یہ ١٩٨٨ ٕکی بات ہے جھنگ سے متعلق ممتاز شاعر شیرافضل جعفری مرحوم بہت علیل تھے ۔فیصل آباد سے محترم اکرام مجید صاحب ،ڈاکٹر ریاض مجید صاحب ،معظم بن ظہور صاحب کی سیادت و معیت میں اُن کی عیادت کے لیے جھنگ پہنچے ۔بہت خوش ہوۓ ، ان کے صاحبزادے پروفیسر محمد عباس ہادی بھی موجود تھے ،اُن سے رخصت ہو کر رام ریاض کے گھر پہنچے ،باہر ایک ہوٹل میں اُنھوں نے ہماری تواضع کی ،اسی طرح معین تابش ،بیدل پانی پتی ،صاحبزادہ رفعت سلطان ،مظہر اختر،حکمت ادیب ،احمد تنویر ،انیس انصاری اور دوسرے اہلِ قلم سے بھی ملاقاتیں ہوییں ، کس قدر عمدہ یادیں ہیں ،انمول یادیں ۔
محمد شیر افضل جعفری مرحوم ( یکم ستمبر ١٩٠٩ ٕتا ٢٢ جنوری ١٩٨٩ ٕ) کا نام کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے ،اُنھوں نے اُردو ادب خاص طور پر شاعری میں اپنی جدّت خیز اور اختراع پسند طبیعت کی بدولت زبان و بیان کا ایک ایسا پیکر تراشا جو بانکا ہے اور سجیلا بھی،خوبصورت ہے اور جاذبِ نظر بھی،اُسے اگر ہم کوٸ نام دے سکتے ہیں تو وہ بِلا شرکتِ غیرے شیر افضل جعفری کا رنگ ہے ۔ چناب رنگ۔ جھنگ رنگ۔ساندل رنگ ہے۔
محمد شیر افضل جعفری نے اردو زبان کو جو کچھ دیا اور جن موتیوں سے شاعری کا دامن مالا مال کیا ہے اس کا اعتراف بہت اہم شعرا اور ناقدین نے کھلے دل سے کیا ہے ، نکتہ دانانِ زبان و بیان نے انہیں جُداگانہ رنگ و آہنگ کا شاعر قرار دیا ،ان کی زبان اور لہجہ دونوں مختلف ، منفرد اور آوازوں کی بھیڑ میں صاف پہچانے جانے والا لہجہ تھا ۔اپنے آخری شعری مجموعے” موج موج کوثر” (جو اُن کی وفات کے کوئی ایک ماہ بعد فروری ١٩٨٩ ٕ میں منظرِ عام پر آیا) کے پیش لفظ بعنوان” میں” میں جعفری مرحوم لکھتے ہیں :
” آزادی ملی،کسٹوڈین بنا،سید ارشاد سے مِل کر پہرے دیے،چوروں کے لتّے لیے،مہاجرین میں مکان تقسیم کیے،دُکانیں الاٹ کیں،متروکہ سامان بانٹا،دعاییں لیں،شکوے سُنے،دھمکیاں سہیں،چنگا ٹھہرا،بُرا کہلایا،نہ اکڑا نہ سکڑا،لوگ نکھرے بھی،بِکھرے بھی،میں نہ سنورا،نہ بِگڑا،جیسا تھا ویسا رہا۔
غزل کو نیا چہرہ دیا،آنے والی اردو کی طرح ڈالی،رسالوں میں چَھپا ،ریڈیو میں رَچا،ٹی وی میں مَچا،مشاعرے مناۓ،شُہرت پا ٸ ، مقام مِلا،بات بنی،آرزوییں پوری ہُوییں۔ایک تمنّا باقی ہے کہ
علی کی طرح جیوں اور حسین کی طرح مروں ” ۔
محوّلہ بالا اقتباس میں شیر افضل جعفری کا یہ دعویٰ کہ” غزل کو نیا چہرہ دیا ،آنے والی اُردو کی طرح ڈالی” شاعرانہ تعلی ہر گز نہیں بلکہ مبنی بر حقیقت امر ہے۔ان کی پوری شاعری اور نثر نگاری ہمارے سامنے ہے جس کا سرسری مطالعہ بھی پڑھنے والے کو احساس دلاتا ہے کہ یہ شاعر ادیب لاکھوں میں ایک ہے، جِس کا اپنا رنگ،اپنا ڈھنگ ،اپنا آہنگ اور اپنا اُسلوب ہے۔اپنے منفرد ہونے کا احساس جعفری مرحوم کو خود بھی تھا اس کا اظہار اُن کی شاعری میں جا بجا ملتا ہے:
رچی ہے سوچ میں یزداں کی خوشبو
غزل سے کیوڑہ ٹپکا رہا ہوں
غمِ عشقِ الہی سے غزل کی
زمیں کو آسماں فرما رہا ہوں
میرانیس اپنے شعروں کی زمینوں کو آسمان سے لانے کا دعویٰ کر رہے تھے اور شیر افضل جعفری اپنی زمین غزل کو آسمان بنا رہے تھے،سچّے دونوں ہیں ،شیر افضل جعفری نے بِلا شُبہ اس اُردو کی بنیاد مستحکم کی جو آییندہ بولی اور لکھی جاۓ گی۔جلد یا بدیر زبان زدِ خاص و عام ہو گی۔جعفری نے اسی جانب اشارہ کیا ہے :
مستقبل کی اُردو بھی
افضل کی نیرنگی ہے
ہمارے ہاں یہ عجیب رُجحان ملتا ہے کہ ایک طرف ہم اُردو زبان کو لشکری زبان کہتے ہیں اوراِس بات کا برملا اِعلان کرتے نہیں تھکتے کہ اس میں ہر زبان کے لفظ آسکتے ہیں اور سماعت بھی سکتے ہیں،فارسی ،عربی اور ہندی تو اس کی بنیاد ہیں ہی انگریزی،فرانسیسی،یونانی،لاطینی،پرتگالی،ترکی،پالی،سنسکرت،سندھی،گجراتی،پشتو ،بنگالی،بلوچی،کشمیری کے بہت سے الفاظ اردو میں اِس طرح کھپ چکے ہیں کہ اب اُن کا متبادل و مترادف تلاش کرنا دقت طلب امر ہے۔۔۔۔پنجابی بھی تو اِس خِطّے کی صدیوں پُرانی اور اہم زبان ہے ،پھر کیا سبب ہے کہ اُردو تحریرو تقریر میں جب کوٸی شخص پنجابی کا کوٸی لفظ استعمال کرتا ہے تو ہماری ہنسی چُھوٹ جاتی ہے۔۔۔اگر ہم اُردو کی امارت اور اس میں الفاظ و تراکیب اور اِصطلاحاتِ جدیدہ کے اِضافہ کے سلسلہ میں واقعی سنجیدہ ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ زبان اس خِطّے کی نماییندہ زبان بنے اور عام آدمی بھی پڑھ ،سُن اور سمجھ سکے تو ہمیں اپنا یہ منفی اور زبان شکن رویّہ ترک کرنا ہو گااور علاقاٸی زبانوں اوران کے لہجوں خاص طور پر پنجابی زبان کے زیادہ سے زیادہ الفاظ کو اِس لشکری زبان میں داخلے کے لیے کشادہ دِلی سے راہ دینا ہو گی،دراصل شیر افضل جعفری بھی یہی چاہتے تھے،اُن کی ساری عمر نئے انداز کی اُردو متعارف کرانے میں گزری انھوں نے اس کے لیے عملی نمونے بھی پڑھنے والوں کے سامنے رکھے،شیر افضل جعفری نے برسوں پہلے جس دروازے پر دستک دی وہ ایک نہ ایک نہ ایک ضرور وا ہو گا۔
شیر افضل جعفری مرحوم نے شاعری میں زبان کی بنتا،لفظوں کی نشست و برخاست اور نیے لفظوں کو جزوِ شعر بنانے کے حوالے سے جو رنگ ڈھنگ اختیار کیا ساری عمر اسے اپناۓ رکھا،اس تواتر،تسلسل اور اِعتماد کے ساتھ اسے پیش کیا کہ وہ لوگ بھی اثر قبول کرتے نظر آتے ہیں جو اُن کی اس روش سے کچھ زیادہ خوش نہیں تھے،فی الاصل اس نیے شاعرانہ زبان کے اندر اتنی کشش،چاشنی اور جاذبیت ہے کہ سننے والا متوجہ ہُوۓ اور اثر قبول کیے بغیر رہ نہیں رہ سکتا۔بلا شبہ اُنہیں اپنی زندگی میں اِس مُعاملے میں بے پناہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔یار لوگوں نے اسے طنز و مزاح کے رنگ میں پیش کرنے کی بھی کوشش کی ،عجیب و غریب اعتراضات اور بے سرو پا باتیں کی گییں مگر اس درویش صفَت مرد اور اپنی دُھن کے پکّے شاعر نے اِن باتوں پر مُطلق کان نہ دھرا اور اُن مخالفین کے اِعتراضات کا جواب دینے میں وقت ضایع کرنے کے بجاۓ اپنی چال اور حال میں مست آگے بڑھتا رہا۔۔۔اس وقار اور تمکنت کے ساتھ کہ آج ہم اس کی وفات کے بعدل بھی کس انداز سے اس کی ادب کو عطاٶں کو تنقیدی اور تحقیقی نقطہ نظر سے دیکھنے،پڑھنے،سننے،جانچنے اور پرکھنے پر آمادہ و راغب ہیں۔اُردو شاعری کو نیے رنگ و روغن سے سجانے والے جُداگانہ طرز کے شاعروں کی جب بھی غیر جانب دارانہ فہرست سازی ہوگی ،شیر افضل جعفری کا نام اُس فہرست میں بہت نمایاں ہو گا۔
شیر افضل جعفری کے چار مجموعہ ہاۓ کلام ” چناب رنگ” ،” سانولے من بھانولے”، ” شہر سدا رنگ” اور” موج موج کوثر” منصہ شہود پر آ چکے ہیں اور اہلِ علم و فن سے سے داد حاصل کر چکے ہیں ،یہ کتابیں شاعر موصوف کی اس نیی زبان اُردو کی نماییندہ اور ترجان ہیں جس کے وہ عمر بھر مبلّغ و منّاد رہے اِسی سے ان ُکی ادَبی حلقوں میں شناخت اور پہچان ہے ،لفظ ،تراکیب اور مِصرع مِصرع گویا خود اِعلان کر رہا ہے کہ ہم شیر افضل جعفری کی فکر کے زایدہ و ترجمان ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ جعفری مرحوم کی بہت بڑی انفرادی شان اور پہچان ہے جو اُنہیں سے خاص ہے۔اُن کے رنگ کو بعض شعرا نے اپنے اپنے رنگ میں اپنانے اور آگے بڑھانے کی عمدہ کاوشیں کی ہیں ان میں صابر ظفر اور علی اکبر عباس کے نام زیادہ نمایاں ہیں ،
شیر افضل جعفری کا کلام پڑھ کر آج بھی تازہ بیانی قاری کو گرفت میں لے لیتی ہے اور وہ ان کے ساحرانہ کلام میں کھو کر رہ جاتا ہے ، اُن کے کلام میں جا بجا پُھول بِکھرے نظر آتے ہیں ،راگ رنگ ملتے ہیں اور دِل کی دھڑکنوں کے تال پر رقص کرتی سہاگنیں ملتی ہیں ،قاری غزل کے روایتی انداز و اطوار کو بُھول کر ایک نیے جہان کی سیر کو نکل جاتا ہے :
پُھول پُھول زندگی،رنگ رنگ زندگی
ہیر ہِیر زندگی،جھنگ جھنگ زندگی
مَلگجے چناب کی موج موج بھیرویں
راگ راگ زندگی، رنگ رنگ زندگی
دھڑکنوں کے تال پر ناچتی سہاگنیں
بانہہ بانہہ زندگی،ونگ ونگ زندگی
شوق میں رچی رچی،ناز میں بسی بسی
گھونگھٹوں کی اوٹ میں ،تنگ تنگ زندگی
شیر افضل جعفری کے کلام کی جِہتوں کی لطافتوں سے ان کے مجموعے پڑھ کر ہی حقیقی لُطف اٹھایا جا سکتا ہے،اُن کی شاعری سے لُطف کشید کرنا اور بات ہے ان کی لِسانی عطاٶں کا اِحاطہ کرنا، اُن کا جایزہ لینااور اِس حوالے سے اِظہار ِخیالات کرنا دوسرا پہلو ہے ۔ موجودہ عہد میں اُردو کی بنتی بِگڑتی شکلوں کے پسِ پردہ شیر افضل جعفری کی دُور رَس نگاہوں کے کمالات اور ان کے اِظہاری نمونوں کی اہمیت اور ہم گیر اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔