از: نیلما ناہید درانی
دوسری کتاب ۔۔۔’’جب نہر کنارے شام ڈھلی‘‘ ۔
سپیشل برانچ کی ڈیوٹی کے دوران فراغت کافی تھی۔۔۔۔ایک کتاب بھی مکمل ہو گئی۔۔۔۔جس کو آغا امیر حسین کے مالی تعاون اور ان کے ادارے۔۔۔ کلاسیک بکس ۔۔۔کے نام سے چھپوا لیا۔۔۔۔
ڈیڈی کی بیماری کے باعث اس کی تقریب نہ ہو سکی۔۔۔۔
کتاب کا نام اس کی پہلی نظم پر رکھا گیا۔۔۔جب نہر کنارے شام ڈھلی۔۔۔
جب نہر کنارے شام ڈھلی
آنکھوں میں تیری یاد جلی
سورج بھی بہت گھبرانے لگا
چندا بھی ہمیں سمجھانے لگا
تاروں نے بھی رستہ دکھلایا
پر دل نے چین نہیں پایا
اس کیفیت کو صرف وہ لوگ سمجھ سکتے ھیں۔۔۔جنہوں نے۔۔۔نیو کیمپس کی نہر کنارے۔۔۔۔اپنی نوجوانی کی دوپہریں اور شامیں گزاری ہوں۔۔۔۔
اس نہر میں ایک ایسا سحر اور پر اسراریت ھے جو زندگی بھر انسان کو اپنے حصار میں رکھتی ھے۔۔۔۔۔
نہر کے پل پر کھڑے ھو کر۔۔۔۔پانی کی لہروں میں گھلتے چاند کو دیکھنا۔۔۔۔
سونی دوپہروں میں۔۔۔۔اسی پل پر کھڑے ھوکر۔۔۔خود کلامی کرنا۔۔۔۔
برسوں بعد اسی پل پر کھڑے ھو کر پہلی بار میری دوست بشری حزیں نے اپنے دکھ درد میں مجھے شریک کیا تھا۔۔۔مجھے ایسا محسوس ھوا۔۔۔۔۔۔۔ہوا سے لرزتے پتے اور درختوں کی شاخیں بھی رو رھی ہیں۔۔۔۔
لیکن میں مسکرا رھی تھی۔۔۔اس کو حوصلہ دے رہی تھی۔۔۔۔اور وہ زندگی سے مایوس لڑکی۔۔۔۔میری حوصلہ افزائی سے اتنی دلیر بنی کہ پہلے کونسلر اور پھر نیشنل اسمبلی کی ممبر بن گئی۔۔۔
کبھی کبھی کسی دوست۔۔۔کسی اپنے کو موقع دینا چاھئے۔۔۔کہ وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لے۔۔۔۔ایک کندھا۔۔۔اور تسلی کے چند بول۔۔۔۔زندگیاں بدل سکتے ھیں۔۔۔۔مگر اب زندگی اتنی مصروف ہوگئی ہے کہ کسی کو ارد گرد دیکھنے کی فرصت تک نہیں۔۔۔۔۔
سپیشل برانچ پنجاب میں ایک روز ایس پی تنویر حمید نے کہا۔۔۔کہ محافظ کے نام سے پولیس میگزین نکالنا ہے۔۔۔جس کے لیے ھمیں آپ کی مدد کی ضرورت پڑے گی۔۔۔۔
میرے لیے یہ خوشی کی بات تھی کہ کوئی اپنی پسند کا کام کرنے کو ملے گا۔۔۔۔
انھوں نے کہا کسی صحافی یا ادیب کے بارے میں بتائیں جو ھمارے لیے کام کر سکے۔۔۔۔۔۔میں نے اظہر غوری کا نام لیا۔۔۔وہ میرے ٹریفک آفس میں آیا کرتے تھے۔۔۔۔اور تنویر حمید کی ان سے ملاقات بھی کروا دی۔۔۔۔
کچھ عرصے بعد۔۔محافظ ۔۔۔شائع ہونا شروع ھو گیا۔۔۔۔جس میں اظہر غوری اور کئی دوسرے شامل تھے۔۔۔۔لیکن مجھے اس میں شامل نہیں کیا گیا۔۔۔۔
وزیر ٹرانسپورٹ نے ایکبار پھر میرا ٹریفک میں تبادلہ کر دیا۔۔۔۔۔۔
لاھور پولیس میں واپس گئی ۔۔۔تو ایس ایس پی اسرار احمد تھے۔۔۔اللہ کا شکر ادا کیا۔۔۔۔کہ ایک فنکار کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملے گا۔۔۔
اسرار احمد بہت اچھے گلوکار تھے اور انھیں موسیقی کے بارے میں بہت علم حاصل تھا۔۔۔
ایس پی ایڈمن۔۔تحسین شاہ تھے۔۔۔۔
وہ بھی نہایت نفیس تھے۔۔۔
لیکن ٹریفک کا ماحول پہلے سے بدتر ھو چکا تھا۔۔۔۔ایس پی ٹریفک سندھ سے وارد ھوئے تھے۔۔۔۔وہ دفتر میں شراب کے نشے میں بیٹھے رھتے۔۔۔۔
آغا روف حسب سابق ڈی ایس پی ٹریفک سٹی سرکل تھے۔۔۔۔ڈی ایس پی لائسنسنگ۔۔۔۔اصغر پال مانڈو تھے۔۔۔جو گیمز کی سیٹ پر اے ایس آئی بھرتی ھو کر ڈی ایس پی کے عہدے پر پہنچے تھے۔۔۔۔
ان کے بارے میں ایک واقعہ منیر ڈار صاحب قہقہہ لگا کر سنایا کرتے تھے۔۔۔کہ اصغر پال مانڈو ان کے دفتر گئے۔۔۔اور کہا۔۔۔” میں آپ سے کچھ ڈسکس کرنے آیا ہوں "
جس پر منیر ڈار نے کر کہا۔۔”پہلے ڈسکس کے سپیلنگ لکھ کر دکھاو۔۔پھر ڈسکس کرنا۔۔۔۔۔
مجھے پھر سے لائسنسنگ دے دی گئی۔۔۔
اس بار عجیب صورت حال تھی۔۔۔
میں پہلے روز دفتر گئی تو میرے آفس میں ہر طرف خون کے چھینٹے تھے۔۔۔۔
مجھے عاصمی خان نے کہا۔۔۔یہ تو کوئی جادو کر رھا ہے۔۔
دوسرے روز۔۔۔سارے کمرے میں ماش کی کالی دال پھیلی ھوئی تھی۔۔۔
تیسرے روز دفتر کی دہلیز سے ایک تعویز برامد ہوا۔۔۔جس پر بہت سارے حروف کے ساتھ۔۔۔درمیان میں۔۔۔
"نیلما ناہید کی موت” لکھا ہوا تھا۔۔۔
میں نے اس تعویز کو اپنی میز کے شیشے کے نیچے سجا لیا۔۔اور سورت کوثر کا ورد کرتے ہوئے ڈیوٹی کرنے لگی۔۔۔
میں روزانہ وقوع ہونے والے واقعات کی رپورٹ ایس پی ایڈمن اور کبھی کبھی ایس ایس پی اسرار احمد کو بھی بتاتی۔۔۔
اسرار صاحب کے رویے میں اتنی اپنائیت تھی۔۔۔کہ ان مشکلات میں رہنا بھی برا نہیں لگ رھا تھا۔۔۔۔
ایس پی ٹریفک سے سارے تنگ تھے۔۔
مگر ان کے بقول ان کی سفارش بہت بڑی تھی۔۔۔۔۔۔وہ خود کو بیگم ضیاالحق کا بھانجا کہتے تھے۔۔۔اور سندھ کی نوکری کی وجہ سے خود کو آصف زرداری کا دوست کہتے تھے۔۔۔ان کا کہنا تھا کہکوئی بھی حکومت آئے۔۔۔ان کو کوئی ٹرانسفر نہیں کر سکتا۔۔۔۔
مجھے گھر اور باھر دونوں جگہ پریشانی کا سامنا تھا۔۔۔۔میں نے مناسب سمجھا کہ وھاں سے اپنی ٹرانسفر کروا لوں۔۔۔۔اس لیے دو ماہ بعد ھی میں نے پولیس لائن میں پوسٹنگ کی درخواست دے دی۔۔۔۔اور آئی جی پنجاب کی طرف سے میری۔۔۔پولیس لائن ھیڈکوارٹرز میں پو سٹنگ ہو گئی۔۔۔۔اور مجھے ایس ایس پی لاھور نے قربان لائنز میں واقع غازی کمپنی کا کمانڈنٹ لگا دیا۔۔۔۔
یہ بھی اسرار صاحب کی مہربانی تھی۔۔۔
یہ کمپنی بھی ایس پی پولیس لائنیز کے ماتحت تھی۔۔۔ ان دنوں ایس پی ھیڈکوارٹرز چوھدری اسلم تھے۔۔۔۔جو نہایت نفیس اور پڑھے لکھے تھے۔۔۔۔
میری اس پوسٹنگ کو چند روز ھی ہوئے تھے۔۔۔۔کہ لاہور میں شاھدرہ سے داتا صاحب تک بدترین ٹریفک جام ھوا۔۔۔۔ساری رات ٹریفک رکی رھی۔۔۔کئی مریض دم توڑ گئے۔۔۔۔کئی باراتیں رکی رھیں۔۔۔۔
ایس پی ٹریفک کو بار بار بلایا جاتا رھا۔۔۔لیکن وہ سوئے رھے۔۔۔انھو ں نے کوئی کال وصول نہیں کی۔۔۔۔
جس کے بعد ان کو ٹرانسفر کر کے دوبارہ سندھ بھیج دیا گیا۔۔۔۔
(جاری ہے )