از: ناصرمحموداعوان
ہمارے پڑوس میں ایک اردو سپیکنگ بزرگ رہتےہیں۔ غالباً دلی سے تعلق ہے۔ اردو زبان کا چٹخارا لینے گاہے ان سے بات چیت کر لیتا ہوں۔ کل میں نے مزاج پرسی کی، ان کے پوتے کا حال پوچھا۔ کہنے لگے:
"ناصر میاں کیا بتاوں، جب دیکھو، دنیا مافیہا سے بے خبر لیپ ٹاپ پر جھکا ہے۔ کہتا ہے مطالعہ کر رہا ہوں۔اب سب کتابیں اورلکھنے پڑھنے کے سارے کام لیپ ٹاپ پہ ہوتے ہیں۔
اس مطالعے نے تو اس کی عجیب گت بنادی ہے۔”
"گت بنادی ہے؟ کیا مطلب ؟ سر، مطالعہ تو اچھی بات ہے، اس میں پریشانی کاہے کی؟” میں نے حیرانی سے پوچھا۔
"بیٹا جب سے مطالعہ شروع کیا ہے نا! اس کی طبعیت میں چڑ چڑا پن آگیا ہے۔کبھی مٹھیاں بھینچ رہا ہوتا ہے۔ تو کبھی خلا میں گھورتا نظر آتا ہے۔ گاہے بے وجہ مسکرائے چلا جاتا ہے۔ بات کرتا ہے تو چاہتا ہے سب سنیں۔ گفتگو پر کوئی اختلافی کمنٹ کردے تو بگڑ اٹھتاہے۔ بول چال تک چھوڑ دیتا ہے۔ البتہ جو اس کی ہاں میں ہاں ملائے تو اس کے ساتھ خوب گپ لڑاتا ہے۔ بس اپنی ہی سی سنائے چلا جاتا ہے دوسرا کہے تو اس کی سنی ان سنی کردیتا ہے۔ چاہتا ہے سب اس کے متعلق سوچیں اوراسی کے بارے میں باتیں کریں۔ بڑا صافی مزاج اور خوش فکر بچہ تھا۔ شیطان کی پھٹکار ہو اس مطالعہ پر، بچے کو بد وضع اور بد اطوار بنا دیا۔ ” بڑے میاں نے تفصیل بتائی۔
"واقعی یہ تو بد وضعی اوربد اطواری ہے!بھلا آج کل وہ کون سی کتاب پڑھ رہا ہے؟” میں نے استفسار کیا۔
"اس عمر کے حافظے اور یاداشت پر خدا کی سنوار۔ بیٹا، آج صبح ہی اس نے بک کا نام بتایا، اور اب اس وقت شام کو میں بھول گیا ہوں ۔” بڑے میاں نے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
میں نے سوچتے ہوئے کہا:”فیس بک؟”
چونک کر بولے :”ہاں ہاں ،یہی نام بتا یاتھا اس نے ”
(ناصر محمود اعوان)