نیلماناہید درانی
چاہت سے اوروصال سے آگے نکل گئے
دنیا کے ہر وبال سے آگے نکل گئے
دوری میں وہ مزہ تھاکہ خواہش بدل گئی
ہم یوں ترے خیال سے آگے نکل گئے
گو صاحبانِ علم ہمیں ٹوکتے رہے
ہم بے ہنر کمال سے آگے نکل گئے
کچھ ساعتوں نے روح کو ایسے جکڑ لیا
ہم دن ، مہینے ، سال سے آگے نکل گئے