از: نیلما ناہید درانی
ٹریفک ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کا خاتمہ۔۔۔۔ ویمن پولیس ٹریننگ سکول کا قیام
اچھا وقت جلدی گزر جاتا ہے۔۔۔۔اچانک ٹریفک ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کو قربان لائن سے ختم کر کےچوھنگ میں سپیشل برانچ ٹریننگ سکول میں ضم کر دیا گیا۔۔۔۔ایس پی شمیم خان کو ان کے آبائی شہر ملتان بھیج دیا گیا۔۔۔۔ان کی ریٹائرمنٹ قریب تھی۔۔۔۔
اب ھم ایس ایس پی سپیشل برانچ پرنسپل ٹریننگ سکول جناب اشرف مارتھ کے ماتحت تھے۔۔۔۔
اشرف مارتھ سانولی رنگت والے دراز قد نہایت ذھین و فطین زیرک اور شریف الطبع افسر تھے۔۔۔۔
سب انسپکٹر نبیلہ رانا سپیشل برانچ سکول میں لا انسٹرکٹر تھی۔۔۔ وہ اشرف مارتھ کے اعلی اخلاق کی گرویدہ تھی۔۔۔۔اور ھر وقت ان کی تعریف کرتی۔۔۔۔میرے ساتھ سب انسپکٹر نسرین اختر بھی ٹریفک ٹریننگ سکول سے چوھنگ شفٹ ھوئی تھی۔
اشرف مارتھ نے مجھے بلا کر کہاکہ ٹریفک ٹریننگ کا نیا نصاب بنایا جائے۔۔۔۔
جس کے لیے وہ میرے ساتھ ڈی ایس پی بھلر کے ھمراہ مال روڈ پر واقع کتابوں کی مشہور دکان فیروز سنزگئے۔۔۔ٹریفک سے متعلقہ کتابیں خریدیں۔۔۔۔۔اس کے بعد امریکن سنٹر لائبریری شارع فاطمہ جناح جا کر لائبریری کی ممبر شپ لی اورٹریفک سے متعلقہ کتابیں ایشو کروائیں۔
اب میرے ذمہ ان کتابوں میں سے ٹریفک کے ابواب کے تراجم کرنا اور نیا نصاب بنانا تھا۔۔۔لا انسٹرکٹر اپنی کلاس کے ٹائم پر آکرکلاس کے بعد گھر جا سکتے تھےلیکن میری ذمہ داری زیادہ تھی۔۔۔۔ مجھے دفتری اوقات میں سکول میں رھنا پڑتا۔۔۔چوھنگ سے میرا گھر بہت دور تھا۔
جس کا میں نے کئی بار ایس ایس پی صاحب سے ذکر کیا۔۔۔۔اس پر انھوں نے مجھے پیشکش کی کہ میں چوھنگ میں پرنسپل ھاوس میں شفٹ ھو جاوں۔۔۔۔ بچے گاڑی پر سکول چلے جایا کریں گے اور مجھے دفتر آنے جانے کے لیے گاڑی کی ضرورت نہیں ھوگی کیونکہ پرنسپل ھاوس سکول کی چار دیواری کے اندر تھا۔۔۔۔
(اشرف مارتھ کی رھائش ظہور الہی روڈ پر چوھدری پرویز الہی اور چوھدری شجاعت حسین کے ساتھ تھی۔۔۔۔ان کے پاس قربان لائن میں ایک سرکاری گھر بھی تھا جو ناصر خان درانی نے لاھور سے ٹرانسفر ھوتے ھوئے ان کو دے دیا تھا۔۔۔۔۔۔)
لیکن اس وقت میرے لیے چوھنگ جیسی دور دراز جگہ شفٹ ھونا ناممکن تھا۔۔۔۔۔۔
مجھے محنت تو کرنی پڑ رھی تھی لیکن مجھے احساس ھو رھا تھا کہ اشرف مارتھ کے میرے لیے سخت رویے سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع مل رھا ھے۔
کتابیں پڑھنے اور ان کے تراجم کرنے سے میرے علم میں اضافہ ھو رھا تھا۔۔۔۔۔
سپیشل برانچ ٹریننگ سکول کا ماحول بہت پرسکون تھا۔۔۔۔ نبیلہ رانا اور نسرین اختر کے ساتھ مل کر گپ شپ لگانے کا موقع بھی ملتا۔۔۔۔ کبھی کبھار ہم۔۔۔۔چوھنگ میں واقع اینٹی ٹیررسٹ سیل کے اندر ایس پی عثمان نیازی سے ملنے جاتے۔۔۔۔ان دنوں لشکر جھنگوی کا چیف ریاض بسرا اس سیل میں بند تھا۔
عثمان نیازی بہت خوش مزاج تھے۔۔۔
نبیلہ رانا ان کو صوفی شعرا بابا بلھے شاہ ، وارث شاہ کا کلام سناتیں۔۔۔۔اور وہ ھم سب کو چائے پلاتے۔۔۔
جب کبھی میں نے کام نہ کیا ھوتا میں اشرف ماتھ سے بہانہ کرتی۔۔۔۔ میری نظر کی عینک گھر رہ گئی ہے۔۔۔جس پر وہ مشورہ دیتے کہ صبح اٹھ کر سبزے پر چلا کریں۔۔۔۔سبزہ دیکھنے سے نظر تیز ھوتی ہے۔۔۔۔
انھی دنوں ناصر خان درانی۔۔۔۔اے آئی جی ٹریننگ بن کر لاھور آگئے۔۔۔
ان کو گھر کی ضرورت تھی۔۔۔۔اشرف مارتھ نے ان کو پرنسپل ھاوس رھنے کے لیے دے دیا۔۔۔۔
ناصر خان درانی۔۔۔۔نے دیکھا کہ بے نظیر حکومت نے خواتین پولیس کے لیے تین سکولوں کی منظوری دے رکھی ہے۔۔۔۔ لیکن یہ فائل دبا دی گئی تھی۔۔۔۔
ناصر خان درانی نے لاھور کے لیے ایک خواتین کے ٹریننگ سکول کی پروپوزل بنا کر آئی جی پنجاب عباس خان کو بھجوائی۔۔۔۔
پرنسپل کے طور پر انھوں نے۔۔۔۔ پہلے نمبر پر ڈی ایس پی فرخندہ اقبال کا نام لکھا۔۔۔۔دوسرے نمبر پر میرا۔۔۔۔
عباس خان صاحب نے میرے نام پر دستخط کر کے۔۔۔۔ سکول کی منظوری دے دی۔۔۔۔
خدا خدا کر کےسپیشل برانچ ٹریننگ سکول میں کام کرنے کی عادت ھوئی تھی۔۔۔۔اشرف مارتھ صاحب کے حسن اخلاق کے باعث ڈیوٹی کرنا آسان لگنے لگا تھاکہ تبادلہ کے احکامات آگئے۔
خواتین کے لیے پہلا ٹریننگ سکول ویمن پولیس ٹریننگ سکول ، قربان لائن لاھور میں اسی عمارت میں بنایا گیا۔۔۔ جو ٹریفک ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کے بعد خالی ھوئی تھی۔۔ میں پہلی پرنسپل تھی۔
اے آئی جی ٹریننگ ناصر خان درانی نے سہالہ کے ایک لا انسٹرکٹر انسپکٹر کو چیف لا انسٹرکٹر متعین کیا اور ایک سب انسپکٹر وسیم درانی کو انسٹرکٹر لگایا گیا۔
ان دونوں کو یہ زعم تھاکہ وہ تربیت یافتہ تجربہ کار انسٹرکٹر ھیں اور میں ان کے سامنے طفل مکتب ھوں۔اس لیے وہ ھر وقت مجھے نیچا دکھانے اور اے آئی جی صاحب کے سامنے اپنے نمبر بنانے میں مصروف رھتے۔۔۔۔
میں نے اس سکول کو کامیاب کرنے کے لیے بہت محنت کی۔۔۔۔
ڈاکٹر مہدی حسن، بشری رحمن، طیبہ ضیا چیمہ، جسٹس افضل حیدر، قاضی آفاق حسین سے لکچر دلوانے کا بندوبست کیا۔
سکول کا فرنیچر خریدنے اور اس کے مختلف شعبوں کے لیے ناصر خان درانی نے خصوصی توجہ دی۔۔۔
یہ پنجاب کا پہلا سکول تھا جس میں لائبریری، جم، کمپیوٹر لیب قائم کی گئی اور پہلی بار رنگین مانیٹرز خریدے گئے۔ یہ سکول جنوری 1996 میں قائم ھوا۔۔۔۔ جس کا افتتاح آئی جی پنجاب عباس خان نے کیا۔
یہاں خواتین سب انسپکٹرز کے لیے جوڈو کراٹے کی تربیت کا انتظام بھی کیا گیا۔ میری ساتھی تمام سب انسپکٹرز یہاں میری شاگرد تھیں۔۔۔۔
پہلی ٹریننگ کے دوران ھی سب کی بطور انسپکٹر ترقی ھو گئی۔۔۔۔
رانا شوکت محمود کو دی گئی میری تجاویز میں سے دو پر عمل ھو چکا تھا۔۔۔۔
اس سکول کو بین الاقوامی شہرت حاصل ھوئی۔۔۔۔ جاپان پولیس کے آئی جی پاکستان کے دورے پر آئے تو ان کو آے آئی جی ٹریننگ ناصر خان درانی نے ویمن پولیس ٹریننگ سکول کا وزٹ کروایا۔انھوں نے واپس جا کر خواتین پولیس کے لیے JICA کی طرف سے خصوصی سیمینار کا انعقاد کروایا۔۔۔اس سیمینار میں پا کستان بھر سے پانچ خواتین پولیس افیسرز کو منتخب کیا گیا۔۔۔۔۔
لاھور سےفرخندہ اقبال ، نیلما ناھید درانی۔۔۔اسلام آباد سے انسپکٹر زاھدہ ۔ کراچی سے انسپکٹر شاھین برلاس اور انسپکٹر طیبہ۔
میں اپنا نام دیکھ کر خوفزدہ ھوگئی۔۔۔ میرے لیے گھر سے دور جانا ممکن نہیں تھا۔۔۔۔
میں ایڈیشنل آئی جی پنجاب ایم آر ضیا سے ملنے گئی اور اس سیمینار سے اپنا نام نکالنے کا کہا۔۔۔جس پر انھوں نے نہایت شفقت سے سمجھایا ۔۔۔ کہ نوکری میں ایسے مواقع بہت کم ملتے ھیں۔۔۔آپ کو ضرور جانا چاہیے۔۔اپنے گھر والوں کو بھی قائل کریں کہ وہ آپ کو جانے دیں۔۔۔
ان کے سمجھانے کا انداز اتنا اچھا تھا کہ مجھ میں حوصلہ پیدا ھوگیا۔۔۔اور میں نے گھر والوں کو بتا دیا کہ میں جاپان ضرور جاوں گی۔۔۔۔
(جاری ہے )
نیلما ناہید درانی