خاکہ نگاری ایک ایسا فن ہے جس کے ذریعے انسان کی تصویر لفظوں سے بنائی جاتی ہے ایک بولتی ہوئی تصویر جو کہ ایک حقیقی انسان کی طرح اچھائی اور برائی دونوں طرح کے پہلو اپنے اندر رکھے ہوئے ہوتی ہے
خاکہ نگاری کا فن کسی بھی لکھاری کے لئے آسان کام نہیں ہوتا کسی شخصیت کا خاکہ لکھتے ہوئے لکھاری کو خاکہ نگاری کے فن کو مد نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے
اردو ادب میں خاکہ نگاری کی روایت کو دیکھا جائے تو اس کے ابتدائی خدوخال شعرا کے تذکروں میں دکھائی دیتے ہیں انیسویں صدی کے آخر میں سوانح نگاری عام ہوئی بعدازاں شخصی خاکے عام ہوئے مثال کے طور پر محمد حسین آزاد کی کتاب "آب حیات "میں مختلف شخصیات سے متعارف کرواتی ہے اس میں خاکہ نگاری کے ابتدائی نمونے موجود ہیں آزاد نے اس کتاب میں شخصیات کے بیان کے ساتھ ساتھ اس عہد کی تہذیب کو بھی پیش کیا ہے جس میں شعرا کے حلیے ان کے لباس ان کے طور اطوار اور ان کے معاصر کو مفصل بیان کیا ہے
خاکہ نگاری کے بارے میں ڈاکٹر انور سدید کی رائے
"خاکہ نگاری میں مصنف شخصیتوں کے بطون میں جھانکتا ہے اور نادر و عجیب گوشے تلاش کرتا ہے اس لحاظ سے خاکہ نگاری شخصیتوں کی سیاحت ہے اور اس میں شخصیت کو اس کے عادات و خصائل حرکات و سکنات اور اعمال و اقوال سے دریافت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ”
جس حوالے سے یہ مضمون لکھا جا رہا ہے اس سے پہلے خاکہ نگاری کے فن پر تمہیدً بات کرنا ضروری ہے اس طرح وہ نقطہ جس کو بیان کرنا ہے وہ بہتر طور پر قارئین تک پہنچے گا
خاکہ نگاری کے ذریعے ان شخصیات کو جاننے کا موقع ملتا ہے جن کے بارے میں آپ جاننا چاہتے ہیں خاکہ نگاری کے ذریعہ ان کے متعلق آپ بہتر طور پر جان سکتے ہیں خاکہ لکھنے کے لیے خاکہ نگارشخصیت کا انتخاب کرتا ہے شخصیت کے چناؤ میں عام طور پر مشہور یا قریبی شخصیت کو چنا جاتا ہے اس کے بعد دوسرا مرحلہ خاکہ نگاری کا آتا ہے جو کہ کٹھن مرحلہ ہوتا ہے خاکہ نگار جب خاکہ لکھنا شروع کرتا ہے تو اس پر مختلف طرح کی ذمہ داریاں عائد ہوجاتی ہے یعنی خاکے میں شخصیت کا بیان غیر جانبداری سے ہو اس میں کسی قسم کی دوستی اور دشمنی کا عنصر موجود نہ ہو اگر اچھائی کا بیان کیا جائے تو برائی کا بیان بھی ہو شخصیت کا ایسے ہی بیان ہو جیسے وہ عام زندگی میں ہے جس کو پڑھنے کے بعد قاری اس شخصیت کے بارے میں کچھ واقفیت حاصل کر لے گا واقفیت نہ بھی ہوں تو کم از کم اس کے متعلق کچھ معلومات یا باتیں جان لے گا خاکہ محض چند واقعات پر مشتمل نہیں ہوتا
اس میں شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا بیان کیا جاتا ہے خاکہ نگاری کے فن میں تیسرا مرحلہ اسلوب کا ہے تحریر نا تو اس قدر خشک ہو کے قاری بیزار ہو جائے اور نہ ہی بے جا دلچسپی کے لیے طنزومزاح کا بیان ہو تحریر کی چاشنی موجود ہو جو قاری کی دلچسپی کو برقرار رکھیں
خاکہ نگاری کے فن کے حوالے سے جس کتاب کا تجزیہ کرنے جا رہی ہوں وہ انوار احمد کی خاکوں پر مبنی کتاب” یاد گار زمانہ ہیں جو لوگ”یہ کتاب مختلف لوگوں کے خاکوں پر مشتمل ہے اس کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد بہت سے سوالات نے ذہن میں جنم لیا جس کے بعد یہ مضمون لکھنے کا ارادہ کیا اس کتاب میں پیش کئے گئے خاکوں کی شخصیات انوار صاحب کے قریبی دوست شاگرد استاد یا کسی اور قریبی رشتے کے ساتھ منسلک ہے اس کتاب میں موجود خاکے، خاکے کم اور کہانی زیادہ معلوم ہوتے ہیں ان کو پڑھنے کے بعد کسی بھی شخصیت سے واضح طور پر واقفیت حاصل نہیں ھوتی ان کے خاکوں میں عجیب طرح کی الھجن موجود ہے ان کے ہاں شخصیات کا ذکر کم اور ان کے ساتھ جڑے ہوئے لوگوں کا ذکر زیادہ ملتا ہے اس کتاب میں شخصیات کا بیان نہیں بلکہ ان سے جڑے چند واقعات کا بیان ہے اور واقعات بھی ایسے جو ان شخصیات کو براہ راست واضح نہیں کررہے ان سے صرف ایک دھندلی سی تصویر ظاہر ہو رہی ہے مثال کے طور پر سید محسن نقوی سلیم اختر اصغر ندیم سید وغیرہ پر لکھے گئے خاکے چند واقعات پر مشتمل ہے اور واقعات بھی ایسے جو خاکہ نگاری کے فن کے حوالے سے غیر اہم ہے
اگر واقعات کو دیکھا جائے تو وہ ان شخصیات سے دوستی کی حوالے سے چند یاداشتیں ہیں خاکے کے فن کے لحاظ سے شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو حقیقی سطح پر بیان کیا جاتا ہے لیکن اس کتاب میں چند یادوں کا بیان ہے گزرے ہوئے چند واقعات کا ذکر ہے جو کہ خاکے نہیں ایک کہانی کا روپ لئے ہوئے ہیں جس میں مختلف لوگوں کا ذکر ہے ان تحریروں کا اسلوب بھی فنی طور پر خاکہ نگاری پر پورا نہیں اترتا بلکہ واقعاتی اسلوب ہے خاکہ نگاری میں سب سے اہم بات خاکے میں خاکہ نگار کم سے کم نظر آئے لیکن ان کے خاکوں میں جابجا ان کا ذکر اور ان کی موجودگی کا احساس ہے جس سے فنی طور پر ان کی تحریر ناپختہ دکھائی دیتی ہے اگر لکھاری خاکے میں موجود بھی ہو تو اس کا اظہار معمولی ہو لیکن ان کے ہاں ایسا نہیں اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ان کی کتاب ایک اچھی یادوں پرمبنی کتاب تک ہو سکتی ہے لیکن خاک پر مبنی کتاب نہیں کیونکہ یہ خاکہ نگاری کے بنیادی فن سے کوسوں دور ہے