اِتمام۔۔کلیات اقبال حسین
تبصرہ : خورشیدربانی
ایسے لکھاری ہیں جو اپنے جداگانہ اسلوب کے باعث معاصر ادبی منظرنامے میں اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں۔انھوں نے پرانے مضامین میں نئے پہلو تراشنے کے ساتھ ساتھ لفظیات، ردیف و قافیہ اوربحروں کے ضمن میں بھی نئی راہیں تلاشی ہیں۔ شکیب اور خلیل رام پوری کے بعدبھکر سے اگر کسی شاعر کا نام معاصر ادب میں اپنی چھب دکھا رہا ہے تو وہ اقبال حسین کا ہے۔وہ غزل کے میدان میں بہ طرزِ نو کی روش پر ابتدا سے کاربند ہیں اور اپنی اس کاوش میں کامیاب بھی رہے ہیں۔عمومی ڈگر سے ہٹ کر اور تازگی سے مملو شاعری کرنا ہر کسی کاکام نہیں مگر اقبال حسین نے یہ معرکہ سر کر لیا ہے۔اقبال حسین نے اظہار کے لیے جدت کے سرچشموں سے استفادہ کیا مگر روایت سے کنارہ کشی اختیار نہیں کی،اسی باعث ان کی شاعری دلوں کو تسخیر کرنے کا وصف رکھتی ہے۔اقبال حسین کا تعلق بھکر سے ہے اوران کے اب تک درجن سے زائد شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں جنھیں کچھ عرصہ قبل کلیات”اتمام“ کی دوجلدوں کی صورت منظرعام پر لایا گیا ہے جن کی اشاعت کا اہتمام ناصرملک کے ادارے اردو سخن نے کیا ہے۔امید کرتا ہوں کہ ان کے کلیاتِ شعر اردو ادب کی اہم کتابوں جگہ پائے گی۔
ہماری آنکھیں وہاں نیند سے بھی ہیں محروم
کہ زندگی کا جہاں انحصار خواب پہ ہے
بلندیوں کا سیاق و سباق ہونے کو
ترس گیا ترے قدموں کی خاک ہونے کو
تیرگی مر گئی یزید کے ساتھ
روشنی کا سفر قیامت تک
کوئی تضاد یہاں رسم وراہ رکھتا ہے
سفید جسم بھی سایا سیاہ رکھتا ہے
نماز ترک کروں کیسے جاں بہ لب تو نہیں
میں عشق فرض سمجھتا ہوں مستحب تو نہیں
وقتِ رخصت رکنے کوکوئی نہیں کہتا
جاکر ہم کو بھول نہ جانا سب کہتے ہیں
قبریں قبرستان کے ہیں اوراق حسین
مرنے والوں سے یہ البم بنتا ہے
یہ اور بات اسے اظہار میں مضائقہ ہے
وگرنہ زیست کو درکار تو رہا ہوں میں
موت کے اندھیروں سے زندگی بچا لے جائے
حُر جدھر گیا ہے،ہر شخص کو خدا لے جائے
قربتوں کی یہ کیسی منزل ہے
ساتھ رہنے میں سانس حائل ہے
جی رہے ہیں کچھ اس طرح سے لوگ
جیسے احسان یہ خدا پر ہو
عمر بھر کے سفر کے بعد کھلا
طے مجھے راستے نے کرنا ہے
کسے انکار موت سے ہوگا
اُس کے لہجے میں گر بلائے تو