مولانا محمد حسین آزاد ، اُردو ادب کے ایک ایسے نابغہ روزگار اور نایاب پارس پتھر ہیں ، کہ جو ان کو چھو جاتا ہے ، ادب عالیہ میں نامور ہو جاتا ہے ۔۔۔۔
دستور زمانہ ہے کہ بعض معاشروں میں بادشاہ کے مصاحب کا درجہ بھی ، بادشاہ جتنا شمار کیا جانے لگتا ہے ۔۔۔ سادہ لفظوں میں اس بات کو وضاحت سے کہنا اس لئے ضروری ہے کہ بہت سے ذہن میری اس علامتی رمز کو اشارہ ء بعید سمجھ کر صرف سر دھنتے ہونگے ۔۔۔۔ مجھے اس موقع پر مولانا محمد حسین آزاد کی مشہور زمانہ تخلیقی کتاب ” نیرنگ خیال ” کا وہ انشائیہ یاد آ رہا ہے جو مولانا آزاد نے ” شہرت عام اور بقائے دوام کا دربار ” کے نام سے لکھا ۔۔۔ اس میں آزاد کسی مقام پر لکھتے ہیں کہ جس کو سمجھ آیا وہ بھی واہ وا کرتا تھا اور جس کو سمجھ نہیں آیا وہ بھی سر دھنتا تھا ، اسی بات کو آب حیات میں بھی مولانا نے لفظ بدل کر غالب کے لئے لکھا ۔۔۔۔ اصل قصہ در پردہ یہ ہے کہ ہر معاشرے میں ایسے لوگوں کی کثرت ہوتی ہے ، جو محفل میں فقط اس لئے واہ واہ کر رہے ہوتے ہیں کہ باقی لوگ بھی اسی واہ وا کا راگ آلاپنے میں مصروف ہوتے ہیں ۔۔۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے زمانے کے چلن اور دستور کے مطابق ” چغلے ہوۓ نوالے ، وا وا ” کا راگ نہ الاپا تو دیکھنے والے اس کو بھی جہلا اور ذہنی مساکین میں شمار کر دیں گے ، اور پھر یہ رسوائی معاشرے میں گوارہ نہیں ہو گی ۔۔۔۔
ایک اور طرح کے لوگ بھی دنیا میں پاۓ جاتے ہیں کہ جو نیک نام فرد پر ، بے دلیل کا بہتان باندھ کر اور کیچڑ اچھال کر نام کمانا چاہتے ہیں ۔۔۔۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کا ساتھ دینے کو ان جیسے اور بھی شامل ہو جائیں گے ، اور اگر ایسا ممکن ہو گیا تو کیا نام نہ ہوگا ۔۔۔۔ !
یوں بھی ہوتا ہے کہ ناموری کمانے کا جب کوئی راستہ نہیں مل پاتا تو کسی نامور کو اس بنیاد الزام پر دھر لیا جاتا ہے کہ اس نے فلاں بات بے تحقیق لکھ دی یا کہہ دی ، حالانکہ وہ بات درست اور مستند نہیں ہوتی ہے ، مگر کہنے میں کیا جاتا ہے ، کہو تو ، جب مخالفین کے منہ میں پڑے گی تو سو باتوں ، سو دلیلوں ، سو بہانوں میں لپٹ کر ایسا نیا روپ دھار لے گی کہ ہر کس و ناقص ، وہی چغلا ہوا نوالہ اپنے اپنے منہ میں لئے پھرے گا اور واہ وا کرنے والے ، اسی کے غلیظ چغلے ہوۓ نوالے پر فخر کر رہے ہونگے ۔۔۔۔ وجہ اس کی یہ ہوگی کہ اصول تنقید سے اکثریت بے بہرہ ہے ، سو اسی گھسے پٹے ، چغلے نوالے کو منہ در منہ منتقل کر کے کہتے پھریں گے کہ ہم بھی نامور کو کھنچنے سے نامور ہو گئے ہیں ۔۔۔۔ !
ناموری ہر زمانے میں ہر شخص کا دیرینہ خواب ہوتی ہے ۔۔۔ جب کسی نااہل پر نامور ہونے کا خفقانی بخارا سر کو چڑھتا ہے ، اور اس کے پاس اپنی کوئی وجہ تفاخر نہیں ہوتی تو اس کا شیطانی دماغ کسی ایسے نامور کا انتخاب کرتا ہے کہ جس کی ناموری اور ناموس پر بہت سے لوگ اور دانشمند متفق ہوں ، اب ناموری کے خفقان میں مبتلا شخص کو صرف اتنا تلاش کرنا ہوتا ہے کہ اس شخصیت میں قابل مباحثہ پہلو کیا کیا ہیں ۔۔۔ اسی کو وہ اس شخصیت کی کمزوری اور اپنی وجہ ء عزت بنانے میں دن رات جت جاتا ہے ۔۔۔ اور نامور کی سب سے عمدہ تخلیق کو اس طرح ، بے جواز رسوا کر کے اپنا جھنڈا بلند کر کے اس کا ڈھول گلی گلی ، صفحہ صفحہ پیٹتا پھرتا ہے ۔۔۔ بہت سے اس جیسے ، اس کا ساتھ دینے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔۔۔۔ گویا بقول مولانا آزاد ، جس کی سمجھ میں آیا وہ بھی سر دھنتا ہے اور جس کی سمجھ میں نہیں آتا ، وہ بھی مست ہو جاتا ہے ۔۔۔ !
مولانا محمد حسین آزاد آیک ایسا ہی ادبی سنگ میل ہیں کہ جس کو ہتھوڑے اور کلہاڑیوں سے ریزہ ریزہ کرنے کی کوشش پہلے دن سے آج تک ہو رہی ہے ، مگر ان کے انداز تنقید و انشاء پردازی کو ان میں سے کوئی بھی حسب منشا ، پامال نہ کر سکا ۔۔۔۔ ہاں مگر شہرت پا گیا ، اس لئے کہ وہ ( محمد حسین آزاد ) کے پارس پتھر سے چھو کر سونا بن گیا تھا ۔۔۔۔!!!
میں جانتا ہوں کہ بہت سے لوگ میری اس طرف داری پر مبنی انداز تنقید پر سیخ پاء ہونگے ۔۔۔ اس لئے کہ سچ ذرا نہیں ، بہت کڑوا ہوتا ہے ۔۔۔ کہتے ہونگے کہ آغا سلمان باقر لفظوں سے کھیل کر مولانا آزاد کا بے جا دفاع کر رہا ہے ۔۔۔ جی نہیں ، سلمان باقر ان نام نہاد عاقلوں کو آئینہ دکھا رہا ہے ، جو اس قبیل سے تعلق رکھتے ہیں ۔۔۔ دیکھو ، یہ تو حقیقت ہے کہ جو نام نہاد محقق یا نقاد ، پارس پتھر آزاد سے اچھی نیت سے چھوۓ یا بری نیت سے ، نامور تو ہو جاتا ہے ۔۔۔ بلکہ اس حد تک ناموری ملتی ہے کہ آنے والے ناقدین اور محققین ان ہی کی تراشی کہانی سے مولانا آزاد کا تجزیہ شروع کرتے ہیں ، خواہ ان کے پاس کہنے کو کچھ بھی نہ ہو ۔۔۔۔!!!
میں اس موقع پر ایک بڑی پر لطف مثال پیش کرتا ہوں ۔۔۔۔ محترم شمس الرحمن فاروقی نے ، جو صاحب بصیرت نقاد اور محقق ہیں ، استاد داغ دہلوی کے حوالے سے ایک ناول لکھا ۔۔۔ کئ چاند تھے سر آسماں ۔۔۔ اور پہلے 21 صفحات میں مولانا محمد حسین آزاد کے اس تین سطری حوالے کو رگیدا کہ آب حیات میں مولانا آزاد نے داغ اور ان کی والدہ کے بارے میں کچھ اچھا نہیں لکھا تھا ۔۔۔۔ شمس الرحمن فاروقی کے اس ناول کے ابتدائی 21.. 22 صفحات پڑھ کے یہ لگتا ہے کہ آزاد نے داغ دہلوی اور ان کی والدہ کا کردار خراب کیا ہے، جس کو اپنے اس ناول میں فاروقی صاحب درست سمت میں بیان کر کے آزاد کی مرمت کریں گے ۔۔۔ مگر حیرت اس وقت ہوتی ہے کہ آزاد کی مخالفت کے بعد فاروقی صاحب نے مولانا آزاد کی داغ اور ان کی والدہ کے کردار اور کرتوت کی بیان کردہ تین سطروں کی اندر کی کہانی 925 سے زیادہ صفحات میں اور آزاد کی حمایت اور تائید میں لکھتے ہیں ، اور ایسا ناول داغ کی والدہ کے کردار پر بالتحقیق لکھ دیتے ہیں کہ میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ جب آزاد کی تین سطروں کی مکمل تائید میں 925 سے زیادہ صفحات فاروقی صاحب نے اعلی ترین معیار کے لکھے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آزاد کے بیان کی پہلے 22 صفحات میں مخالفت اور تکذیب کی آخر کیا ضرورت تھی ۔۔۔۔۔؟ میرا یہ سوال بہت اہم ہے ، یقینا شمس الرحمن فاروقی اس سوال کا جواب نہیں دیں گے ، جس کی مجھے اور اردو ادب کو ضرورت بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔ ؟
گویا مولانا محمد حسین آزاد کی لکھی تین سطروں میں اتنی طاقت اور وزن ہے کہ ہزار صفحات پر مشتمل ناول لکھا جا سکتا ہے ۔۔۔۔ لطف یہ کہ وہ بھی مولانا محمد حسین آزاد کے بیان کی حمایت میں ۔۔۔۔ اسے کہتے ہیں پارس پتھر ۔۔۔۔۔۔ !!!!
بھائی مخالفت آزاد اور رد آب حیات کے بنا شمس الرحمن فاروقی صاحب جیسے جہاندیدہ نقاد جانتے تھے کہ ان کا ناول مقبولیت حاصل نہیں کر سکے گا ، جب تک کسی بڑے کو رسوا نہ کیا جائے ۔۔۔ وہ سمجھتے تھے کہ آزاد ، اردو ادب ، اردو تحقیق اور کردار نگاری کا وہ پارس پتھر ہے کہ جس کو چھوۓ بنا خود کا سونا بننا ممکن نہیں ہے ۔۔۔ !!!!
وضاحت بہت ضروری ہے کہ میں نے یہ مضمون اور موضوع اور حوالہ علمی سطح پر بطور تائید دیا ہے کہ یہ موجودہ عہد سے ہے ، ورنہ میرے لئے ڈاکٹر محمد صادق ، قاضی عبدالودود ، پروفیسر محمود شیرانی اور دیگر کم نہ تھے کہ جنہوں نے مولانا محمد حسین آزاد کی مخالفت براۓ مخالفت صرف اپنا نام آزاد سے جوڑ کر ناموری حاصل کرنے کے لیۓ کی تھی ۔۔۔ آپ اگر اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں تو آپ کو مجھ سے اختلاف کر کے حصول ناموری کی پوری آزادی حاصل ہے ۔۔ گویا آپ مولانا محمد حسین آزاد کی مخالفت کریں ، تب بھی ناموری ملے گی ، حمایت کریں تب بھی ناموری مل جائے گی ، یہی پارس پتھر کی سب سے بڑی نشانی ہے ۔ !!!!!