تقسیم کے بعد سب سے پہلے حسن عسکری نے ’’پاکستانی ادب‘‘ کا سوال اٹھایا‘اس بحث میں برصغیر کے نامور دانشوروں نے حصہ لیاجن میں فراق گورکھپوری ‘ علی سردار جعفری‘اثر لکھنوی اورمحمد احسن فاروقی جیسی قد آور شخصیات شامل ہیں۔مزید آگے چل کرمنٹو‘ ممتاز شیریں‘انتظار حسین ‘ڈاکٹر سجاد باقر رضوی‘سلیم احمد‘اکرار حسین اور ڈاکٹر صمدنے اس اصطلاح کی تشریح کی اور حسن عسکری کی بھرپور وکالت کی‘یوں اس موضوع پر گرماگرم بحثیں ہوئیں جو کئی سال تک جاری رہیں۔یہ بحث ہفت روزہ’’ نظام ‘‘لاہور اور’’ ساقی ‘‘کراچی سے نکل ’’کر نقوش‘‘ لاہور سمیت کئی ادبی جرائد تک پہنچی ۔حسن عسکری کا مطمع نظر یہ تھا کہ عالمی ادب میں جب بھی ہمارے ادب کی بات کی جائے تو وہ ادب سامنے آئے جس میں ہماری تہذیب ‘کلچر اور ہماری شناخت نمایاں ہو۔وہ ادب جو ہمارے تشخص کو تقویت بخشے۔ پہلی مرتبہ ’’پاکستانی ادب ‘‘کی اصطلاح جون‘جولائی اوراگست 1949میں اپنے کالم ’’جھلکیاں‘‘ میں استعمال کی ‘ عسکری صاحب اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ۔’’ممکن ہے بعض لوگ تجارتی مقاصد کے پیشِ نظرپاکستانی ادب کا مطالبہ کرتے ہوں مگر پاکستانی ادب محض ایک تجارتی تصور نہیں ہے،یہ ایک زندہ قوم کی زندہ شخصیت کا بنیادی مطالبہ ہے ۔جس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میںایک دم سے یورپ کے کارخانوں کے مقابلے کا صابن تیار نہیں ہو سکتا اسی طرح ہم بجا طور پر یہ عذر پیش کر سکتے ہیں کہ قوم کی زندگی میں جو نئے عناصر پیدا ہوئے ہیں انھیں ادیبوں کی شخصیت میں جذب اور ادب میں رونما ہوتے کچھ دن لگیں گے۔خصوصاً ایسی حالت میں کہ قوم کی داخلی زندگی سے ہم آہنگ ہونے کیلئے ہمارے ادیبوں کو اپنے کئی بنیادی رجحانات میں تبدیلیاں کرنی پڑیں گی ۔ہم قوم کو انتظار کرنے کا مشورہ تو دے سکتے ہیں مگر یہ کہنے کا حق ہمیں نہیں پہنچتاکہ قوم کو ’’پاکستانی ادب ‘‘کا مطالبہ نہیں کرنا چاہئے یا ایسا مطالبہ ناجائز ہے۔ہاں اپنے آپ کو بدلنے میں جو تکلیف اٹھانی پڑتی ہے اس سے بچنے کے لیے بعض لوگ اس مطالبے سے انکار کرنا چاہیں تو یہ اور بات ہے‘‘۔ حسن عسکری نے تخلیق کاروں کو کئی بنیادی تبدیلیاں لانے کا کہا۔ تقسیم کے بعد جلد ہی ممتاز شیریں ‘انتظار حسین‘ڈاکٹر سجاد باقر رضوی‘سلیم احمد‘احمد مشتاق اور ناصر کاظمی نے ان مباحث میں مثبت رویوں کے ساتھ شرکت کی اور اپنی تخلیقات میں پاکستانیت کو اجاگر کر کے اس نظریے کو تقویت پہنچائی۔عسکری کا نظریہ تھا کہ ہمیں ایسے تخلیق کاروں کی ضرورت ہے جو اپنی تخلیقات میں نہ صرف عظیم الشان ماضی کی نشاندہی کریں بلکہ اس میں ہماری معاشرت جھلکتی نظر آئے۔ دوسری طرف اسلامی ادب کے دعویداروں نے بھی شدومد سے اسلامی ادب کے خطوط واضح کیے لیکن بقول رشید امجد’’ان کی تخلیقات فنی اقداراور جمالیات سے اتنی نیچے تھیں کہ وہ ادب میں شامل نہ ہو سکیں‘‘۔مگر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہی وہ دور تھا جب اسلامی ادب اور پاکستانی ادب کی بحث کا آغاز ہوا اور اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ ہم اپنے ادب کی کوئی واضح شناخت متعین کر سکیں۔کیونکہ کسی بھی ملک کے ادب میں اس ملک کی شناخت اور اس کے کلچر کے اثرات واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔اگرچہ یہ بحث کوئی واضح راستہ متعین نہ کر سکی جس کے بارے میں ناقدین نے بھرپور لکھا بھی لیکن ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی ادب یا پاکستانی ادب کا مطالبہ بالکل بھی غلط نہیں تھا۔اس میں کیا قباحت ہے کہ ہمیں یہ فیصلہ کر لینا چاہیے کہ ہمارے ادب کا بنیادی راستہ اور مینی فیسٹو کیا ہونا چاہیے۔کیا ہم ساری زندگی اپنے اپنے ادب میں گل و بلبل یا لب و رخسار کا ہی نوحہ لکھیں گے یا پھر اپنی مٹتی ہوئی اسلامی اور فکری تہذیب اور مغربی یلغار کے ہاتھوں تباہ ہوتی ہوئی مشرقی ثقافت پر بھی بین کریں گے۔آج کا ادیب جس کمرشلائزیشن کی دنیا میں سفر کر رہا ہے وہ یہ بالکل بھول چکا ہے کہ ہمارا ادب کیا ہونا چاہیے اور ہماری مٹتی ہوئی تہذیب کے نشانات او راس کے خدوخال کیسے واضح کیے جا سکتے ہیں۔
اس بات پر تو ہمارے دونوں طرح کے(بائیں بازو اور دائیں بازو) ناقدین متفق تھے کہ ہمارا ادب وہی ہے جس میں ہماری لسانی‘تہذیبی اور فکری شناخت موجود ہے ۔ہم تہذیبی اور فکری سطح پر اس ادب کو ہی اپنا ادب تصور کریں گے جس میں کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت کا عکس موجود ہے اور جو ادب ہماری ثقافت اور اس عہد کی عکاسی کرے جس سے ہمارا آغاز ہوا تو وہ ادب ہمارا ہوا۔آپ اسے اسلامی ادب کہہ لیں یا پاکستانی مگر اس میں ہمارا عہد اور ہماری تاریخ موجود ہو۔پاکستان کا مطلب کیا ۔۔لاالہٰ الا اللہ کا نعرہ بنیادی طور اس فکری شناخت کی طرف راستہ بنانا تھا جس سے آج کا ادیب مکمل طور پر غافل ہوچکاہے۔مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ ہمارا دیب محض کمرشلائزیشن کی دنیا میں نام بنانے کے چکر میں اپنے ادب کے خدوخال تک نہ پہچان سکا۔اس پر اللہ بھلا کرے ان ننھے منے ناقدین کا جنہوں نے ہمیشہ اسلامی ادب کو یہ کہہ کر نظر انداز کیا کہ اس میں جمالیاتی سطح پر کوئی اتنا طاقتور ادب نہیں ہے۔ادب تو ادب ہوتا ہے اور میرا خیال ہے کہ جمالیات کا تعلق ادب میں ہمیشہ فکری رویوں کے بعد آتا ہے۔فکری طور پر ہم جس ادب کواسلامی ادب کہہ رہے ہیں اس میں فکری رویوں کو دیکھنا چاہیے تھا مگر ہم کل کی بجائے جز کی بحث میں الجھ گئے اور اس سارے ادب سے ناطہ توڑ لیا جو ہماری تہذیب کا بنیادی بیانیہ تھا۔مجھے انتہائی خوشی ہے کچھ روز قبل پھالیہ میں محمد ضیغم مغیرہ نے دوبارہ اس بحث کا آغاز اسلامی ادب پر کانفرنس کروا کے کیا۔مغیرہ صاحب نے ملک بھر سے ان تما م قلم کاروں کو ایک جگہ اکٹھا کیا جنہوں نے اسلامی ادب کو اس لیے بھی سینے سے لگایا کہ ہماری تہذیبی اور فکری شناخت کا بیانیہ ہے جبکہ اس کے برعکس ایک مخصوص طبقہ اب بھی موجود ہے جو پاکستانی ادب کو اسلامی ادب سے الگ سمجھتا ہے۔یہ بات بالکل واضح ہے کہ پاکستانی ادب ہی اسلامی ادب ہے کیونکہ پاکستانی یا اسلامی ادب ہماری فکری‘تہذیبی اور لسانی شناخت کا مظہرہوتا ہے۔تقسیم کے بعد حسن عسکری اور ان کے رفقاء نے اس بحث کا آغاز تو کیا مگر یہ بحث کچھ ہی عرصے بعد ختم ہو گئی جس کو آج پچاس سال بعد دوبارہ محمد ضیغم مغیرہ نے اٹھایا اور اہلِ قلم کو اس طرف لے کر آئے کہ ہمارا ادب کیا ہے اور کیا ہونا چاہیے؟ ہمیں یہ فیصلہ کر لینا چاہیے ورنہ’’ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں‘‘۔وہ قبیلہ جو پاکستانی اور اسلامی ادب کی بحث کو الگ الگ سمجھتا ہے وہ بنیادی طور پر پاکستان اور اسلام کے تعلق سے یا جان بوجھ کر نظریں چرا رہا ہے یا پھر وہ کم علم ہے کیونکہ ہر ذی شعور اس سے واقف ہے کہ پاکستان کلمہ طیبہ کی بنیاد پر بنا اوراس حوالے سے لکھا گیا ادب ہی پاکستانی ادب ہے۔میں ذاتی طور پر اپنے محترم محمد ضیغم مغیرہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے دائرہ علم و ادب کے پلیٹ فارم سے اس عظیم بحث کا آغاز کیا جو پچھلے پچاس سالوں سے تقریبا ختم ہو چکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔