دل کی طرف سے خواب کا دروازہ بند ہے
پڑا ہے اس لیے یہ خواب راستے میں مجھے
کہ میں نے نیند میں پہلا قدم اُٹھا لیا تھا
خمیدہ ہوتی ہوئی روح کی کمر ٹوٹی
کسی وجود نے بارِ عدم اُٹھا لیا تھا
فلک پہ کھینج لکریں اداس منظر کی
زمینِ دل پہ نہ یوں بے طرح نشان لگا
دشت میں قیس سے بڑھ کر کوئی اُستاد نہیں
آئیے خاک آڑانے کا ہنر سیکھتے ہیں
نفس کی آمد و شد نے گھٹن بڑھا دی ہے
بدن سے روح کا رشتہ بحال کیا ہو گا
مسمار کر کے اِس کو گزر جائے گی یہ موج
تکتی رہے گی جسم کی دیوار وقت کو
یہ بات ناو سے پوچھو کہ تا کھلے تم پر
ندی مکالمہ کرتی ہے بادبان سے کیا
تو دے رہا ہے مری خاک کی لغت ترتیب
ملے گا تجھ کو مگر شرحِ خاکدان سے کیا
بھٹک رہی ہے محبت جو در بہ در آزر
اسے نکال دیا دل نے خاندان سے کیا
اس جسم کی پوشاک بنانے کی ہوس میں
کھڈْی پہ کئی رنگ کا پشمینہ لگایا
شہد کا ذائقہ ہے چکھنے میں
چوم کر دیکھیے دہن اس کا
خاک و خوں سے مفاہمت کر کے
وقت کا دائرہ بڑھایا گیا
سخن کی ضرب سے ہر ساز میں گرہ پڑ جائے
میں لب ہلاوں تو آواز میں گرہ پڑ جائے
تری بلا سے لہو کھینچ لے بجائے سرشک
پڑے تو چشمِ گہر ساز میں گرہ پڑ حائے
ابھی تو چاند سے مل آتا ہے چکور آزر
اگر کہیں پٙرِ پرواز میں گرہ پڑ جائے
دن کے پردے پہ عیاں رکھا اندھیرا اس نے
روشنی رات کے منظر میں نہاں رکھی ہے
کچھ اس لیے بھی مرا غم زماں سنبھالتا ہے
زمیں سمجھ نہیں سکتی میں ایسا سکتہ ہوں
یہ جس جگہ کہے گا ٹھہر جاوں گا وہیں
میرا پڑاو دل کے پڑوا کے ساتھ ہے
مجھے کسی سے محبت ہوئی تو تھی لیکن
میں اس کا نام نہ لوں گا سو بات ختم ہوئی
غزل گوئی کی یہ ادا یہ طرزِ اظہار کا سلیقہ اور اُسلوب صرف اور صرف اسی شاعرِ خوش نوا سے مخصوص ہے شاعری محض خیالِ منظوم کا نام ہرگز نہیں بل کہ اس میں جذبے اور کیفیت کی آمیزش ناگزیر ترین ہے غزل کے موضوعات اور کیفیات کے ساتھ ساتھ جمالیات کے معیار کو نت نئے انداز سے آزمایا جاتا ہے تب جا کر آپ اپنا ایک انداز وضع کر پاتے ہیں دلاورعلی آزر نے ان تمام روِشوں کو برتر سطح پر محسوس کیا اور جدید غزل کے آب یاری میں تخلیقی سرگرمیوں میں صرف کر کے اپنے اُسلوب کی بنیاد رکھی ہے یہی وجہ ہے کہ اس کی شاعری اردو ادب کا نمایاں حصہ بن کر سامنے آ رہی ہے ایسا جمالیاتی رچاو جو دلاوعلی آزر کا خاصہ ہے کہیں اور نہیں ملتا اور ملے بھی تو اُس پر دلاورعلی آزر کی چھاپ ضرور نظر آتی ہے اسی نوع کے کچھ اشعار دیکھیے جن کی داد تو کوئی کیا دے پائے گا۔
گزر رہے ہیں سبھی پل صراط سے لیکن
کسی کسی نے توازن سنبھال رکھا ہے
وہ کون ہے جو بڑھاتا ہے وسعتِ عالم
یہ کس نے سلسلۂ کن سنبھال رکھا ہے
میری تنہائی نے پیدا کیے سائے گھر میں
کوئی دیوار کوئی در سے نمودار ہوا
آج کی رات گزاری ہے دیے نے مجھ میں
آج کو دن مرے اندر سے نمودار ہوا
ایک شعلے کی لپک نور میں ڈھل کر آئی
ایک کردار بہتر سے نمودار ہوا
حق کہ پہچان ہوئی خلق کو آزر اس وقت
جب علی آپ کے بستر سے نمودار ہوا
تھکے نہ ہاتھ ایک اسم لکھنے سے
قلم شکتہ ہوئے اور دوات ختم ہوئی
صدائے کن سے شروعات کی گئی آزر
درود پڑھتے ہوئے کائنات ختم ہوئی
درود پڑھ کے قدم جب زمیں پہ رکھتا ہوں
تو خود ہی راستے ہموار ہونے لگتے ہیں
بڑے بڑے وہاں گردن جھکائے بیٹھے تھے
اور ایک ننھا فرشتہ رسول ہو رہا تھا
کسی نے طاق میں رکھی تھی اپنی جائے نماز
کسی نے چاک سے اپنا صنم اٹھا لیا تھا
میں تو اس ملّاح پر حیران ہوں جس نے یہاں
ریت کا دریا بنایا ہے سفینوں کے لیے
ملا تھا تجھ سے جو آسماں کے دبیز پردے کی چھاونی میں
دکھا دیا سب کو اس کا چہرہ بتا دیا سب کے راز اس کے
ہم بے چہرہ لوگوں کو یہ شغل غنیمت ہے
جب بھی فرصت ہاتھ لگی آئینہ دیکھ لیا
جز خواب اور کچھ بھی نہیں کائنات میں
یہ روز و شب کا سلسلہ احسانِ خواب ہے
مختلف رنگوں کو اپنی دھڑکنیں سونپوں گا میں
اور اسے زندہ نکالوں گا کسی تصویر سے میں
جب وہ سب سے آخری انسان کو دیتا ہے شکل
جھانکنے لگتا ہے پہلا آدمی تصویر سے
اُس کی آنکھیں دیکھنے والو تم پر واجب ہے
شکر کرو اِس دنیا میں کچھ اچھا دیکھ لیا
دلاور علی آزر کی شاعری سے گزرتے ہوئے یہ احساس دامن گیر رہتا ہے کہ جذبۂ بیزاری بالکل لمحاتی اور ہنگامی ہوتا ہے جو ہوا کے جھونکے کی طرح آتا اور فضا میں تحلیل ہو جاتا ہے جب آزر بیزاری میں محبت کی کروٹیں بدلنے لگتا ہے تو بیزاری کا لمحاتی جذبہ ٹھڑ کر رہ جاتا ہے اور خود پر غزل اوڑھ کر گنگنانے لگتا ہے۔
مصرعِ دل کو سجانے کی اجازت نہیں ہے
عشق میں عین گرانے کی اجازت نہیں ہے
خال و خد اس کے جھلکتے ہیں مرے چہرے سے
جس کی تصویر بنانے کی اجازت نہیں ہے
شوق ہے مجھ کو بہت خاک آڑانے کا یہاں
کیا کروں’ خاک اڑانے کی اجازت نہیں ہے
آنکھ اک اُتھلا سمندر ہے’ سو اس میں تم کو
کوئی طوفان اٹھانے کی اجازت نہیں ہے
کیمیا میں ایسی کئی غزلیات ہیں جو پڑھنے والے کو ایک خاص ٹرانس میں لے جاتی ہیں اُن میں عالمانہ و حکیمانہ طرزِ اظہار کی نمائندگی ملتی ہے اُن کا لفظ لفظ روحانی پُراسرایت ، دہشت ، خوف اور لرزا طاری کرنے والی کیفیات سے بھرپور ہے میں اس کی مثال میں صرف ایک غزل پیش کرنا چاہتا ہوں جو پڑھتے ہوئے مجھے اپنے آپ سے ڈر لگنے لگا میں اس کی گرفت میں اس طرح آ گیا کہ مجھ پہ وحشت طاری ہو گئی اشعار پڑھتا جا رہا تھا اور ماتھے سے پسینہ پونچھتا جا رہا تھا آپ بھی یہ غزل پڑھیں اور اس میں چھپی رمزیت ، پُراسرایت ، دشت اور ہیبت ناکی کو محسوس کریں۔
کھینچوں میں کیا کہ ہر نفس اک تارِ مرگ ہے
یہ زندگی ہے یا کوئی آزارِ مرگ ہے
خاکِ بدن سے پل میں گزرتی ہے یہ بَلا
بجلی سے تیز قوتِ رفتارِ مرگ ہے
آنکھوں میں لہلہاتے ہیں آثار زیست کے
سینے پہ دندناتا ہوا بارِ مرگ ہے
میں تو تسلی دے کے نکل آیا جسم کو
لیکن وہ حِس جو اب بھی خبر دارِ مرگ ہے
سر پھوڑتا ہے آدمی اپنے وجود سے
اس کے لیے وجود بھی دیوارِ مرگ ہے
یوں زندگی کو سر سے اتارا ہے عشق نے
کارِ حیات جیسے کوئی کارِ مرگ ہے
ہر روح کھینچتی ہے خلاوں میں جسم کو
ہر سانس لینے والا طرف دارِ مرگ ہے
چہرے کے زرد رنگ میں پنہاں ہے بے دلی
اور بے دلی کا آئنہ اظہارِ مرگ ہے
اک ایک سانس گِن کے عطا کی گئی ہمیں
اک ایک سانس یعنی گرفتارِ مرگ ہے
آزر بس ایک میں تھا جسے یہ شعور تھا
ورنہ تو کس میں جرأتِ انکارِ مرگ ہے
یہ ہے کیفیات کا ایک الگ جہان جو کیمیا کے ورق ورق پر آپ کا منتظر ہے مجھے یقین ہے کہ دلاور علی آزر کے اسلوبِ سخن اور طرزِ ادا سے دل چسپی رکھنے والے احباب کیمیا میں پوشیدہ نت نئی جہات تلاش کرتے رہیں گے اور اس کی شاعری پر ہمیشہ لکھا جاتا رہے گا جس شاعر نے اپنی تمام تر تخلیقی صلاحیتیں اور عمر کا ایک بڑا حصہ غزل کی آب یاری کی نذر کر دیا ہو غزل اسے لازمی کسی اہم مقام سے سرفراز کرے گی۔
سانس در سانس غزل کی ہے مکمل اپنی
عمر یہ کارِ اہَم کرتے ہوئے گزری ہے
نوید فدا ستی
٢٣/٠٧/٢٠١٩