از: حمید قیصر
دوسری صبح جب آنکھ کھلی تو اباجی نے اپنے ایک دوست کا والہانہ تعارف کروایا۔
’’ پتر یہ ہیں میرے لنگوٹیئے دوست حاجی شاہ بہرام جو مجھے اپنے سگے بھائیوں سے بھی زیادہ عزیز ہیں‘‘۔
’’ ہم نے مگر انہیں پہلے تو کبھی نہیں دیکھا؟‘‘ میں نے معصومیت سے کہا۔
’’ پترجی، میں جو یہاں نہیں ہوتا اس لیئے ان سے بھی آپکی ملاقات نہیں ہوتی۔ اب میں آیا ہوں تو آپکی چاچا جی سے بھی ملاقات ہوگئی‘‘ اباجی نے وضاحت کی۔
’’ چاچا جی آپ کا گھر کہاں ہے؟‘‘ میں نے حاجی صاحب سے براہ راست ہوگیا۔
’’ بیٹا، میں سبزی منڈی کے پاس، دریا کے کنارے رہتا ہوں‘‘ چاچا جی بولے۔
’’ عبدالحمید پتر کونسی جماعت میں پڑھتے ہو؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
’’ چاچا جی میں ابھی پہلی میں ہوں اور مجید بھائی تیسری جماعت میں ہیں‘‘ میںبولا۔
’’ پتر، آئندہ کبھی میں پاکستان میں نہ ہوں اور کوئی ضروری کام ہو تو چاچا جی کو بتا دیا کرو‘‘ اباجی نے ہدایت کی۔
’’ اچھا جی‘‘۔ میں مختصر جواب دے کر شمع کی طرف متوجہ ہوا ۔اتنے میںماں جی نے حاجی صاحب کیلئے لائے ہوئے تحائف کا تھیلا نکال اباجی کو دے دیا۔ جسے انہوں نے مسکراتے ہوئے حاجی صاحب کو پیش کیا تو وہ خوشی اور ممنونیت کے جذبات سے مملو ہوکر مسکرانے لگے۔
شمع کمرے میں اپنی گڑیا اور دوسرے کھلونوں کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ میں اندر داخل ہوا تو چھیا کو دیکھ کر حیران ہوا۔ پھر پتہ چلا کہ وہ پچھواڑے کے دروازے سے آئی ہے۔چھیا کو دکھانے کیلئے میں بھی اپنی کار نکال لایا۔ پھر ہم تینوں مل کر کھیلنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد اباجی حاجی صاحب کو کمرے سے گزر کر پچھواڑے والے دروازے سے باہر والی جگہ دکھاتے ہوئے اسے خریدنے کی بات کررہے تھے۔تھوڑی دیر بعد چاچا حاجی شاہ بہرام چلے گئے کہ وہ بھی روزے سے تھے۔انکے جانے کے بعد میں نے پوچھا۔
’’ اباجی کیا یہ پچھواڑے والی جگہ ہماری نہیں ہے جو آپ خریدنے کی بات کررہے تھے؟‘‘
’’پتر یہ ہمارے گھر سے چھوئی کو جانے والا قدیم راستہ ضرور ہے مگر ہماری ملکیت نہیں ۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ جگہ ملک صاحب سے خرید کر ایک بیٹھک بنادوں تاکہ آپ لوگوں کو آسانی ہو‘‘۔
اباجی کی بات سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ میرے دوست خالد یا ضمیر آتے تھے تو انہیں گلی میں
کھڑے رکھنا پڑتا ہے۔اندر جا کر اباجی ایک پلنگ پر سستانے کیلئے نیم دراز ہوگئے ۔
’’ اباجی دوسرا کمرہ بننے سے ہمارا گھر بھی بڑا ہوجائے گا، ہے ناں؟‘‘میں نے اباجی کی پائنتی کی جانب بیٹھتے ہوئے بات آگے بڑھائی۔
’’ جی پتر جی، بیٹھک کی بیٹھک اور کمرے کا کمرہ‘‘ اباجی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’پتہ ہے یہ حاجی صاحب میرے پرانے دوست ہیں۔ جب ہم تین ،استاد روشن پراچہ سے کام سیکھا کرتے تھے۔ میں، حاجی صاحب اور تیسرا انکا اپنا بیٹا قیوم پراچہ تھے۔ یہ حاجی صاحب بھی پراچہ خاندان سے ہیں۔آج کل نواب صاحب کے بنگلہ پر ہوتے ہیں۔اسی لئے ان سے پیچھے والا تھلہ خریدنے کی بات کی ہے۔ وہ فوری، بہ آسانی اور سستے داموں سودا کروا دیں گے۔بنگلے پر سب لوگ حاجی صاحب کی بہت عزت کرتے ہیں‘‘ اباجی نے تفصیل بتائی۔ اتنے میں مجید بھائی کمرے میں داخل ہوئے۔ انہوں نے ہاتھ میں ذبع کی ہوئی مرغی کی طرح برائون رنگ کی نویں نکور کوہاٹی کھیڑیاں لٹکا رکھی تھیں۔
’’ اباجی یہ بنوائی ہیں عید کیلئے‘‘ مجید بھائی نے کھیڑیاں اباجی کی طرف بڑھائیں۔
’’ پتر، پہن کر دیکھی ہیں پوری بھی ہیں کہ نہیں؟‘‘ اباجی نے استفسار کیا۔
’’ جی اباجی پوری ہیں، میں نے دکان پر پہنی تھیں‘‘ بھائی نے خوش ہوتے ہوئے بتایا۔
’’ اور پیسے کتنے کاٹے ہیں چاچا غلام رسول نے؟‘‘ ابا جی نے پوچھا۔
’’ وہی ڈھائی آنے اباجی‘‘ بھائی نے وضاحت کرتے ہوئے بقیہ پیسے واپس کردیئے۔
’’ پتر، آپکے چاچا حاجی شاہ بہرام صاحب آئے تھے ملنے‘‘ اباجی نے مجید بھائی کو ’’پاڑا‘‘ یعنی تھلہ خریدنے والی بات بھی بتائی ۔
’’ پتر حاجی صاحب کو دس بوری گندم خریدنے کیلئے بھی پیسے دے دیئے ہیں۔ نئی فصل اترے گی تو گندم گھر پہنچ جائے گی‘‘ اباجی کے چہرے پر یک گونا اطمینان کی لہر دوڑ گئی۔
اباجی کی زندگی کا یہ معمول تھا،وہ گھر میںبنیادی اجناس حسب ضرورت جمع رکھتے تھے۔ انکی کوشش رہتی کہ دوبئی واپس جانے کے بعد میرے کنبے کو عدم موجودگی میں کوئی تکلیف نہ ہو ۔ اسی لئے وہ گندم، چاول، گھی ، چینی اور ایندھن گھر میں ضرور لے کر رکھ لیتے۔
سویوں والی میٹھی عید آئی گلیاں اور بازار سجے۔ خوب سویاں اور مٹھائیاں اڑائی گئیں۔ میلے ٹھیلے اور ہلہ گلہ ہوا۔ تین دن خوب ہنگامہ رہا۔احمد کے ساتھ کشتیوں کی سیر کی گئی۔کشتیوں کے ذریعے ماڑی انڈس میں پل کے دوسرے کنارے دائیں جانب لگے میلے میں پورا دن آوارہ گردی کی۔ پہلی بار اونچے درختوں پر بندھی پینگ بھی جھولی۔ جب پینگ کا ہلارا اوپر جاکر واپس آتا تو جان ہی نکل جاتی۔ احمد بخش نے پینگ پر خوب مزے کیئے۔پکوڑے جلیبیاں اورشکرپارے کھائے اور شام کو اداس اداس پیدل واپسی ہوئی کہ تین روزہ میٹھی عید ختم ہوگئی اور شام ہوگئی۔ اگلے ہی روز استاد شراف دین کے ڈنڈے نے سارے کس بل نکال دیئے۔یوں زندگی پھر پرانی ڈگر پر آگئی۔البتہ اباجی کے آنے سے ہمارے گھر کی رونقیں بحال رہیں۔ عید سے پہلے ہی ہزار روپے دے کر ملحقہ خالی جگہ حاجی چاچا کے ذریعے خرید لی گئی۔ ابا جی خودچونکہ تعمیرات کے ماہر تھے۔ انہوں نے عید کے فورا بعداینٹیں، ریت، سیمنٹ اور بجری منگوا کر بیٹھک کی تعمیر کا پلان بنا لیا گیا۔پہلے کچے کاغذ پر بیٹھک کا نقشہ بنایا گیا، جس میں اس کمرے کا گلی میں کھلنے والا دروازہ ، ایک کھڑکی اور بارشی پانی کی نکاسی کیلئے دو پرنالے رکھے گئے تھے۔ چاچا حاجی شاہ بہرام سے مشورہ ہوا ۔ انہوں نے بتایا کہ ہمیں نہ صرف نقشہ ’’ بوہے‘‘ سے منظور کروانا ہوگا بلکہ دروازے، کھڑکی اور پرنالوں پرالگ الگ ٹیکس بھی ادا کرنا پڑے گا۔ جب ابا،ا ماں کو یہ سب بتا رہے تھے تو ہمیں بہت حیرت ہوئی۔بلکہ بوہے اور اسکی منظوری میرے سر سے گزر گئی اور بے اختیار سوال کیا،
’’ اباجی یہ بوہا کیا ہوتاہے، وہاں سے منظوری کیوں لینا پڑے گی؟‘‘تو انہوں نے بتایا۔
’’ بیٹا! یہ قصبہ جس میں ہم رہتے ہیں، یہاں کے نوابزادگان اور انکے آبائو اجداد کو ورثے میں ملا تھا۔ وہ کالاباغ اسٹیٹ کے اکیلے مالک و مختار ہیں۔ یہ جو سامنے دریا کے کنارے کنارے سر سبزوشاداب باغات ہیں۔ یہ سب انہی کی ملکیت ہیں۔ جہاں ہمارے سامنے والے ہمسائے ملیار اجرت پر سارا سارا دن محنت مزدوری کرتے ہیں۔آس پاس اور نویںشار کی تمام زمینیں اور بنگلے سب نوابوں ہی کی ملکیت ہیں‘‘۔
’’ اور جن گھروں میں لوگ پہلے سے رہتے ہیں وہ؟‘‘ میں نے پھر سوال اٹھایا۔
’’ پتر وہ ان لوگوں نے زمانہء قدیم سے نوابوں یا ہندئووں سے خرید کر بنائے تھے۔ پاکستان بننے سے پہلے یہاں مسلمان، ہندو، سکھ اور عیسائی بہت اتفاق سے مل جل کر رہتے تھے۔مل جل کر کاروبار کرتے تھے ۔وہ سامنے دریا کے کنارے دیکھو، مسجد عیدگاہ اور دھرم شالہ کے آثار ساتھ ساتھ ہیں دیکھ لو‘‘ اباجی نے سامنے عیدگاہ کی طرف اشارہ کرکے کہا،
’’پترجب آپ بڑے ہوجائیں گے تو آپکو اپنے اردگرد سے بہت ہی حیران کن حقائق معلوم ہونگے۔ ابھی آپ خوب دل لگا کر پڑھیں۔ آگے چل کر زندگی کے خوبصورت اور بدصورت دونوں چہرے آپکے سامنے آئیں گے‘‘ اباجی نے اپنی بات ختم کردی مگر مجھے یہ بات نہ صرف گہری سوچ عطاء کرگئی بلکہ حالات کو سمجھنے کیلئے راستہ بھی سجھا گئی۔
شام کو خالد ملنے آگیاتو میں نے اسے بتایا کہ اباجی نے میری بیٹھک کیلئے جگہ خرید لی ہے اور کام بھی شروع کر دیا گیا ہے۔یہ جان کر وہ بھی بہت خوش ہوا کہ بیٹھک بنے گی تو ہم بھی بیٹھ کر گپ شپ کرسکیں گے۔
’’بلکہ اب ہمارا لائبریری بنانے کاخواب بھی پورا ہوسکے گا‘‘۔
’’ آج کیا پروگرام ہے، کہیں چلیں آوارہ گردی کو؟ ‘‘ خالد نے پوچھا۔
’’ یار وہ ضمیر نے اس دن بڑی دلچسپ بات بتائی تھی‘‘
’’ کیا؟‘‘
’’ کیا تم ماما مکھی کو جانتے ہو؟‘‘
’’ ہاں، وہی ناں جس کی لوہاراں والے وانڑ میںچائے کی دکان ہے؟‘‘
’’ وہی وہی، یار ماما مکھی دریا میں دس دس منٹ کی سائی مار لیتا ہے اور دریا میں ڈوب جانے والوں کو گہرے پانیوں سے نکال لاتا ہے‘‘۔ میں نے تجسس سے بتایا۔
’’ہاں میں نے بھی سنا ہے مامے کے بارے میں، ادھر ہمارے محلے میں قاسم پاڑا بھی ایسی ہی ایک شخصیت ہیں۔ مامے مکھی کی طرح وہ بھی موٹے ہیں اور دریا میںلمبی ڈبکی لگانے اور لاشیں نکال لانے والے انکے کارنامے بھی زبان زدعام ہیں‘‘۔ خالد نے بتایا
’’ یار ضمیر تو پتہ نہیں کہاں ہوگا، چلو آج خود ہی مامے مکھی کو دیکھنے جاتے ہیں‘‘ میں نے ماں جی کو بتایا اور ہم لوہاراں والے وانڑ کی طرف باتیں کرتے ہوئے چل پڑے ۔جب ہم مامے مکھی کے ڈھابے پر پہنچے تو دیگر ہوچکی تھی۔ بازار میں دس پندرہ لوگ ادھر ادھر بیٹھے چائے کی چسکیاں لے رہے تھے۔ماما جی ملیشیاء کا کھلا ڈلا شلوار قمیض پہنے، پوے سے چائے پھینٹ رہے تھے۔ انکا بیٹا محمد خان چائے کی خالی پیالیاں ادھر ادھر سے جمع کرکے دھو رہا تھا۔ ہمیں دیکھ کر مسکرایا اور اشارے سے پوچھا چائے پیئیں گے؟ میں نے خالدکا ہاتھ دبایا اور اثبات میں گردن ہلا دی۔ہم دونوں سامنے والی بند دکان کی دابھ کا سہارا لیکر کھڑے ہوگئے۔اس سے ذرا آگے فاروق اور جہانگیر کے والد کی سگریٹ تمباکو کی دکان تھی۔دونوں چچازاد بھائی اور ہمارے کلاس فیلو تھے۔ اتفاق سے فاروق بھی ہمیں دکان کے باہر مل گیا اور ہمارے ساتھ آ کھڑا ہوا۔
’’ یار آج تم دونوں ادھر کہاں آ نکلے؟‘‘ فاروق نے پوچھا،
’’ یہ خالد میری طرف آیا تو ہم دونوں بغیر پروگرام کے آوارہ گردی کرنے آنکلے‘‘میں نے بات بنائی۔
’’ فاروق تم نے ضمیر کو دیکھا ہے؟‘‘
ابھی میں نے ضمیر کا نام ہی لیا تھا کہ اللہ جانے وہ کہاں سے شیطان کی طرح آن وارد ہوا۔
’’ ہوںمیں سمجھ گیا تم دونوں یہاں مامامکھی کو دیکھنے آئے ہو ناں؟‘‘ ضمیر نے راز کھول دیا
فاروق ہم دونوں کو دیکھ کر مسکرانے لگا۔اتنے میں محمد خان چائے کی چینک اور چار کپ دابھ پر رکھ کر چلا گیا۔
’’ پریشان نہ ہو اس چینک میں دو کپ چائے ہے۔ دراصل یہ چار ادھیاں ہیں‘‘ فاروق نے خالد کو مخاطب کرکے کہا اور ہم چائے کی چسکیاں لینے لگے۔
ایسے میں سامنے دکان پر ایک نیا ڈرامہ شروع ہوچکا تھا۔ سفید کرتا اور تہبند باندھے بزرگ نے ایک چار سالہ بچہ اپنے کنڈھاڑے پہ بٹھا رکھا تھا۔ فاروق نے بتایا کہ یہ چاچا چنوں لوہار ہیں۔
’’چنوں بھرا آج تم کچھ پریشان لگ رہے ہو؟‘‘ ماما مکھی نے دکان پر کھڑے ان بزرگ کو مخاطب کیا۔
’’ کیاپوچھتے ہو مظفر بھائی، صبح سے رفیق بیٹے کو ڈھونڈ رہا ہوں۔ سارا دن ضائع ہوگیا
ہے، کوئی کام نہیں کیا۔دن بھر سے رفیق کو ڈھونڈے جارہا ہوں۔ پہلے لاری اڈے پہ مارا مارا پھرتا رہا، ابھی ماڑی انڈس سے خوار ہوکے آرہا ہوں مگر فیقے پتر کا کچھ پتہ نہیں چلا ‘‘ انہوں نے مایوسی کے ساتھ اپنی بپتا سنا ڈالی۔اس دوران ماما مکھی ، محمد خان اور دوسرے سب مسکرائے جاتے تھے۔
’’ چنوں بھرا، یہ تمہاری کنڈھ پر رفیق نہیں تو اور کون بیٹھا ہے؟‘‘ مامے نے ہنستے ہوئے کہا
’’ اوئے کھوتے ! تم صبح سے میرے سر پہ سوار ہو، بتاتے کیوں نہیں کہ میں فیقا ہوںاور
اوپر بیٹھا ہوں؟‘‘ یہ کہتے ہوئے چاچا چنوں غصے اور شرمندگی سے لال پیلے ہوگئے۔اس مزیدار ڈراپ سین پر سب لوگ ہنس ہنس کر دوہرے ہونے لگے۔بہت سے ہم عمر چاچے سے ہنسی مذاق کرنے لگے۔محمد خان نے فیقے کو نیچے اتارا اور چاچے کو ٹھنڈے پانی کا کٹورا تھمایا تاکہ انہیں اطمینان ملے۔ہم چاروں نے بھی اس ڈرامے سے خو ب لطف لیا۔ یوں مامامکھی کے ساتھ ساتھ چاچے چنوں لوہارسے بھی ہمارا تعارف ہوگیا۔ شام گہری ہونے لگی، بازار اور آس پاس کی تنگ گلیوں میں برقی قمقمے روشن ہونے لگے تھے۔ میں اور خالد، ضمیر اور فاروق سے مل کر مین بازار کی طرف واپس آگئے۔
__________________
حمید قیصر، اسلام آباد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے