(میں تنہائی کات رہا تھا )
کسی تخلیق کارکاسب سےقیمتی اثاثہ تخلیقی عمل کے دوران میسر آنے والی سرشاری کی ایک خاص کیفیت ہوتی ہےاور عوامی سطح پر مقبولیت کارازکافی حدتک اس سرشاری کو دوسروں تک منتقل کرنے کی اہلیت کے تابع ہوتاہے۔یہی وجہ ہے کہ فنی لحاظ سےبعض مضبوط تخلیق کاربھی عوامی مقبولیت کی اس سطح پرنہیں پہنچ پاتےجہاں پرتخلیقی سرشاری میں دوسروں کوشامل کرنے کافن جاننے والےعام تخلیق کارپہنچ جاتے ہیں۔تخلیقی سرشاری کی تقسیم کایہ فن ہرتخلیق کار کے اندرفطری طورموجودتوہوتاہےلیکن فنکاراپنےعہدمیںسماج کےرویوں، مروجہ اُسلوب،نفسیاتی مسائل اورعوامی مزاج کوسمجھتے ہوئےشعوری ریاضت سےاس میں مزید اضافہ اورنکھارپیداکرسکتاہے۔
ڈاکٹرابرارعمربلاشبہ اس عہدکاایساذہین تخلیق کار ہےجوتخلیقی عمل سے سرشاری کشید کرنےاورپھراسےتقسیم کرنے میں یکساں مہارت رکھتاہےگویااس کی شاعری میں عطااورریاضت کا امتزاج توازن کے ساتھ موجودہے۔
ناصرکاظمی کی غزلوں کامجموعہ ’’ پہلی بارش ‘‘۱۹۷۵ء میں چھپاتھاجس کے دیباچے میں غالب احمدنے ناصرکاظمی کومن وتُوکے وصال کاشاعرقراردیتے ہوئے کہاتھاکہ:
’’اردوشاعری حُسن وعشق ،من وتُواوروجودووجدان کے جس بُعدکاشکاررہی،ناصرؔنے جدیددورکےتقاضوں کے مطابق اس بُعدکی خلیج کوپاٹ دیاہے۔پہلی بارش میں غزل اورنظم کاامتیازاٹھ گیاہے۔میں اورتُوکاوصال ہوگیاہے۔جدت اورتجدیدہم آغوش نظرآتےہیںاورروایت اوروجدان کے امتزاج نے زبان کے شعورکے علاقوں کوایک کردیاہے۔ ‘‘
ناصرکاظمی کی غزل میں’ ’ من وتو ‘‘ کےوصال اور ’’غزل اورنظم ‘‘ کےفرق میں خاتمےکےحوالے سےغالب احمدکی رائے پرگفتگوکی کچھ گنجائش موجود ہوبھی تواس بات سے انکارممکن نہیں کہ ناصرکاظمی نےغزل کواپنے عہدسےنہ صرف ہم آہنگ کیابلکہ اس کے ذریعےسے شاعری کو نئے ذائقوں سے بھی رُوشناس کروایا۔یہی وجہ ہے کہ نصف صدی گزرنے کے بعد بھی ناصرؔ کی غزل کاجادواسی طرح سرچڑھ کربول رہاہےغزل کا شایدہی کوئی ایساشاعرموجودہوجس نے اس کے رنگ سے فیض حاصل نہ کیاہو۔
ڈاکٹرابرارکی ’’ دوسری بارش ‘‘۲۰۰۴ءمیں شائع ہوئی۔اس مجموعے میں شامل ،ناصر کاظمی جیسے قدآور شاعر کے رنگ میں کہی گئی غزلیں جہاں ابرارعمرکےاعلی تخیل اورفنی پختگی کی گواہی دیتی ہیں وہیں یہ ناصرکاظمی کی عظمت کااعتراف اوران کوخراج عقیدت پیش کرنے کاخوب صورت اندازبھی ہے۔ اس طرح کی توقع کسی بڑے دل کے بڑے فنکار ہی سے کی جاسکتی ہے۔اس کی طرف سے ناصرکاظمی کی پہلی بارش کی تحسین کااندازدیکھیے: دوسری بارش لکھنے والا
پہلی بارش سے بھیگا تھا
ہرتخلیق کار اپنی ذات میں یکتااورمنفردہوتاہے۔اس لیےاُسے کسی دوسرے تخلیق کارکے مقابلے میں کھڑاکرکےاسےچھوٹابڑاقراردیناکس طوربھی مناسب نہیں ہوتاالبتہ مختلف تخلیق کاروں کی تخلیقات کاباہمی موازنہ کرنے کےعمل سےفن پارےکی گرھیں کھولنے،تخلیق کارکے عہدکےسیاسی،سماجی اورنفیساتی مسائل کوسمجھنے ،زبان اوراُسلوب کے معاملات میں تبدیلیوں کاجائزہ لینےجیسے معاملات میں بہت زیادہ مددملتی ہےاوریہ تنقیدی ضرورت بھی ہے۔
ناصرؔکاظمی جیسے شاندارشاعرکے مقبول مجموعے’’ پہلی بارش ‘‘ کی موجودگی میں اپنی غزل کے مجموعے کےلیے ’’ دوسری بارش ‘‘کانام منتخب کرنابذاتِ خود بڑےحوصلے کاکام ہے اوراس کی توقع کسی ایسے تخلیق کارہی سے کی جاسکتی ہے جسے اپنی تخلیقی صلاحیت پربلاکااعتمادہو۔ ڈاکٹرابرارعمر ’’ دوسری بارش ‘‘پڑھنے والے اپنے قاری کو کسی طورمایوس نہیں کرتا۔اس مجموعے میں اعلیٰ تخلیقی معیارکی غزلیں موجودہیں۔
شعری بستی میں وہ اپناالگ چرخہ رکھے تخیل اورفکرکی روئی کاتتامگن نظرآتاہے۔اس کی تخلیقی ٹوکری مختلف رنگوں کی اَٹیوں سے بھری بڑی ہے’’ دوسری بارش ‘‘ ، ’’ دسمبراب بھی تیرامنتظرہے ‘‘ ، ’’ یہ جوتنہائی ہے ‘‘ ، ’’خیالوں میں تمھاری آنکھیں ‘‘ ، ’’ مرےوا ئلن کےتاروں میں ‘‘ اور ’’ محبت فاصلوں کی قیدمیں ہے ‘‘کے نام سےابرارعمر کے ۶شعری مجموعےشائع ہوچکےہیںلیکن اسے یہ غرض نہیں کہ کوئی قدردان یا نقادان کو جانے،پرکھےیاخریدے۔وہ چرخےپرکاتنے کوبیٹھاہواہے اس کی گھُوک پرمست ہے۔ہاں اس کی غزلوں اوربعض نظموں میں کہیں کہیں ہلکےسے شکوے ،تھکاوٹ اوربیزاری کااندازضروردکھائی دیتاہے،جوایک فطری امرہے:
رات کا چرخہ گھوم رہا تھا
میں تنہائی کات رہا تھا
۰۰ ۰۰
ناموں والے شہر کے اندر
میں بے گھر بے نام ہوا تھا
۰۰ ۰۰
مجھے اک نظم لکھنی ہے
جو غالب ، میربائرن کیٹس ، راشد ، فیض اور اقبال کی
باتیں سناتی ہو
جسے نقاد سے رغبت نہ ہو اور
بے ثمر لوگوں کی ناقص رائے سے
جو ماورا ہو
زندگی کے اصل سے مہکی ہوئی اک نظم
جس کے حسن کو
میک اپ کی اُتنی ہی ضرورت ہو
کہ جتنی خوبصورت لڑکیوں کو……
مجھے اک نظم لکھنی ہے
جو شہرِ حرف کا سیناریو تبدیل کردے (مجھے اک نظم لکھنی ہے)
۰۰ ۰۰
اے ریگزارو!
مری ضرورت کے استعارو!
مجھے پکارو
میں تھک گیا ہوں
مجھے بچا لو
مرے تعاقب میں زندگی ہے (اے ریگزارو…..)
غزل کی بہ نسبت نظموں کےمجموعی مطالعے سےکسی شاعرکی دریافت کاعمل زیادہ آسان ہوتاہے۔ابرارعمرنے نظموں میں اپنی ذات کاایک الگ جہان بسارکھاہے ۔اس جہان کی فضااُجلی اور شفاف ہے۔محبت کی پھوارمیں بھیگاشاعرجسم اور روح کےدرمیانی راستے پر اس اعتمادسے کھڑاہے،جیسےیہاں کی ساری کائنات اس کی دسترس میں ہو۔ اس کا رویہ دنیاسے اکتائے ہوئے صوفی سے بالکل مختلف ہےاوروہ اپنی ذات کی قربانی دیے بغیر اپنےمحبوب کو تسلیم کرنے کافن بھی جانتاہے۔یہی وجہ ہے کہ اس کی نظموں میں دووجود صاف دکھائی دیتے ہیں ۔وہ فنامیں بقاکی بجائے اپنی اوراپنے محبوب ،دونوں کی بقاکا فلسفہ تخلیق کرتاہے۔
ابرارعمرکی شاعری کوپڑھتے ہوئے اس کی دومحبوبائوں سے ملاقات ہوتی ہے۔اس کی دوسری محبوبہ ایک بھرپور عورت ہےجسے وہ زندہ رکھنااوردیکھناچاہتاہے۔وصل کی راحت اورخواہش،جدائی کاکرب،گلے شکوے،امیداورمایوسی کی کیفیات اورپہلی محبت کودوسری میں تلاش کرنے کوشش، گویازندگی کے سارے ذائقےہمارا شاعراِسی جیتے جاگتے محبوب سے کشید کرناچاہتاہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ بعض مقامات پر شاعراپنی ذات سے زیادہ اپنی محبوبہ کاعکس زیادہ نمایاں کرتادکھائی ہے:
وہ مسکراتی تو اُس کے ہونٹوں سے
روشنی کے اشارے گرتے
مری انا کے کنارے گرتے
وہ بولتی تو مری سماعت کے سات سُر
دل کی شوخ دھڑکن پہ رقص کرتے
وہ دیکھتی تو
مری بصارت کی سبز جھیلوں میں
اُس کی آنکھوں کے پھول کھلتے
وہ میری یادوں کے کینوس پر بکھر رہی تھی
چراغ لے کر
وہ میرے دل میں اُتر رہی تھی
۰۰ ۰۰
وہ کہتی ہے
محبت کو اناٹومائیز*کر دینا نہیں اچھا
تمہارے لفظ پورے ہیں
مگر پھر بھی ادھورے ہیں
کسی خاموش شب
مرے فلک پہ آ کے
اپنے ہونے کی روشن گواہی دو
محبت روح ہوتی ہے سمجھتے ہو
بدن سے روح کی ہمسائیگی کو بھی سمجھ جاؤ
محبت کی اجازت کے سمے اک روز آجاؤ
بدن سے روح کا گھر پوچھتے ہیں (وہ کہتی ہے)
۰۰ ۰۰
تمہاری نیم رُخ آنکھوں کا پھیلتا سایہ
مرے بدن سے مِری روح تک چلا آیا
چراغ جل رہے تھے اور ہم اکیلے تھے
تمام رات ہم اک دوسرے سے کھیلے تھے
ڈاکٹرابرارعمرکی غزلوں میں بھی اس کی یہ محبوبہ اِسی توانائی کےساتھ موجودہے۔شاعرکاکمال یہ ہےکہ اس نےخوب صورت شعری رنگوں سے اِسے کچھ اس انداز میںپینٹ کیاہے کہ پڑھتے ہوئے نظرآنے کی کیفیت جنم لیتی ہےاورقارئین کےتصورمیں دُبکی ان کی اپنی محبوبائیںمتحرک اور بیدار ہوجاتی ہیں۔شاعر کی محبوبہ اوراس کے قاری کی محبوبہ میں اس لطیف رشتے کےاحساس کاپیداہوناشاعرکی بہت بڑی کامیابی ہے:
وہ انکھوں کے دیپ جلاتی
میں سگریٹ سلگا لیتا تھا
۰۰ ۰۰
میں نے اس کے بھیگتے تن پر
اپنی نظر سے پیاس لکھا تھا
۰۰ ۰۰
میری باہوں کے حلقے میں
اس کا ماضی سمٹ گیا تھا
۰۰ ۰۰
کمرے سے جب وہ نکلا تھا
دل سینے سے نکل گیا تھا
۰۰ ۰۰
اپنے نام کا آدھا حصہ
اس نے میرے نام کیا تھا
جسم اور روح کے درمیانی راستے پرچہل قدمی کرتے شاعرکی سب سے پہلے ملاقات ایک جیتی جاگتی عورت سے ہوئی یاتنہائی سے،اس کاجواب تلاش کرنا ’’ شاعر کی دریافت ‘‘ کے لیے لازم ہے۔ابرارعمرکی پہلی اورحقیقی محبوبہ اصل میں ’’ تنہائی ‘‘ ہے۔میرے نزدیک تنہائی سے محبت کابیج ابرارعمرکو وراثت ملااور اس نے جوانی تک پہنچتے پہنچتے شعوری طورپراس سے گریزکی کوشش بھی کی لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکا۔اس نےاپنے سامنے رکھے آئنے میں کسی دوسرے کوتلاش کرنے کی کوشش کی لیکن ایساخلافِ فطرت تھااورپھروہ بچھڑی روح کی تلاش کا کافلسفہ اوڑھے کسی دوسرے بدن میں، اپنے جیسے کی تلاش میں نکل کھڑاہوا۔اس بات کااعتراف شاعردوسری محبت میں خود بھی کرتانظرآتاہے:
نئے زمان و مکاں لیے
اک پرانا جذبہ
گلاب موسم کی جستجو میں
ہماری آنکھوں میں موجزن تھا…..
کسی کی باتوں کی چاندنی نے
ہمار ے لفظوں میں سوئی خوشبو کو
اس طرح سے جگا دیا ہے
کہ شاعری بھی مہک گئی ہے
تلاشِ حسن ِبہار نے
پھر سے ذائقے کا خیال
اپنی نگاہ میں
یوں بسا لیا ہے
کہ رنگ پڑھنے کی جستجو میں
ہم اپنے گھر سے نکل پڑے ہیں (دوسری محبت)
اسے ایک خوب صورت عورت کاجسم ملاتووہ اس کانام محبت رکھ کر اس کی پرستش کرنے لگا۔خوب صورت جسم کی مالک عورت کی شکل میں اسےایک بے روح اور نامکمل محبوبہ ملی اوراس نے تنہائی سے جان چھڑانےکے لیے اسےاپنانے کافیصلہ کرلیا۔
سمندر چیختا تھا
اور ہوائیں بین کرتی تھیں
کوئی وارفتگی خواہش کشش کا
استعارہ اس کی باتوں میں نہیں تھا
ساتھ تھی میرے
مگر وہ ساتھ کب تھی
زہر میں ڈوبے ہوئے فقروں نے
اس کی کفریہ انکھوں کو
میرے جسم پہ گاڑھا ہوا تھا
میں جسے ملنے گیا تھا
وہ کہاں تھی
اب وہ شاید مر چکی تھی
اس نے بازاری تمناؤں سے مل کے
اس کو مطلق مار ڈالا تھا (بدن ساحل پہ تھامیرا )
۰۰ ۰۰
تیرا میرا سفر سارا بے نام تھا
تیرے دل کے دریچے پہ ٹھہرا ہوا
میں نہ چاہا ہوا ایک مہمان تھا
تیری قربت نے مجھ کو اُداسی ہی دی
تیری باتوں سے پھوٹی نہ کوئی کرن
تیری آواز اوروں کی منزل بنی
میری تاریخ غم کا سمندر بنی
جس کو گانہ سکا تو وہ انداز تھی
جس کو سمجھا نہیں تو وہ آواز تھی (تیرا میرا سفر…..)
۰۰ ۰۰
گملے میں تنہائی اُگی تھی
جس سے میں باتیں کرتا تھا
۰۰ ۰۰
رات کے گہرے سناٹے میں
تنہا پنچھی بول رہا تھا
دبے لفظوں میں بہت سی مثالیں موجودہیں لیکن عام طورپر شاعری میں ایسارویہ کم دیکھنے کو ملتاہےکہ کوئی تخلیق کاراپنےمحبو ب کی اپنی تخلیق میں حصے داری کااعتراف کھل کرکرے۔یہاں مصطفیٰ زیدی کےیہ اشعاردیکھیے:
فن کار خود نہ تھی مرے فن کی شریک تھی
وہ روح کے سفر میں بدن کی شریک تھی
اُترا تھا جس پہ باب ِحیا کا ورق ور ق
بستر کے ایک ایک شکن کی شریک تھی
ابرارعمرکی بہت سی نظمیں اس کی محبوبہ سے وابستگی کے گردکھومتی ہیں۔وہ جہاں اس کی محبت میں تسکین اورراحت تلاش کرتاہے وہیں اسے اپنی تتخلیقی توانائی بھی قراردیتاہےاوراس سے دوری کواپنی تخلیقی موت سمجھتاہے:
سخن طرازی کا سارا فن تو
تمہاری باتوں سے میں نے سیکھا
تمہارے غم نے مجھے محبت کا ساتواں آسماں دکھایا
تمہارے گاؤں کی رات میرے نگر کی راتوں سے مختلف تھی
تمہارے گاؤں کے چاند تارے بھی مختلف تھے
تمہارے گاؤں کے پیڑ ،لوگ اور گھر سلامت رہیں!
دعا ہے! (ہمارے گھر میں)
۰۰ ۰۰
رات تاریک ہے
رات کے خوف سے کمرہ ہے بڑا ہی تار یک
ہجر کے درد میں روتے ہوئے بستر پر
اُنگلیاں ڈھونڈتی ہیں اب بھی وہ گم گشتہ نقوش
جو مرے جسم کی پہچان ہوا کرتے تھے
جو مری روح کا درمان ہوا کرتے تھے
جن سے تخلیق کو تحریک ملا کرتی تھی
جن سے روشن تھا مرے حرف کا ایوان کبھی
اُنگلیاں ڈھونڈتی ہیں ڈھونڈ کے تھک جاتی ہیں
تھک کے بھیگی ہوئی پلکوں سے لپٹ جاتی ہیں (اُنگلیاں ڈھونڈتی ہیں)
۰۰ ۰۰
تمہارے بس میں ہے
بے نور کردو تم مری غزلوں مری نظموںکو
جو میں نے تمہارے اور اپنے روح کے بندھن سے
کھینچی تھیں
لہو میں بھیگتے سب استعاروں کو
محبت سے بھری یادوں کو باتوںکودنوں کو
اور راتوں کو (تمہارے بس میں ہے)
ابرارعمرکی تخلیقی ٹوکری میں ایک اَٹی کارنگ سرخی مائل بھی ہے۔تنہائی کاچرخہ کاتتے ہوئے وہ اپنے سماج میں پھیلی بےچینی، افراتفری،دُکھ،جبراوربربریت سے کسی طورغافل نظرنہیں آتا۔وہ ایسے کرداروں کی چُن چُن کرنشاندھی کرتاہےجومعاشرتی بگاڑکاسبب بنتے چلےہیں۔’’ خوش حالی لائو ‘‘ ،’’ بِک گئے ‘‘ اور’’ جنگ ابھی تک جاری ہے ‘‘ جیسی کئی نظمیں اس بات کی دلیل کے طورپرپیش کی جاسکتی ہیں۔گفتگوکی طوالت کے خوف سے بس یہاں ان نظموں میں سے چندٹکڑے درج کرتاہوں:
خوشحالی لاؤ
اپنے بینک اکاؤنٹس بھرو
انگلینڈ اور امریکہ کے بازار خریدو
پچھلوں نے تو صرف انا کو بیچا تھا
تم دھرتی کی عزت اور تاریخ بھی بیچو
اور باعزت کہلاؤ
خوشحالی لاؤ
چرچ گراکرشاپنگ سنٹر کی تصویر بنانے والوں کی تہذیب کو
گھر لاؤ
مسجد منبر کی آواز کو
ایک پرانا ساز سمجھنے والے لوگوں کے لیڈر
خوشحالی لاؤ ( خوشحالی لاؤ)
۰۰ ۰۰
بِک گئے
جو رہ گئے وہ اگلی بولی پر بصد خوشی بکے
مفکروں کی ٹولیاں بھی بک گئیں
مدبروں کی بولیاں بھی بک گئیں
قلم کا کارواں بکاخبر کا خانماں بکا
نوائے خامشی بکی صدائے زندگی بکی
فصاحتوں بلاغتوں کے سب امین بک گئے
مزار بک گئے تو سارے جانشین بک گئے (بِک گئے)
۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
۔۔۔
۰۰ ۰۰