شہزاد تابش
وقت بے وقت کا الہام بھی ہو سکتا ہے
اور مبہم سا یہ پیغام بھی ہو سکتا ہے
یوں نہ کراس پہ حقارت کی نظر جان چمن
خاک ذادہ یہاں گلفام بھی ہو سکتا ہے
موت کے ہاتھ سے تو جس کو چھڑا لایا ہے
تیرا قاتل وہ سر عام بھی ہو سکتا ہے
چند اشعار سے شہرت کی بلندی پا کر
تیرا شاعر کبھی گمنام بھی ہو سکتا ہے
سر محفل تیری مدح سرائی کر کے
وہی مطرب پس دشنام بھی ہو سکتا ہے
تو نے فطرت کی حسیں چال کوسمجھا ہی نہیں
تیرا دشمن یہاں ناکام بھی ہو سکتا ہے
اے میری چشمِ غزالاں اے میری راحت جاں
تیری آنکھوں کا بدل جام بھی ہو سکتا ہے
لاکھ خوددار سہی اپنی ضرورت کے تحت
چند سکوں میں وہ نیلام بھی ہو سکتا ہے
یہ تو سوچا بھی نہ تھا کار اخوت میں برا
میرے ایثار کا انجام بھی ہو سکتا ہے
اے میرے دوست ذرادیکھ اندھیرے میں کہیں
آمد صبح کا یہ پیغام بھی ہو سکتا ہے
زندگی جادہء پر خار ہے لیکن تابشِ
اس کی آغوش میں آرام بھی ہو سکتا ہے
شہزاد تابشِ
لاھور
پاکستان