سلسہ جات

کُچھ کھٹی میٹھی یادیں(۳۰)


از: نیلما ناہید درانی
حافظ صباح الدین جامی سے ۔۔۔ پہلی اور آخری ملاقات
      میں اپنی کتاب لے کر بشری رحمن کے دفتر لبرٹی مارکیٹ گئی۔۔۔وہاں ایک دبلی پتلی خاتون بیٹھی تھیں۔۔انھوں نے بتایا کہ بشری رحمن گھر جا چکی ہیں۔۔۔میں نے کتاب ان کے حوالے کی اور اپنے آنے کا مدعا بیان کیا کہ میں چاھتی ہوں۔۔۔بشری آپا میری کتاب کی رونمائی میں شریک ہوں اور مضمون پڑھیں۔۔۔
دوسرے دن بشری رحمن کا فون آیا۔۔۔وہ مجھ سے ملنا چاھتی تھیں۔۔۔
ان کے دفتر پہنچی تو انھیں اپنا منتظر پایا۔۔۔۔انھوں نے بتایا کہ کتاب انھوں نے ایک ہی نشست میں پڑھ لی ہے۔۔۔۔بلکہ ان کے شوھر رحمن صاحب نے بھی پڑھی ھے۔۔۔انھیں میری شاعری بہت اچھی لگی ہے۔۔۔انھوں نے تقریب میں آنے کا وعدہ بھی کر لیا۔۔۔۔بشری رحمن ھم سے مخاطب تھیں۔۔۔اور ھم ان کی شخصیت کے سحر میں کھوئے ھوئے تھے۔۔۔۔بڑی بڑی غلافی آنکھیں۔۔۔۔سرخ و سفید رنگت۔۔۔۔گفتار ایسی کہ گویا پھول جھڑ رہے ہوں۔۔۔۔۔باتیں ایسی کہ بس سنا کیجیئے۔۔۔۔ھم پہلی ملاقات میں ہی ان کے گرویدہ ہو چکے تھے۔۔۔۔
حسب وعدہ وہ ھماری تقریب میں شامل ھوئیں۔۔۔۔اور پھر اپنے گھر پر ہونے والی ادبی تقریبات میں مدعو کرنے لگیں۔۔۔۔
سائرہ ھاشمی ہر ماہ” بزم ھم نفساں” کی تقریبات منعقد کرتی تھیں۔۔۔۔یہ ہر بار کسی ایک ادیب یا شاعر کے گھر پر ہوتی۔۔۔۔
اس بار بشری رحمن کے گھر تھی۔۔۔ان کا پیغام ملا۔۔۔ بہت سے شاعر ادیب جمع تھے۔۔۔۔میں سب سے جونیر اور نووارد تھی۔۔۔جب سب کا تعارف ھوا تو پتہ چلا محفل میں آئی جی پنجاب حافظ صباح الدین جامی اور ان کی بیگم بھی موجود ہیں۔۔۔۔اسی محفل میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ صباح الدین جامی نا صرف حافظ قران ہیں بلکہ ادیب اور افسانہ نگار بھی ہیں۔۔۔میں نے ان کی بیگم کو اپنی کتاب ” جب تک آنکھیں زندہ ہیں ” کی ایک کاپی پیش کی۔۔۔۔وہ دیر تک اس کے صفحے پلٹ کر میری نظموں کو سراہتی رہیں۔۔۔
حافظ صباح الدین جامی۔۔۔ رمضان میں پولیس لائنز ھیڈکوارٹر قلعہ گوجر سنگھ کی مسجد میں نماز کی امامت بھی کراتے تھے۔۔۔۔۔اور تراویح بھی پڑھایا کرتے تھے۔۔۔۔
وزیر اعلی پنجاب نواز شریف نے ان کو بلا کر کہا۔۔۔۔کہ وہ مسلم لیگ کے ورکرز کو اے ایس آئی بھرتی کرنا چاھتے ھیں۔۔۔۔۔لہذا پنجاب میں اے ایس آئی کی جتنی خالی نشستیں ھیں ان کی تفصیل بتائی جائے۔۔۔۔۔
آئی جی صاحب جانتے تھے کہ اگر ڈائرکٹ اے ایس آئی بھرتی کر لیے گئے۔۔۔تو ان ھیڈ کانسٹیبلز کی حق تلفی ہوگی۔۔۔۔جو برسوں سے ترقی کا انتظار کر رہے ہیں۔۔۔۔اور پھر وہ کبھی ترقی نہیں حاصل کر سکیں گے۔۔۔۔
انھوں نے پنجاب بھر سے ترقی کے منتظر ہیڈ کانسٹیبلز کی فہرستیں منگوائیں۔۔۔۔اور ان کو ترقی دے کر اے ایس آئی بنا دیا۔۔۔۔اور وزیر اعلی کو نو ویکینسی کی رپورٹ بھیج دی۔۔۔۔
وزیر اعلی نواز شریف نے انھیں فورا عہدے سے ہٹا کر۔۔۔۔آئی جی پنجاب کا چارج ایڈیشنل آئی جی چیمہ صاحب کو دے دیا۔۔۔۔لاہور ٹریفک میں ذکا الدین کی جگہ نئے ایس پی ٹریفک آ گئے تھے۔۔۔ان کا نام الطاف قمر تھا۔۔۔۔۔الطاف قمر اعلی اخلاق کے حامل تھے۔۔۔سارا عملہ ان سے خوش تھا۔۔۔۔میرے ساتھ ریاض کاظمی انسپکٹر کام کر رہے تھے۔۔۔انھوں نے ان کو فیلڈ میں بھیج کر اظہر انسپکٹر کو ڈرائیونگ ٹسٹ کے لیے لگا دیا۔۔۔۔ریاض کاظمی کے برعکس انسپکٹر اظہر تیز مزاج کے تھے۔۔۔ان کی روز کسی نا کسی سے لڑائی ہو جاتی۔۔۔۔لیکن الطاف قمر اس معاملے کو رفع دفع کروا دیتے۔۔۔۔۔بس ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی معاملہ ہو اس سے پہلے کہ ان تک کسی اور کے ذریعے پہنچے۔۔۔ان کو بتا دیا جائے۔۔۔۔
الطاف قمر میرے کام سے خوش تھے۔۔لیکن وہ ٹیم جو صباح الدین جامی کے تبدیل ہونے پر خوشیاں منا رہی تھی۔۔۔۔ ان کا اگلا ٹارگٹ میں تھی۔۔۔۔
ایک سازش کے تحت انھوں نے وزیر اعظم کے مشیر پیر مظہر الحق کو میرے پاس بھیجا۔۔۔۔۔
جنہوں نے کہا۔۔۔”میری بیٹی کا لائسنس بنا دیں۔”
میں نے نہایت احترام سے کہا۔۔۔”ان کو بھیج دیں۔۔۔میں بنا دوں گی۔۔۔۔”
اس پر وہ ایکدم غصے میں آگئے۔۔۔۔
"میری بیٹی اس دفتر میں کیسے آسکتی ہے”۔۔۔انھوں نے نخوت سے کہا۔۔۔۔
اور غصے میں بڑبڑاتے کمرے سے باہر نکل کر اپنی جھنڈے والی گاڑی میں بیٹھ گئے۔۔۔۔۔
یہ کیسے سیاسی رھنما اور "پیر” تھے
جو غیر قانونی کام کروانا اپنا حق سمجھتے تھے۔۔۔۔
وہ سیدھے آئی جی چیمہ کے دفتر میں گئے۔۔۔۔اور دوسرے روز میرا تبادلہ ٹریفک سے سپیشل برانچ ہو چکا تھا۔۔۔۔
میں اس تبادلہ پر خوش تھی۔۔۔۔۔کیونکہ مجھے پبلک  ڈیلنگ پسند نہیں تھی۔۔۔۔میں نے کئی بار اسد جہانگیر خان سے اپنے تبادلے کے بارے میں کہا تھا۔۔۔
وہ ڈی آئی جی ھیڈ کوارٹزز بن چکے تھے۔۔۔۔اور میرے کہنے ہر ہمیشہ کہتے کہ آرام سے ڈیوٹی کرتے رھو۔۔۔ھر جگہ ایسے ھی لوگ ہیں۔۔۔
الطاف قمر نے ایس ایس پی آفس کینٹین میں میرے لیے الوداعی پارٹی کا انتظام کیا۔۔۔۔جس میں ایس ایس پی رانا مقبول، ایس پی ایڈمن پرویز راٹھور اور ٹریفک کے بہت سے آفیسر شریک ہوئے۔۔۔۔
تقریب ابھی جاری تھی کہ اچانک اے ایس پی مشتاق سکھیرا وھاں آیا اور اس نے آتے ہی کہا۔۔۔
"اللہ کا شکر ھے آپ کا تبادلہ ھوا ہے۔۔۔ھم تو زنانی سے لائسنس بنانے کا نہیں کہہ سکتے تھے۔۔۔”
                                                                                (جاری ہے)
نیلما ناھید درانی

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

آنسو سلسہ جات

آنسو ۔۔۔ پہلاورق : یونس خیال

  • جولائی 17, 2019
 مجھے ٹھیك سے یادنہیں كہ میں پہلی باركب رویاتھالیكن آنسووں كے ذائقےسے آشنائی دسمبر1971ء میں ہوئی۔عجیب لمحہ تھاایك بینڈ كے
آنسو خیال نامہ سلسہ جات

آنسو ۔۔۔ دوسراورق

  • جولائی 21, 2019
از: یونس خیال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  گزشتہ سے پیوستہ ’’ بڑا‘‘ہونے پر میرے پہلے ہمرازیہی آنسوتھے۔ میں نے بظاہرہنستے ہوئےجیناسیکھ لیاتھالیکن تنہائی