شاعر: دلاورفگار
کسی مشاعرہ سے قبل ایک شاعر کو
یہ فکرتھی کہ کمی انتظام میں کیا ہے
وہ کہہ رہا تھا کہ اے بانیان بزم سخن
کلام تو میں پڑھوں گا کلام میں کیا ہے
نہیں خواص میرے قدرداں توبھاڑمیں جائیں
یہ دیکھیے میری شہرت عوام میں کیا ہے
نہ مجھ کودودھ سے پرہیزہے نہ وسکی سے
فضول بحث حلال و حرام میں کیا ہے
ملی نہ وسکی تو ٹھرا ہی نوش کر لوں گا
مجھے تو کام سے مطلب ہے نام میں کیا ہے
مجھے یہ ضد بھی نہیں ہے کہ سب کے بعد پڑھوں
مجھے کہیں بھی پڑھا دو، مقام میں کیا ہے
نہ یہ ضرور کہ ہوٹل میں مجھ کو ٹھہراؤ
مجھے کہیں بھی لٹا دو، قیام میں کیا ہے
ملے گی داد تو آداب عرض کر لوں گا
روایتاً ہی سہی اک سلام میں کیا ہے
مگر مجھے تو ہے اس وقت یہ پریشانی
کلام پڑھنے سے پہلے طعام میں کیا ہے