تنقید

اپنی لِکھت میں بولتاتخلیق کار۔۔۔مظہرعباس رضوی : یونس خیال

دُکھ یاغم کی کیفیت میں غیرتخلیقی یانیم تخلیقی شخص کے ہاں چیخ کی شدت فضامیںارتعاش پیداکرکےاِس کاحصہ بن جاتی ہے،جوماحول کوسوگوارتوکرتی ہے لیکن اس کا تاثرتادیر نہیں رہتااور وہ ہواکی لہروں کاحصہ بن کرجلدختم جاتی ہے اس کے برعکس تخلیق کارکےہاں ایسی کیفیت میں دُکھ کابیج فکر،جذبے اوراحساس کےزیراثررہ کرپرورش پاتاہے اور اس کی جڑیں زمین اورزمینی حقائق سے جُڑے معاملات میں پھیلتی چلی جاتی ہیں۔کیوں کہ کائنات میں زمین کاسب سے بڑاحوالہ نسان ہے اس لیے زمین سے جُڑا تخلیق کاراپنے ذاتی دُکھ کوپوری انسانیت کےدکھوں ضم کرکے ان کاترجمان بن جاتاہے۔یہی سانجھ کسی غیرتخلیقی فردسے ایک تخلیق کار کو ممتازکرتی ہے۔
اس کے مقابل قہقہے اورزیرِلب مسکراہٹ میں معاونت کرنے والے فنکاراورتخلیق کارمیں باہمی فرق کااندازہ بھی اسی طریق سے لگایاجاسکتاہے۔کیوں کہ قہقہے ،لطیفوں (بلکہ اب توان کی جگہ کثیفوں نے لےلی ہے)اورغیرفطری حرکات وسکنات کی دین ہوتے ہیں اس لیے فکری سطح پرکسی قسم کی تحریک پیداکیے بغیر رزقِ ہوابن جاتے ہیں جب کہ لطیف مزاح انسانی دماغ کوشگفتگی سے متحرک کرکے انسانی شخصیت کےمزاج پرمثبت اوردُوررس اثرات ڈالتاہے ۔گھُٹن زدہ معاشروں میںجہاں کےافرادمجموعی طورپرذہنی دباوکاشکارہوں وہاں خالص مزاح تخلیق کرنے والوں کی اہمیت اوربھی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔یہ اس لیے بھی ضروری ہےکہ سیاسی،سماجی اورمعاشی ناہمواریوں کےشکارلوگ اپنے ذہنی آسودگی کی تلاش میں زندگی کومذاق بناکرپیش کرنے والےنیم تخلیقی ’’اداکاروں ‘‘کےہتھے چڑھنے کی بجائےزندگی کااجتماعی شعوررکھنے والے ایسےبیدارمغزمزاح نگاروںکی تخلیقات کی طرف رجوع کریں جن کے ہاں ہلکے پھُلکےاندازمیںمسائل کی نشان دہی اوران سےنبردآزماہونے کاحوصلہ ملتاہو۔اردوشاعری میں اس عہد کے ممتازمزاح نگاروں میںڈاکٹرمظہرعباس رضوی ایک ایسانام ہےجوپچھلی تین دھائیوں سےمعاشرے میں لطافت اورشگفتگی کی علامت بن کرقارئین کے ساتھ اپنی جُڑت کااحساس دلارہے ہیں۔
مظہرعباس رضوی کےمزاح میں اکبرالہ آبادی،سیدمحمدجعفری اورضمیرجعفری سالطیف طنزموجودہے ۔موضوعات کے حوالےسے بھی انہوں نےاپنےان سینئرزکی پیروی کی ہےلیکن انفرادیت یہ ہے انہوں نےاپنی شاعری میں میڈیکل اوربالخصوص خوراک سے متعلق معلومات کاخزانہ بھی اپنے قارئین تک شگفتہ اندازمیں پہنچایاہے۔
ڈاکٹررضوی نے عدمؔ،اخترؔشیرانی، غالبؔ اور دوسرے اہم شعراء کی زمینوں میں مشقِ سخن کی ہے اور خوب کی ہے ۔لیکن ان کے ہاں ضمیرجعفری اورنظیراکبرآبادی سے قربت کا احساس کچھ زیادہ نظرآتاہے۔ غالبؔ کی زمین میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں :
سسرال کی یلغار ہے ،میں یکا و تنہا
سالی میرے پیچھے ہے تو سالہ میرے آگے
یہ ٹھیک ہے مے خانے میں موجود تھا میں بھی
بیٹھے تھے مگر حضرت ِوالا میرے آگے

دوسرے شعرمیں انہوں نے ’’ حضرت ِوالا ‘‘پرلطیف ساطنزکرتے ہوئے میکدےکی پہلی صف میں اُس کی موجودگی کی شہادت دیتے ہوئے خودبھی اسی رنگ میں رنگے جانے کااعتراف بڑی دلیری سے کیاہے۔اگرچہ اس موضوع پرخودغالبؔ کاایک بہت شاندار
شعرموجودہےلیکن اساتذہ کی پیروی میںانھی کی زمین میں طنزیہ لہجہ اپناناہمت کاکام ہے۔
کہاں میخانے کا دروازہ غالبؔاور کہاں واعظ
پر اِتنا جانتے ہیں، کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
’’غالبؔ ‘‘
اردوزبان میں رعایتِ لفظی،تصرف،تحریف،محاورہ اورانگریزی زبان کی آمیزش سے مزاحیہ اور طنزیہ شاعری کرنے کی ایک روایت موجودہے۔اکبرؔ کے ہاں ایسی بہت سی مثالیں مل جاتی ہیں،مثلاًیہاںمحض ایک لفظ کے تصرف سے طنزکےکامیاب واردیکھیے:
۱۔
کسی نے گرکہامرتاہے مومنؔ
کہاہم کیاکریں مرجی خداکی
(مومن خاںمومنؔ)
کسی نے گرکہامرتاہے اکبرؔ
کہاہم کیاکریں مرضی ہماری
(اکبرؔالہ آبادی)
۲ ۔
آعندلیب مل کے کریں آہ وزاریاں
توہائے گل پکارمیں چلاوں ہائے دل
(رندؔ لکھنوی )
ٓآعندلیب مل کے کریں آہ وزاریاں
توہائے گل پکارمیں چلاوں ہائےقوم
(اکبرؔالہ آبادی)
ڈاکٹررضوی کےاشعارمیں اردومحاورات اورضرب الامثال کے استعمال کی بہت عمدہ مثالیں موجودہیں،خوبی ان کی یہ ہےکہ نہ توان میں کسی قسم کےبھرتی معلوم ہوتی ہے اورنہ ہی مصرعوں کی روانی متاثرہوتی ہے:
ماہرہیں مونگ دَلنے کےسینے پہ وہ مگر
ہم مونگ دَل کے اس کے بناتے ہیں حلوہ جات
۰۰ ۰۰
گھُن بھی پستاہے ساتھ گیہوں کے
پیس مظہر ؔ سنبھال کر گندم
۰۰ ۰۰
ہماری دال تو گلتی نہیں گرانی میں
فقیرکہتاہےباباکھلا مسورکی دال
۰۰ ۰۰
آئے ہیں کہاں سے، ہمیں اب جاناکہاں ہے
کس کھیت کی مولی ہیں،نہیں کچھ بھی عیاں ہے
اب تک ان کی مزاحیہ شاعری کے نومجموعےشائع ہوچکے ہیں۔’’ ہوئے ڈاکٹری میں رسوا ‘‘ کےنام سے مظہر عباس رضوی کی مزاحیہ شاعری کاپہلامجموعہ۱۹۹۹ءمیں چھپاتھا۔اس کاابتدائیہ پاکستان میں میسرطبی سہولیات کی عدم دستیابی کےحوالے سےموجودکرب لیےاُن کی شخصیت کی پرتیں کھولتاہے۔سماج میں پھیلی جہالت ،غربت اورعوامی صحت کی طرف حکمران طبقے کی عدم توجہی کےشاہدڈاکٹرکےاندرکاحساس تخلیق کاربیدارہوتاہےاوروہ مزاح کےنشترسے اس کےعلاج کونکل کھڑاہوتاہے۔اسے معلوم ہے کہ وہ اکیلاکسی قسم کی تبدیلی لانے سے قاصرہےلہذااس نےایک وقت میں دومختلف محاذوں پرلڑنےکافیصلہ کیا۔سنجیدگی اورمہارت سے طِبی معاملات میں سماج کی خدمت اورطنزومزاح کےانداز میںمعاشرتی ناہمواریوں کی نشان دہی اوران کےعلاج کے لیے تجاویزپیش کرنا۔ڈاکٹررضوی کی مزاحیہ شاعری کےپیچھے موجودفکراورمقاصدکاعکس اس ابتدائیے کےاِن الفاظ میں موجودہے:
’ ’ اس کتاب میں شامل نظمیںمیرے ذاتی مشاہدات کاعکس ہیںاوراس سےہرگزکسی کی تذلیل وتوقیرمقصودنہیں ۔ڈاکٹرہوں یامریض ہم سب اسی معاشرے کاحصہ ہیں اوراپنی کوتاہیوں کوایک دوسرے سےچھپانامحض اپنے آپ کودھوکہ دینے کے مترادف ہے۔البتہ برائیوں کی اس طرح نشان دہی کرناکہ اس سے تعمیرکاکوئی روشن ومثبت پہلونکلتاہومیری نظرمیں جہاد سے کم نہیں۔ ‘‘
اسی کرب کااظہاروہ پہلے مجموعےکی پہلی نظم میں اقبالؔ کےمشہورشعرکی تضمین کرتےہوئے کہتے ہیں:
حشرصحت کاجودیکھاوہ بتاسکتانہیں
’’ آنکھ جوکچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتانہیں‘‘
’’ ہوئے ڈاکٹری میں رسوا ‘‘ میں شامل نظم’’مشورہ مفت لو‘‘ میں غربت اورجہالت میں لپٹےمعاشرےکے مکینوں کی نیم حکیمیت پرگہراطنزکرتے ہوئے کہتے ہیں:
ہر پڑوسن تمہیں نسخہ لکھوائے گی
پیٹ میں دردہوسونف لےآئےگی
اُلٹیوں کے لیے اِک حکیمی دوا
اس کاشوہرجولایاتھادےجائے گی
اورکہے گی کہ پھکی بمع دودھ لو
مشورہ مفت لو،مشورہ مفت لو
اس مجموعے میں انہوں نے سرکاری ہسپتالوں کی حالت ،طریقہءعلاج،ایمبولینس کےغیرمناسب استعمال،جعلی ادویات،ڈاکٹروں اورسرجنوں کی بےحسی،آپریشن تھیٹرکی بےسلیقگی،دواسازکمپنیوں میں رشوت کےنظام اورپرائیوٹ کلینکس کی لُوٹ مارجیسےکئی موضوعات پرقلم اُٹھایاہے۔’’ مریض کی فریادا ‘‘ میں اگرکہتے ہیں کہ’’ہیلتھ کے شعبے میں گھُس آئے مداری ہائےہائے/لوعزیزوآئی اب شامت ہماری ہائےہائے‘‘ تو ’’ ڈاکٹرکی فریاد میں ‘‘ اپنےہم پیشہ افرادکے مسائل کاذکریوں کرتےہیں۔’’کررہاتھا ڈاکٹریہ آہ وزاری ہائے ہائے/پھررہاہوں کب سے میں مثلِ بھکاری ہائےہائے‘‘ ۔اپنی نظم ’’ خیال اپنااپنا ‘‘ میں کاروباری ذہنیت کے معالجوں کی سوچ کااظہارکرتےہوئے اگرکہتے ہیں کہ’’ڈاکٹرکہتاتھایارب ایساکاروباردے/میرابھرجائےکلینک اس قدربیماردے ‘‘ تومریض کی فریادبن کرکہہ اُٹھتے ہیں کہ’’مشورے کی فیس دےکرہوگئےقلاش ہم/ہواگرممکن دوادے دواُدھاری ہائےہائے ‘‘۔
ڈاکٹررضوی دیگرمجموعہ جات بالترتیب دوابیچتے ہیں(۲۰۰۳ )/ گڑبڑگھُٹالہ(۲۰۰۵ء)/ہنسپتالی شاعری(۲۰۱۰ء)/صحیفہءغم(۲۰۱۴ء)/سُخن ظریفی (۲۰۱۵ء)/ظریفانہ آئے ہنساکرچلے(۲۰۲۰ء)/قلم محوِعبادت ہے(۲۰۲۲ء) اورآخری مجموعہ دخل درماکولات(۲۰۲۴ء) میں شائع ہوئے۔پہلے مجموعے سےاب تک کی مسافت میں ان کےہاں فنی اورموضوعاتی سطح پربہت زیادہ پختگی دیکھنے کوملتی ہے۔اب ان کے ہاںموضوعات میں وسعت آگئی ہے۔’’ دخل درماکولات ‘‘ میں انہوں نے خوراک سےمتعلق بہت اہم معلومات ہلکے پھُلکےاندازمیں اپنے قارئین تک پہنچائی ہیں۔یہ انفرادیت کسی اورمزاح نگارکےہاں نہیں ملتی۔
’’ دخل درماکولات ‘‘ کےشاعرمثبت اندازِفکر اور زرخیزدماغ کے مالک ہیں۔انہیں پھکڑپن اورشگفتہ مزاح کادرمیانی فرق معلوم ہے۔پیش گفتارمیں غیرتخلیقی مزاح نگاروں کاذکرکرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’ ٹی وی،سوشل میڈیا،اورٹک ٹاک کے مسخرے شعراء کی مذاقیہ شاعری کو بنیاد بناکر اردومزاحیہ شاعری کی بے توقیری نہ کی جائے
بلکہ گمنامی کی دھندمیں لپٹے ان شعراکوتلاش کیاجائے جنھوں نےاردومزاحیہ شاعری کوثروت مندکیا ‘‘
اس مجموعے کی ابتداءمیںشامل ’’ اردومزاحیہ ادب میں طعامی شاعری ۔۔۔ایک مطالعہ ‘‘ کے عنوان سےڈاکٹررضوی صاحب کا بہت عمدہ مقالہ ہے۔جس میں انھوں نےمعاصرمزاحیہ/طعامیہ شاعری پر صحت مندتنقیدی اندازمیں بات کی ہے۔ اگرچہ ظفراقبال اس عہدکی شاعری کابڑانام ہے لیکن ڈاکٹررضوی ان کے اس معروف اورمتنازع شعرکاحوالہ دے کرایسی مزاحیہ شاعری سے منہ موڑنےکااعلان کردیتے ہیں:
جسے کتے نہیں قبولتے ہیں
شعرہے وہ سڑاہواآلو
مزاحیہ شاعری کےحوالےسےڈاکٹررضوی کی اس رائے سےاختلاف کرناممکن نہیں ہےبلکہ اس طرزکےاشعارتومزاحیہ شاعری کی تضحیک ہیں۔
شفتگی ڈاکٹررضوی کے مزاج کاحصہ ہےجس تک رسائی کےلیےانھوں نےکتنی تلخیوں کے ساتھ زندگی بھرجنگ کی ہےاورکتنے زخم سہے ہیں یہ وہی جانتے ہیں لیکن میں اتناضرورکہوں گاکہ وہ اس جنگ میں فتح یاب ہوئے ہیںاوراگروہ اس جیت کااعلان مزاحیہ شاعری میں نہ کرتے توشگفتہ نثرضرورلکھتے۔ ’’ گڑبڑگھُٹالہ ‘‘ کی ابتدامیں ’’چل میرے خامہ بسم اللہ ‘‘ کےعنوان کے تحت لکھی نثرکاایک ٹکڑادیکھیے:
’’ طبی نکتہء نگاہ سے خارش کی کئی اقسام ہیں اور اس کی تشخیص کے لیے ماہر امراض جلد سے رجوع کیے بغیر علاج ممکن نہیں لیکن میں جس خارش کا ذکر کر رہا ہوں وہ قلمی خارش ہے جو ادیبوں اور شاعروں کو ہو جاتی ہے اور پھر اس کا نتیجہ ایک عدد کتاب کی صورت میں برآمد ہوتا ہے‘‘
’’ دخل درماکولات ‘‘ایسی شگفتہ دسترخوانی شاعری ہےجس میںاناج،پھلوں،سبزیوں اورخوراک کاحصہ بننے والی دیگراشیاءکے فوائداورنقصانات کو موضوع بناکر شاعرنے ایک شاندارلیکن غیرمحسوس طریقےسے اپنے قارئین کوان کی صحت کےحوالے سےآگاہی کاسفر شروع کیاہے۔پھلوں اورسبزیوں کے فوائدسے متعلق اردوشاعری میں ایک محدودسی روایت پہلے سے موجودہے۔یہاں ایک مشہورنظم کےکچھ اشعاردیکھیے:
اگر تیرے معدے میں ہے کچھ گرانی
تو لیمو ںکا رس پی لے ادرک کا پانی
اگر خوں ہے کم اور بلغم زیادہ
تو گاجر بھی کھا اور شلجم زیادہ
جگر ہی کے دم سے ہے انسان جیتا
جگر کا مرض ہے تو کھا لے پپیتا
اگر ذہن کمزور رہتا ہے اکثر
تو کھا شہد کے ساتھ بادام گھس کر
اگر تجھ کو احساس ہے ضعف دل کا
تو ہر روز لے آنولے کا مربہ

لیکن ڈاکٹررضوی کے ہاں مزاح کی آمیزش ،طبی معلومات کی فراوانی اورپھرموضوعات میں تنوع نے انہیں انفرادیت عطاکی ہے۔ایک زمانے میںجیسے بہشتی زیور کانسخہ نئی دلہنوں کے جہیزمیں رکھنے کارواج رہاہے ،میراخیال ہے’’ دخل درماکولات ‘‘
کو ہرکچن میں ایسی ہی اہمیت دی جانی چاہیے۔
’’ دخل درماکولات ‘‘کےشاعرکا مطالعہ بہت وسیع ہے اس نے بہت سارے شعراء اور بالخصوص مزاحیہ شعراء کو نہ صرف پڑھا ہے بلکہ ان میں سے کئی ایک کے کلام کی تضمین بھی کی ہےلیکن اس نےضمیرجعفری سےطنزاورنظیراکبرآبادی سا اجتماعی شعور ،جُزیات نگاری اورمزاحیہ حِس کو شعوری طورپراپنایاہے۔ضمیرجعفری کی نظم ’’ اک ریل کے سفر کی تصویر کھینچتا ہوں ‘‘کاایک بنددیکھیےجس میں انہوں نے مسلمانوں اوربالخصوص برِصغیرکےمسلمانوں کی حالتِ زارپرگہراطنزکیاہے:
یہ سارے کھیت کے گنے کٹا لایا ہے ڈبے میں
وہ گھر کی چارپائی تک اٹھا لایا ہے ڈبے میں
کھڑے حقے بمعہ مینار آتش دان تو دیکھو
یہ قومِ بے سر و سامان کا سامان تو دیکھو
ڈاکٹررضوی کےہاں ان کی نظم ’’ مرغی نامہ ‘‘ میںقومی سطح پر لالچ اورآپس میں کھینچاتانی کے حالات کی منظرکشی اس اندازمیں ملتی ہے:
یونہی توکہتے نہیں ہم کو ملتِ بیضا
اُڑاکے مرغی کریں ہم سلام مرغی کو
لڑے جوخوان پہ آپس میں آج دومُلا
سناہے کرگئے ہیں وہ حرام مرغی کو
اسی طرح ضمیرجعفری کی’’ پرانی موٹر ‘‘ کے مقابلے میں ویگن کے سفرکاقصہ سناتے ہوئے کہتے ہیں:
اتنی قربت سے خوف اتا ہے
باندھتا ہوں حصار ویگن میں
اے خدا یہ سفر بخیر رہے
ہوتصادم نہ کار،ویگن میں
نظیراکبرآبادی نےمغرب سے متاثرہوئے بغیرمخصوص اندازمیں اپنےمسائل زدہ معاشرے کی تصویریں ہلکےپھُلکے اندازمیں پیش کیں ۔ڈاکٹررضوی کااندازان کی نظموں کے بہت زیادہ نزدیک دکھائی دیتاہے۔یہاں نظیرؔکے’’آدمی نامہ ‘‘کی طرزپرلکھی ڈاکٹررضوی کی نظم’’ سو ہے وہ بھی ڈاکٹر ‘‘کے دوبنددیکھیے:

یاں آدمی پہ جان کو وار ےہے ڈاکٹر
اور آدمی کو آپ ہی مارے ہے ڈاکٹر
کپڑے پہنا کے کپڑے اتارے ہےڈاکٹر
ہر شخص دیکھو پھر بھی پکارےہے ڈاکٹر
گھر گھر جو جا رہا ہے سو ہے وہ بھی ڈاکٹر
بیٹھے ہیں ڈاکٹر ہی دکانیں لگا لگا
اور ڈاکٹر ہی پھرتے ہیں کاروں میں دیکھنا
ان کے مطب بھی شہر میں بکھرے ہیں جابجا
کس کس طرح یہ بیچیںہیں ہر سمت مشورہ
دھکے جو کھا رہا ہے سو ہے وہ بھی ڈاکٹر
میں نےڈاکٹررضوی کی مزاحیہ شاعری کابغورمطالعہ کیاہےاورکئی مقامات پر پڑھتے پڑھتےیہ بھول گیاتھاکہ ایک شعری مجموعہ پڑھ رہاہوں ،مجھے لگاکہ ایک ماہرڈاکٹرسے ہلکے پھلکے لہجے میں سبزیوں اورپھلوں کے فوائدسن رہاہوں۔آپ سب جانتےہیں کہ جب تخلیق کارلکھتے لکھتے اپنی تخلیق میںبولنے لگے اوراس کاقاری اُسےپڑھتے پڑھتے تخلیق کارکی آواز سننے لگے تواس وقت تخلیق کاراپنے فن کے عروج پرہوتاہے۔مجھے اندازہ ہےکہ مضمون کچھ زیادہ طویل ہورہاہے۔اس کا حل یہ ہے کہ میںیہاں اپنی بات ختم کروں اور آپ ڈاکٹرصاحب کے کچھ اشعارپڑھیں اورمزہ لیں:
جیسا کہ درد ہوتا ہے بیوی کے مار سے
ویسا ہی درد اصل میں عرق النساء کا ہے
۰۰ ۰۰
ایک گنجے کو سناہم نے یہاںکہتے ہوئے
میں نہ مرجاؤں دوائی کا اثر ہونے تک
چار برسوں میں اُگے چار میرے سر پربال
’’کون جیتا ہے مری زلف کے سر ہونے تک ‘‘
۰۰ ۰۰
تھی دواؤں میں نہیں نسبت بھی کوئی دور کی
ایک مصرع داغ ؔکا تھا ایک مصر ع میرؔ کا
۰۰ ۰۰

خدا محفوظ رکھے ہسپتالوں اور تھانوں سے
ہیں یکساں ڈاکٹر کے اور تھانے دار کے نخرے
۰۰ ۰۰
’’عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں ‘‘
تو بٹوے عورتوں کے چھین کر جاتے ہیں تھانوں میں
پتہ چلتا نہیں ہرگز یہ شاہیں ہے کہ شاہینہ
گلے میں ان کے لاکٹ ہے تو بُندے ان کے کانوں میں
۰۰ ۰۰
گھی میں بھُن کردوسروں کابھُوننا
ایک ہی ہے بس عقیدہ پیاز کا۔
۰۰ ۰۰
تاج ہرایک پرنہیں سجتا
دیکھ لو تم مقام بینگن کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

تنقید

شکیب جلالی

  • جولائی 15, 2019
از يوسف خالد شکیب جلالی—————-ذہنی افلاس اور تخلیقی و فکری انحطاط کی زد پر آیا ہوا معاشرہ لا تعداد معاشرتی
تنقید

کچھ شاعری کے بارے میں

  • جولائی 15, 2019
      از نويد صادق مولانا شبلی نعمانی شعرالعجم میں لکھتے ہیں: ’’ سائنس اور مشاہدات کی ممارست میں