اردو دنیا میں ڈاکٹر اسلم انصاری کا نام تعارف کا محتاج نہیں۔تخلیق ، تنقید اور تحقیق میں انھوں نے جس محنت، لگن اور جانفشانی کا مظاہرہ کیا ،وہ قابل داد بھی ہے اور قابلِ تحسین بھی۔’’خواب و آگہی‘‘،’’شبِ عشق کا ستارہ‘‘،’’فیضانِ اقبال‘‘،’’مطالعاتِ اقبال‘‘،’’اردو شاعری میں المیہ تصورات‘‘،’’زندگی‘ کا فکری و فنی مطالعہ‘‘،’’غالب کا جہانِ معنی‘‘،’’فکرو انتقاد‘‘ اور ’’ بیڑی وچ دریا‘‘ایسی کتابیں ہیں جو تخلیق ،تحقیق اور تنقید کے کٹھن سفرمیں ان کی جاں کاوی اور عرق ریزی کی بیّن مثالیں ہیں۔فارسی، اردو، انگریزی اور سرائیکی میں تخلیقی اظہار کا ملکہ رکھنے والے اسلم انصاری کا تازہ تخلیقی کارنامہ’’ارمغانِ پاک‘‘:جدو جہدِ آزادی کی منظوم داستان‘‘ ۲۰۲۰ء میں مثال پبلشرز ،فیصل آباد سے اشاعت پذیر ہوا ہے۔اس کتاب میں جدو جہد آزادی کی منظوم داستان تحریر کی گئی ہے۔اس طرح کی طویل نظم لکھنے کی روایت فارسی اور اردومیں موجود رہی ہے۔فردوسی کی ’’شاہنامہ‘‘،حالی کی ’’مدو جزر اسلام‘‘،اقبال کی طویل نظمیں ،’’ساقی نامہ‘‘،’’خضرِراہ‘‘،’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ اور’’ ذوق و شوق‘‘ ،ن م راشد کی’’ حسن کوزہ گر‘‘ اور’’ ایران میں اجنبی‘‘ ،ساھر لدھیانوی کی ’’پرچھائیاں ‘‘حفیظ جالندھری کا ’’ شاہ نامہ اسلام‘‘،جاں نثار اختر کی ’’مؤرخ سے‘‘،دانائے راز‘‘اور’’امن نامہ‘‘،’’جعفر طاہر کی ’’عراق‘‘ ،عبدالعزیز خالد کی’’سلویٰ‘‘اور ’’من حمنا‘‘،مختار صدیقی کی’’ٹھٹھ‘‘،وزیر آغا کی ’’اندر کے رونے کی آواز‘‘،’’آدھی صدی کے بعد‘‘،اور’’اک کتھا انوکھی‘‘ اور اب اسلم انصاری کی’’ ارمغان پاک‘‘ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
طویل نظم تخلیق کرنا سہل کام نہیں ،اس کے لیے انسانی معاشرے سے گہری وابستگی،اجتماعی لاشعور ،تاریخی بصیرت ،تخلیقی وحدت، تسلسل اور ضبط درکار ہوتا ہے جو ہر شاعر میں موجود نہیں ہوتا۔ڈاکٹر اسلم انصاری کے ہاں طویل نظم تحریر کرنے کے مذکورہ تقاضے اپنے تمام تر لوازمات کے ساتھ موجودہیں ۔ان کے ہاں سماجی، اجتماعی اور تاریخی شعور نقطۂ عروج پر ہے۔انھوں نے جذباتی اور لمحاتی کیفیات سے قاری کو باہر نکال کر اس کے تخیلاتی اورفکری منطقوں کو جلا بخشنے کا جتن کیا ہے۔ارمغانِ پاک‘‘ ماضی کی عظمت اور سطوت کا غم انگیز نوحہ ہے جس میں ٹیپو سلطان سے لے کر ۱۸۵۷ء تک انگریز حکومت کے خلاف مزاحمت کی داستان قلم بند کی گئی ہے اور پھر ۱۸۵۷ سے لے کرقیام پاکستان تک کی جدو جہد کو منظوم کیا گیا ہے۔غیر مسلم مؤرخین نے جس انداز سے اس دور کی تاریخ کو شعوری طور پرمسخ کیا اس کی مثال ہینری ایلیٹ اور ڈاؤسن کی تحریروں سے دی جا سکتی ہے جنھوں نے بقول ڈاکٹر اسلم انصاری’’علی الاعلان کہا کہ ہمیں مسلمانوں کی تاریخ کے روشن چہرے کو اس طرح مسخ کر دینا چاہیے کہ اس کے مقابلے میں برطانوی دور کے فیوض و برکات جگمگا اُٹھیں ۔ایسی ہی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ مسلمانوں کادورحکومت صرف قتل و غارت کی داستان بن کر رہ گیا۔‘‘اسلم انصاری کی اس نظم کی خوبی ہے کہ انھوں نے مسلمانوں کے حکومتی ادوارکا تجزیہ حقیقت پسندانہ انداز میں پیش کیا ہے۔انھوں نے نہ مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے اور نہ اُسے اصل سے کم بنا کر پیش کیا ہے۔جہاں شہزادوں کو جرأت اور ہمت کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا لیکن انھوں نے کیا نہیں اور عیش و عشرت کی ذندگی کو قبول کیا،وہاں انصاری صاحب نے ان کی مذمت کی ہے اور جہاں مسلمانوں کے کارناموں کو سراہنے کی ضرورت تھی، انھوں نے اسے سراہا ہے۔
’’ارمغانِ پاک‘‘ میں مسلمانوں کے اس دور کی جِدّو جِہَد کی داستان بیان کی گئی ہے جس میں وہ کٹھن دور سے گزر رہے تھے اورمسلمانوں کو زک پہچانے کے لیے انگریز حکومت ہندو ؤں اور مسلمانوں میں افتراقات پیدا کر رہی تھی۔ ۱۸۵۷ء کے انگریزوں نے مسلمانوں کے لیے اعلا ملازمتوں کے دروازے بند کر دیے اور ان سے ان کی موروثی جائدادیں ضبط کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔اعلا درجے کی ملازمتیں انگریز وں کے اپنے پاس رہیں، ان سے جو بچ گئیں وہ ہندؤوں کو عطا کر دی گئیں، مسلمان اس حوالے سے محروم اور مجبور تھے۔کاروباری سطح پر ہندو مسلمانوں سے پہلے ہی آگے تھے،اس طرح مسلمانوں کواقتصادی اور انتظامی معاملات میں کافی مشکلات کا سامنا تھا۔وہ تقریباً ایک ہزار سال سے ہندوستان پر حُکومت کرتے آئے تھے اور انگریزوں نے اقتدار ان ہی سے چھینا تھا اس لیے وہ ان سے زیادہ خائف تھے اور انتقامی جذبے کی شدّت بھی ان کے خلاف زیادہ تھی۔
برِصغیر میں انگریزوں کی آمد سترھویں صدی عیسوی میں اس وقت شروع ہوئی جب جہانگیر کے دربار میں ٹامس رو برطانیہ کا سفیر بن کر آیا۔اس نے جہانگیر سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی تجارت کا اجازت نامہ طلب کیا جو اسے عطا کر دیا گیا۔کمپنی نے بنگال میںاپنی تجارتی کوٹھیا ںقائم کر لیں ۔اس کے بعد کمپنی کی سازشوں کا طویل سلسلہ شروع ہوا جو ۱۷۵۷ء میں بنگال پر قبضے کی شکل میں ظاہر ہوا۔وارن ہس ٹنگز سے لارڈ ویلزلی تک سازشی عناصر سے گٹھ جوڑ کا سلسلہ ہر گورنر جرنل نے جاری رکھا اورانگریز ۱۸۵۷ء تک پورے برصغیر پر فاتح کی حیثیت سے چھا گیااور ظلم و ستم کی ایسی داستانیں رقم کی جس کی شہادتیں تاریخ کے اوراق پر آج بھی موجود ہیں۔ولیم ڈارلمپل نے اپنی کتاب’’دی لاسٹ مغل‘‘ میں اسے تفصیلاً بیان کیا ہے۔ غالب کے خطوط اور خواجہ حسن نظامی کی’’ بیگمات کے آنسو‘‘میں بھی اس کرب کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس دوران میں مزاحمت کے کئی واقعات سامنے آئے ۔انگریزوں کے سامنے مزاحمت کا سب سے بڑا استعارہ ٹیپو سلطان بنا جو سری رنگا پٹم میں ۱۷۹۹ء میں شہید ہوا۔ اس نظم میں ان کرداروں کی ہمت ،جرأت اور جواں مردی کو سراہا گیا ہے۔ٹیپو سلطان کے حوالے سے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
آخرِش جام ِ شہادت نوش کرنا تھا اُسے
نامِ آزادی امر کرنے کو مرنا تھا اُسے
آرزوئے حُرّیت کو اس نے زندہ کردیا
حرفِ آزادی کو گویا،اور گویا کردیا
ٹیپو سلطان کے کردار کے مانَندحضرت محل کے کردار کو بھی نمایاں کیا گیا ہے۔حضرت محل ،واجد علی شاہ کی بیگمات میں شامل تھی۔۱۸۵۶ء میں جب واجد علی شاہ کو معزول کر دیا گیا اوروہ اپنی بیگمات کے ساتھ کلکتے روانہ ہوئے تو حضرت محل ان کاساتھ نہ دیا اور قیصر باغ میں ہی رہنا پسندکیا۔۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے موقع پر انھوں نے اپنے بیٹے برجیس قدر کو تخت نشین کیا اور ریا ست کا نظام سنبھالنے کا اعلان کردیا۔اس موقع پر حضرت محل نے پردے میں رہتے ہوئے تقریر بھی کی جسے اسلم انصاری نے ’’گوشِ تخیل‘‘ سے سن کر منظوم کیا جو مسدس کی ہئیت میں ’’ارمغانِ پاک‘‘ میں شامل ہے۔نمونے کا ایک بند ملاحظہ ہو:
اے لشکریو،چرخِ شجاعت کے ستارو
اے تیغ زنو،تیغ چلانے کو سدھارو
دہکاو ابھی جنگ کے شعلوں کو،شرارو
دشمن کو خیالوں کی بلندی سے اتارو
سر ظلم کا درگاہِ عدالت میں جھکا دو
ظالم کی ہر اک چال کو ناکام بنا دو
انگریزوں نے اس بہادر خاتون کو کئی ترغیبات دینے کی کوششیں کیں لیکن وہ اپنے مقصد میں ثابت قدم رہی۔فوج کی کارکردگی کو مثالی بنانے کے لیے اس نے سپاہیوں کی تنخواہوں میں دوگنا اضافہ کر دیاجو پہلے چھ روپے تھی اب بارہ روپے ہو گئی۔اسی طرح کے دیگر کئی انتظامات بھی کئے تا کہ فرنگیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جا سکے۔انگریزوں نے تازہ افواج کے ساتھ جب لکھنو پر حملہ کیا تو اس نے بھر پور مزاحمت کی لیکن بالآخر اسے قیصر باغ کو خیر باد کہنا پڑا۔وہ برجیس قدر اور دیگر ساتھیوں کو لے کر نیپال روانہ ہو گئیں اورانیس برس کی جلا وطنی کے بعد، وہیں وفات پائی۔
جرنل بخت خان کے کردار کو بھی اسلم انصاری نے اس نظم میں خاص طور پر نمایاں کیا ہے۔یہ وہ کردار ہے جس نے انگریز سے لڑنے کے لیے باد شاہ کے حضور بطور سالار کے اپنی خدمات پیش کیں۔باد شاہ نے اس کی خدمات قبول کیں اوراعلان کرا دیا کہ سب رجمنٹین بخت خان کے ماتحت جنگ کریں گی۔اسے معز الدولہ کا خطاب بھی عطا کیا گیا ۔اس کردار کے بارے میں مولانا غلام رسول مہر نے اپنی کتاب ’’ ۱۸۵۷ء کے مجاہد‘‘میں اس کے حالات قلم بند کیے ہیں۔اس نے انگریز فوج کا بھر پور مقابلہ کیا لیکن حالات کی تیز آندھی کے سامنے امید کا یہ چراغ بھی لڑکھڑا گیا اور گھر کے بھیدی منشی الٰہی بخش اورمنشی رجب علی کی سازشیں کامیاب ہوئیں۔بخت خاں کے احساسات کو نظم میں یوں پیش کیا گیا ہے:
میرے زخموں میں جو ریت بھری ہے ،اس سے
چشم افرنگ کو تاریک بنا سکتا میں!
میرے سینے میں جو اک چیخ اٹک جاتی ہے
کاش اس چیخ سے دنیا کو جگا سکتا میں!
میری شمشیر کہ ٹوٹی بھی نہیں ہے اب تک
ایک شعلہ ہے جسے خوں میں بجھا سکتا میں!
اے مرے عزمِ نگوں سار،صلابت تیری
کاش اک بار تو دنیا کو دکھا سکتا میں !
کاش وہ شمع جسے سیل ہوا نے لوٹا
اس کو جاں دے کے بھی ظلمت سے بچا سکتا میں!
جنگِ آزادی میں یہی چند کردار نہیں تھے جنھوں نے ہندوستان کی آزادی کے لیے انگریزوں سے جنگ کی بلکہ ان کی تعداد ہزاروں میں ہے ۔ وطن کی سلامتی اور آزادی کی خاطر انھوں نے اپنے گھر بار لٹوائے ،رشتہ داروں سے دوری برداشت کی،اولادیں قربان کیں اوردنیاوی سکون و اطمینان بھی اُن سے چھین لیا گیا ۔انگریز نے تسلط قائم ہونے کے بعد ان کی قربانیوں کے موازنے کا موقع ہی نہ دیا لیکن ان کی قربانیاں اکارت نہیں گئیں ،نوے سال بعد مسلمانوں کا الگ وطن پاکستان دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا۔اس کے حصول کے لیے سر سید احمد خان ،مسلم لیگ کے قیام ،علامہ اقبال کی مثنوی ’’اسرارِ خودی‘‘کی اشاعت،لکھنو پیکٹ،پہلی عالمی جنگ، تحریکِ خلافت ،سلطنتِ عثمانیہ کا انہدام ،۱۹۳۰ء میں اقبال کا جلسہ الہ آباد،قرادادِ لاہور اور پاکستان کے قیام ایسے واقعات کو خوب صورتی سے منظوم کیا گیا ہے۔آزادی کی منزل کو ’’نشانِ بہار‘‘ سے موسوم کیا گیا ہے۔
آئی سحر تو منظر ِ خاطر کشا کھلا
پُروا چلی تو پرچم شہرِ صبا کھلا
لوحِ زماں پہ نقشِ تمنا ٹھہر گیا
اذنِ نوا کے ساتھ ہی رنگِ نوا کھلا
گلشن کھلے کہ خواب سے جاگی کرن کرن
کلیاں کھلیں کہ عقدۂ صوت و صدا کھُلا
مذکورہ نظم میں نہ صرف اسلم انصاری نے تاریخی واقعات کو قلم بند کیا ہے بلکہ قلبی واردات اورلطیف جذبات کو خوب صورتی سے بیان کیا ہے۔ سادہ اور مانوس زبان میںگزرے واقعات کو کچھ انداز سے پیش کیا گیاہے کہ قاری اس جذباتی کیفیت میں شریک ہو جاتا ہے،جو تخلیق کار کی دورانِ تخلیق تھی۔کتاب کے عنوانات بھی کچھ اس انداز سے قائم کیے گئے ہیںکہ وہ قاری کواپنی گرفت میں لے لیتے ہیںاور وہ اس سے اثر پذیر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اسلوب، زبان اورالفاظ، فکر و جذبے کے ساتھ ممزوج ہو کر تخلیقی ارفعیت کو مس کرتی دکھائی دیتی ہے۔اس طرح’’ارمغانِ پاک‘‘طویل نظم کی تخلیق میں قابلِ قدر اضافہ ہے۔
ڈاکٹر عبدالعزیز ملک
اکتوبر 25, 2020شکریہ ڈاکٹر صاحب۔۔۔۔۔اپ کی محبت ہے