جہان اورمفاہیم سے اَٹاہواتھا
(اِقتدارجاویدکاجہانِ شاعری)
اِقتدارجاویدکوپڑھنے اورملنے والے جانتے ہیں کہ اس کی شخصیت اورفن کوایک دوسرے سے الگ کرناکتنا مشکل کام ہے۔ایک تو بطورشاعر،کالم نگار،سفرنامہ نگار،افسانہ نگار،ناول نگار اورمترجم ہرادبی صنف کی تخلیق میں اس نےاپناایک خاص فنی معیاربرقراررکھاہے اوردوسری وجہ یہ کہ علمی اورفکری حوالے سے موضوع پرگرفت اورمدلل گفتگواس کی شخصیت کاحصہ ہے۔اس کا مزاج اُس مضطرب صوفی سا ہے جودنیاکوبہت گہری نظرسے دیکھنے کی صلاحیت رکھتاہو۔ وہ ادبی چغہ پہنےذات وکائنات کی تہوں میںموجودعلم ودانش کے موتی چنتاہے اورپھردنیاداروں میں اُن کے ظرف کے مطابق مٹھیاںبھرکرتقسیم کردیتاہے۔ دنیامیں ایسے احباب کی تعدادبہت زیادہ نہیں ہوتی جن کے ہاںعمیق نگاہی ،تجزیاتی رویہ اورپھرپُرکشش سادہ اظہارکاسلیقہ ایک ساتھ موجودہو:
جہاں کودیکھ رہاتھامیں اورنظروں سے
جہان اورمفاہیم سے اَٹاہواتھا
اِقتدارجاویدکی تخلیقات کوصوفی ازم کے حوالے سےدیکھا،پرکھاجاسکتاہے اوراس پربہت طویل گفتگوبھی ممکن ہے لیکن ایک تومیںاس بڑے تخلیق کارکوایک اِزم تک محدودنہیں کرناچاہتااوردوسری بات یہ کہ بہت سے ناقدین اس حوالے سےاپنی رائے دے چکےہیں۔مجھے توبس آپ کواس سرشاری کی کیفیت میں شریک کرناہےجس سے میں اس کی شاعری کوپڑھ کرگزرا۔
اب تک اِقتدارجاویدکی نظموں کے تین مجموعے شائع ہوچکےہیںجب کہ 2003ء میں شائع ہونے والے شعری مجموعے’’ ناموجود‘‘ میں نظموں کے ساتھ اس کی غزلیں بھی شامل تھیں۔غزلوں کے مجموعہ جات میں’’سخن نشانی عشق کی‘‘ ،اورحال ہی ہی میں چھپنے والامجموعہ’’ ہیکل‘‘ شامل ہیں۔اس کے علاوہ پنجابی زبان میں بھی اس کے دوشعری مجموعے چھپ چُکے ہیں۔
’’ایک اور دنیا ‘‘اس کی نظموں کا شاندار مجموعہ ہے جس پر وقت کے بڑے ناقدین نے اپنی رائے دی ہے ۔ اس میں شامل نظموں کا ماحول اپنے اندر ایک خاص قسم کی کشش رکھتاہے۔اکثر نظموں کے عنوانات بہت سادہ اور یک لفظی ہیں لیکن جب ہم ان کے اندر اُترکےدیکھتے ہیں تو وہاں معنی اور فکر کا ایک جہان نظر آتا ہے۔ان نظموں کےسادہ متحرک کرداروں کی موجودگی میں قاری کسی قسم کی گبھراہٹ کاشکارہونے کی بجائےاس کی فضاکاحصہ بنناپسندکرتاہے ۔’’ گڈریا ‘‘،’’جنگل ‘‘،’’کشف ‘‘،’’تمہید‘‘،’’ باغی‘‘ ،’’چوک‘‘ ،’’جنم ‘‘،’’پردہ ‘‘،’’آیا‘‘،’’ اٹلس‘‘ اور ’’اندر اتا‘‘ جیسی نظمیں اپنے اندر پراسراریت اورکسی حدتک غیرمحسوس پیچیدگیاں سمائے ہوئے ہیں جن کی گرہیں زندگی کے سیدھے سادے کردار آسانی سےکھولتے نظر آتے ہیں۔ نظم’’ آیا ‘‘کا ایک حصہ دیکھیے:
اسکول، اسکول سے ملحقہ سبز میدان
آیا سے،
آیا کی، بچوں کی کومل دعاؤں سے
خالی
پڑا رہ گیا
ایک آنسو
جو
آیا کی انکھوں سے پھوٹا
وہ پلکیں نہ ملنے کے باعث
المناک آنکھوں کے اندر
کھڑا رہ گیا !!
’’عین سرپہ ستارہ ‘‘ اور ’’ میں سانس توڑتاہوا‘‘ کی نظموں کی فضاکھلی،شفاف اور معطرہے۔انہیں پڑھتے ہوئے ایک نئے پن اورنظم کے دامن کی وسعت کا احساس ہوتاہے۔اس مجموعے میں چالیس سے زیادہ نظمیں شامل ہیں جن میں مختلف انسانی رویوں کو شاعری کاموضوع بنایاگیاہے۔موضوعات کاتنوع اورپھرانہیں پیش کرنے کااندازاتناجاندارہے کہ نہ توکسی قسم کی یکسانیت کااحساس ہوتاہے اورنہ ہی شاعراپنے مخصوص ڈکشن سےباہرنکلتاہے۔ ’’ نمک زار‘‘، ’’ سات بازاروں کاشہر‘‘، ’’ ستاریا‘‘،بھرشٹ‘‘، ’’ تارِعنکبوت‘‘،سرنگیا‘‘، ’’ خبیث‘‘ اور ’’ غار‘‘جیسی کئی دوسری نظموں میں قاری اپنی ذات کا عکس محسوس کرتاہے۔
نظم ’’ ہجوم ایک ایڑی پہ کب سے کھڑاہے‘‘ وقت کاایسانوحہ ہےجومعاشرے میں انسانی بے حسی اور بے بسی دونوں کاشدت سے احساس دلاتاہے:
میں اپناہی دل چیرتے،بین کرتے
ہجوم ِگرفتارِاَفسوں کے چاروں طرف
دیکھتاہوں
ہجوم،ایسی حالت میں کب سے کھڑاہے!
پرندے،درختوں سے اُڑکےچہکتے ہوئے
اُن کے شانوں پرآبیٹھتے ہیں
کوئی آدمی بولتاتک نہیں ہے
نگاہوں کی بے آب جھیلوں پہ
پنچھی اترنے لگے ہیں
ہجوم، ایک ایڑی پہ کب سے کھڑاہے
سروکاراس کوکسی سے نہیں ہے
نہ مجھ سے نہ اُس سے
کسی سے سروکارا س کونہیں ہے !!
’’ ہیکل‘‘ کی غزلوں کا ناک نقشہ عام شاعری سے ذرا کچھ مختلف ہے۔یہ ایک ایسے تخلیق کارکی جاندارتخلیق ہےجوڈکشن اور فکری ہردوسطح پراپناشعری جہان خودترتیب دینے کی کامل اہلیت رکھتاہے۔ایک ایسا تخلیق کار جو خواب بُنتاہے اورپھرانھیں خود ہی توڑ کر باہر نکل آتاہے۔اس کےہاں اَن دیکھے راستوں میں چھپی منزلوں کی تلاش کونکلنااہم ہے لیکن کسی ایک منزل کوپانے کے بعد بھی اس کے ہاںبے قراری کااحساس کم نہیں ہوتا۔دوسرے لفظوں میں یہ شعری مجموعہ خواب سے باہر نکل کر کائنات کی تسخیرکو نکلے ایسے مسافرکی سرگزشت ہے جوپہلے سے طے شدہ رستوں کی بوسیدگی سے نفرت کرتے ہوئے اپنے راستے بھی خود ہی تراشنا پسند کرتاہے۔
ایک دنیا،اک جہاں تسخیرکرنے واسطے
خواب بھی توکوئی ہو تعبیر کرنے واسطے
شاعری ہے جیسے میرے واسطوں کی گفتگو
یہ نہیں اورنگِ عالم گیرکرنے واسطے
۔۔۔۔۔
اقتدارجاویداپنے لاشعور میں تخلیق پانے والے شعری جوہرکو اپنے قاری تک منتقل کرتے ہوئے اپنی لفظیات ،علامات اوربحور کاانتخاب اس ہنرمندی سے کرتے ہیں کہ ایک نئےپن اورانفرادیت کااحساس موجود رہتاہے۔
بستا ہے ایک شہر مرے لاشعور میں
تم کوبھی اس کی سیرشعوری کراوں گا
۔۔۔۔۔۔
بے زبانی کا کوئی انبوہ ظاہر ہو رہا تھا
گفتگو سارے معانی رفتہ رفتہ کھورہی تھی
۔۔۔۔۔۔۔
کنارے توڑتامنہ زور پانی دیکھناہو
پلٹ آو جو دریائے معانی دیکھناہو
کسی بڑے اورپختہ مزاج تخلیق کار کی طرح ان کے ہاں بھی اپنے’’ ہونے‘‘ یااپنے تخلیقی قدوقامت کااحساس کئی جگہوں پرموجودہے۔
کسی تہہ سے اُبھرتاجارہاہوں
کنوئیں پانی سے پھرتاجارہاہوں
۔۔۔۔۔۔
زیر ہو تو زبر بناتا ہوں
میں پرندوں کے پر بناتا ہوں
لوگ ڈرتے ہیں جس سمندر سے
اک جزیرہ ادھر بناتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔
ابھی توہم نے ہاتھوں سے کبوتر ہی نکالاہے
ابھی دیکھیں گے کیاکیااس کبوتر سے نکلتاہے
اقتدارجاوید کی شاعری کی زبان اورخاص طورپرردیف اورقافیوں کی انفرادیت ایک الگ اوربڑاموضوع ہے اوراس پرتفصیل سے گفتگودرکارہے۔عربی زبان کے علاوہ تاریخی موضوعات پرمضبوط گرفت اورپھراپنی تہذیب سے جُڑت کےگہرےاحساس نے انھیں اپنے عہدکے ممتاز تخلیق کاروں کی صف میں شامل کردیاہے۔
آپ دوستوں کے لیے’’ہیکل ‘‘ سے کچھ اشعارجومجھے اچھے لگے:
انھیں ضوپاش زینوں پر تجھے دیکھا تھا ہنستے
یہیں زینہ بہ زینہ پھول دھرنے کی گھڑی ہے
۔۔۔۔۔۔۔
یہ مظاہردیکھ کرایماں سے بھرجاتا ہوں میں
ایسااُٹھتاہے یقیں خود سے کہ ڈرجاتاہوں میں
اپنی اپنی باریاں ہیں اپنا اپنا وقت ہے
اے مری رَورُک یہاں پراے ہنرجاتاہوں میں
۔۔۔۔۔۔۔
رُکوں گاکیاہتھیلی پر کسی کی
کہ موتی ہوں پھسلتاجارہا ہوں
۔۔۔۔۔۔
میں وہاں پہنچا تو شایدرات آدھی ہورہی تھی
سانس مدھم ہورہے تھے ساری خلقت سورہی تھی
ڈوبتے جاتے افق پرجھاگ اڑتا جا رہا تھا
چاند کے صابن کی ٹکیہ شب کی کالک دھورہی تھی
۔۔۔۔۔۔
یہ نمازِعشق تھی اس میں سہولت ہی نہ تھی
کیااداکرتاکہ اس کی توقضاہوتی نہ تھی
۔۔۔۔۔۔۔
دُھوپ پرڈالیے کوئی مخمل
چھاوں کے واسطے ہواکیجے
وقت کا کچھ پتہ نہیں چلتا
اپنی اوقات میں رہاکیجے
۔۔۔۔۔
ایک نشانی پکی اس کی،آٹااس کا چکی اُس کی
قُفل پرانی لکڑی کاہے گیٹ بڑادرباروں والا
اپنی نیندیں اپنے سپنے برتن چین سے مہنگے اپنے
آوا اپنا ٹبے اوپر چکا ہے کمہاروں والا
۔۔۔۔۔۔
میں مسجدکی کرائے والی دوکانوں میں ہوتاہوں
بہشتی پھول ہوں لیکن بیابانوں میں ہوتاہوں
۔۔۔۔۔۔
بدن مصلےٰ کریں دل دعائیہ کرلیں
عشاکاوقت ہے بی بی عشائیہ کرلیں
۔۔۔۔۔
یک بگ بینگ تھاپھولوں کی چٹک سے نکلا
کام سوئی سے نہ نکلا تو پلک سے نکلا
۔۔۔۔۔
دوکان دارکہہ تو رہا ہے سویر سے
پرپانچ سیروالی دھڑی لگ نہیں رہی
راوی بھی اپنی موج کچھ دکھلانہیں رہا
رنجیت سنگھ کی بھی مڑھی لگ نہیں رہی