شاعر : رام ریاض
جو بھی شیریں سخنی ہے مرے مکی مدنی
تیرے ہونٹوں سے چھنی ہے مرے مکی مدنی
صنعتِ نعت میں الفاظ کے ہیروں کی تلاش
ہنرِ کان کنی ہے مرے مکی مدنی
میں کہاں اور تری مدح کہاں، یہ تو تمام
تیری رحمت فِگنی ہے مرے مکی مدنی
نسل در نسل تری ذات کے مقروض ہیں ہم
تو غنی ابنِ غنی ہے مرے مکی مدنی
میری سوچوں سے مدینہ کی مسافت ہے طویل
میں ہوں اور خستہ تنی ہے مرے مکی مدنی
استقامت ترے اندر کہ تہہِ آب چٹان
اس پہ نازک بدنی ہے مرے مکی مدنی
دستِ قدرت نے ترے بعد، پھر ایسی تصویر
نہ بنائی، نہ بنی ہے مرے مکی مدنی
کس سے نسبت ہے مجھے، کس کی ضرورت ہے مجھے؟
میرا مکی مدنی ہے مرے مکی مدنی
تیرا پھیلاو بہت ہے ترا قامت ہے بلند
تیری چھاوں بھی گھنی ہے مرے مکی مدنی
میرے مسلک میں تو جس دل میں تری چاہ نہ ہو
کشتنی، سوختنی ہے مرے مکی مدنی
رام ملحد کہ مسلماں ہے کبھی فیصلہ دے
ہر طرف رائے زنی ہے مرے مکی مدنی