از: نیلما ناھید درانی
سیاہ پٹیاں۔۔۔اور حکومت کی تبدیلی
ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت الیکشن کے بعد مشکلات کا شکار تھی۔۔۔قوی اتحاد کے مظاھرے جاری تھے۔۔۔اپنی حکومت بچانے اور شدت پسندوں کو خوش کرنے کے لیے۔۔۔بھٹو نے کئی اقدامات کیے۔۔۔۔
اتوار کی بجائے۔۔۔جمعہ کی چھٹی کا اعلان کیا۔۔۔
شراب کی فروخت پر پابندی لگا دی۔۔اس سے پہلے شراب کی دکانیں جگہ جگہ موجود تھیں۔۔۔ان کو بند کروا دیا گیا۔۔۔۔لاہور مال روڈ پر ٹولنٹن کے قریب ایک بڑی شراب فروش کی دکان کی بوتلیں۔۔۔مال روڈ پر توڑی گئیں۔۔۔احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے کر اقلیت کا درجہ دے دیا گیا۔۔۔۔
لیکن ان تمام اقدامات کے باوجود اپوزیشن راضی نہ ہوئی۔۔۔۔اور۔۔۔۔ملک عزیز میں ایک اور مارشل لا کا راستہ ہموار ہو گیا۔۔۔جنرل ضیا الحق نے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی۔۔۔
پی ٹی وی کے کارکنوں نے بازووں پر کالی پٹیاں باندھ کر احتجاج کیا۔۔۔۔جس پر افواج پی ٹی وی اور ریڈیو کی عمارات میں داخل ہو گئیں۔۔۔
ٹرانسمیشن بند کر دی گئیں۔۔۔۔اور سب کارکنوں کو جو اس وقت عمارت میں موجود تھے گرفتار کر لیا گیا۔۔۔۔ان سب کو سول لائن کی حوالات میں منتقل کر دیا گیا۔۔۔
احتجاج کرنے والے صحافی بھی گرفتار ہوئے۔۔۔۔جن میں خاور نعیم ھاشمی اور ھمراز احسن بھی شامل تھے۔۔۔پولیس لائن میں۔۔۔میجر ضیا الحسن ایس پی ہیڈ کوارٹرز بن کر آئے۔۔۔۔
آئی جی پنجاپ حبیب الرحمن بن گئے۔۔۔ان کے بھائی جنرل مجیب الرحمن پاکستان ٹیلی ویژن کےچیئرمین مقرر ہوئے۔۔۔۔
میں سول لائن پولیس اسٹیشن گرفتار شدہ کارکنوں کے لیے ناشتہ لے کر گئی۔۔۔۔مجھے پولیس میں ہونے کی وجہ سے ان تک رسائی مل گئی۔۔
میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔۔۔ میں نے پولیس لائن میں چار دن کی چھٹی کی درخواست دی اور گھر چلی گئی۔۔۔۔جب چار دن کے بعد واپس گئی تو پتہ چلا میری چھٹی منظور نہیں ھوئی۔۔۔اس لیے ایس پی ھیڈ کوارٹرز کے سامنے پیشی ہے۔۔۔
میں بہت پریشان ہو گئی۔۔۔یہ نئی مصیبت کیا ھے۔۔۔بہر حال ڈرتے ڈرتےایس پی ھیڈ کوارٹر کے کمرے میں داخل ھوئی۔۔۔سامنے ڈائس پر ایک دراز قد خوش شکل نوجوان کھڑا تھا۔۔۔ جو نہ تو پولیس والا لگ رہا تھا ۔۔ اور نہ ہی کرخت فوجی۔۔۔یہ میجر ضیاالحسن تھے۔۔ انھوں نے مسکراتے ہوئے ہوچھا۔۔۔آپ کو چھٹی چایئے۔۔۔۔میں نے اثبات میں سر ھلایا۔۔۔ انھوں نے کہا۔۔۔آپ چھٹی پر جا سکتی ہیں۔۔۔
میں حیرت اور خوشی سے سرشار ایکبار پھر چار دن کی چھٹی گزارنے گھر روانہ ھو گئی ۔۔۔
ابھی میری چھٹی ختم نہیں ھوئی تھی۔۔کہ پولیس کی گاڑی مجھے لینے آ گئی۔۔۔۔اس گاڑی میں انسپکٹر نغمانہ اور ایک مرد ڈی ایس پی موجود تھا۔۔۔۔
مجھے بتایا گیا۔۔۔آپ کو آئی جی پنجاب کی طرف سے سپیشل ڈیوٹی کے لیے لیجایا جا رھا ہے۔۔۔۔۔
یہ گاڑی مجھے پی ٹی وی سنٹر لے کر گئی۔۔۔۔جہاں ہر طرف باوردی فوجی گھوم رہے تھے۔۔۔
اندرونی عمارت بھوت بنگلا دکھائی دے رھی تھی۔۔۔یقین نہیں آرھا تھا یہ وہ ھی جگہ ھے جہاں دن رات فنکاروں کی آمدورفت رھتی اور ان کی آوازیں گونجتی تھیں۔۔۔۔
عمارت کے اندر اعظم خورشید موجود تھے جن کو کوئٹہ سے بلایا گیا تھا۔۔۔ایک انجینئر بھی تھا۔۔۔۔
اعظم خورشید نے کہا آپ میک اپ کر لیں۔۔۔اناونسمنٹ کرنی ہے۔۔۔۔مجھے میک اپ کرنا نہیں آتا تھا۔۔۔پھر بھی میک اپ روم میں جا کر نغمانہ کی مدد سے بیس بنائی لپ اسٹک اور کاجل لگایا۔۔۔۔اور ٹرانسمیشن روم میں آگئی۔۔۔۔ اعظم خورشید نے لائٹس آن کیں۔۔۔اور کیمرے کے پیچھے کھڑے ہو کر فریم بنایا۔۔۔ اب مجھے بتایا گیا۔۔کہ صدر پاکستان جنرل ضیااحق لاھور قزافی سٹیڈیم ایک ھاکی میچ دیکھنے آ رھے ہیں۔۔۔ان کی آمد کی اناونسمنٹ کرنی ھے۔۔۔وہ یاد کر لیں۔۔۔۔
میں نے ایک کاغذ پر اناونسمنٹ لکھ لی۔۔۔کیمرہ آن ھوتے ہی۔۔۔صدر پاکستان کے لاھور آمد کا اعلان کیا۔۔۔اور ان کی واپسی کی اناونسمنٹ کرنے تک ھمیں وہاں رکنا تھا۔۔۔۔انسپکٹر نغمانہ زاھد اور ایک ڈی ایس پی ھمارے ساتھ تھا۔۔۔۔اعظم خورشید نے ھمیں کافی بنا کر پلائی ۔۔۔کلوزنگ اناونسمنٹ کے بعد نغمانہ اور ڈی ایس پی نے مجھے میرے گھر اتارا اور خوش اسلوبی سےڈیوٹی ادا کرنے کی رپورٹ دینے ڈی آئ جی لاہور کے آفس روانہ ہوگئے۔۔۔۔
(جاری ہے)
نیلما ناھید درانی