اس زندگی کا مشکل ترین سوال انسان کی اپنی آگاہی اور تفہیم سے متعلق ہےاور یہ سوال جتنا مشکل ہے،اس کا جواب حاصل کرنا،اتنا ہی ضروری ہے۔کیونکہ جب تک انسان اپنے آپ کو نہیں پہچانتا،اپنی خامیوں اور غلطیوں پر بھی اس کی نگاہ نہیں جاتی۔اسی سوال کو لوگوں کی طرف سے بہت آسان بھی سمجھا جاتا ہے۔لوگ اپنی تعریفوں کے پل باندھ دیتے ہیں اور اپنی کامیابیوں کو گنواتے نہیں تھکتے۔انہیں اپنی ذات صرف خوبیوں کا مجموعہ نظر آتی ہے۔لیکن یہ سب جوابات غلط ہیں۔درست جواب اپنی پہچان اور اپنے عرفان کا حصول ہے۔خود آگاہی کے اسی وصف کی بدولت انسان اپنی منزل کے تعین میں واضح فیصلہ کر پاتا ہے اور اپنا رستہ چھوڑ نے کے بجائے،غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھتا رہتا ہے۔وہ کبھی اپنی ناکامیوں پر شرمندہ نہیں ہوتا بلکہ دوبارہ شروع کرتا ہے۔یہ بار بار کی کوشش اس کی منزل اور کامیابی کو اس کے نزدیک تر لے آتی ہے۔شعور انسان کے پاس ایک لازوال دولت ہے جو غیر یقینی صورتحال کو قبول کرنے کے لیے آدمی کو تیار کرتا اوراسے خوف سے نجات دلاتا ہے۔ جب آدمی کسی مشکل صورتحال کو قبول کر لیتا ہے ، تو پھر یہ مشکل اس کے لیے مہم جوئی بن جاتی ہے۔اس مہم کو سر کر کے وہ بے پناہ خوشی اور بہت سا تجربہ حاصل کرتا ہے۔عقل و شعور کا تعلق قبولیت سے بھی ہے جو زندگی کے معاملات سے نمٹنے کی کنجی ہے۔قبولیت کو ہم لچک بھی کہہ سکتے ہیں۔زندگی کے معاملات میں بے لچک انسان بہت زیادہ نقصان اٹھاتا ہے جبکہ موقع کے مطابق ڈھل جانے والا انسان ہر مشکل رستے سے نکل جاتا ہے۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ پتھر کا نصیب نہیں بدلتا کیونکہ پتھر نہیں بدلتا۔خود آگاہی ضبط نفس سے ملتی ہے۔ضبط نفس اور پھر عرفان نفس سے زندگی بے فائدہ اور فضولیات میں گزرنے سے بچ جاتی ہے ۔انسان بالغ نظر ہوجاتا ہے اور وہ گناہوں اور ظلم وزیادتی کے خاردار کانٹوں اور جھاڑیوں بھرے رستے سے دامن بچا بچا کر چلنے لگتا ہے۔اس کے سوچنے کا انداز تعمیری اور مثبت ہو جاتا ہے اوراس کی زندگی نئی نئی ہو جاتی ہے ۔دوسروں کے ساتھ اس کا رویہ بھی اچھا ہوجاتا ہے۔یہی بہتر رویہ انسان کی شخصیت کو خوبصورت اور جاذب نظر بناتا ہے۔ہمارے رویے بظاہر معمولی چیز ہیں مگر وہ ہماری زندگیوں میں بہت بڑا فرق ڈال دیتےہیں۔ رویہ ہمارے احساسات ،سوچ اور نیت کا نام ہےجب کہ لوگوں سے برتاؤ اور سلوک ایک عمل ہے۔ ہم جو کچھ سوچتےہیں اس کااظہار ہمیشہ ہمارے رویوں اور پھر برتاؤ سے ہوتا ہے۔مثلا جب ہم سوچتے اور ارادہ کرتےہیں کہ نماز کا وقت قریب ہے اور ہم باجماعت نماز ادا کریں گے تو یہی سوچ ہمیں عمل پر اکساتی ہے اور ہم کے اذان ہوتے ہی مسجد کی طرف چل پڑتے ہیں۔ہمارے دوسروں سے بہترسلوک کے پیچھے بھی یہی اچھا رویہ اور خوبصورت سوچ کار فرما ہوتی ہے۔اگر ہم دوسرے لوگوں کے ساتھ اپنے برتاؤ اور سلوک کو بہتر کرناچاہتے ہیں تو ہمیں اپنے رویے پر کام کرنا اور اسے بہتر کرنا چاہیے۔مراقبے کا عمل دراصل اپنی سوچ کی تطہیر کا عمل ہے۔جس کی پاکیزگی اور سچائی عمل کوبھی پاکیزہ اور نتیجہ خیز بنا دیتی ہے۔ اگر کوئی اپنی تصویر کو مسلسل گرے رنگ کرتا رہے تو وہ تصویر ہمیشہ تاریک ہی ہوگی۔لیکن اگر وہ اپنی شخصیت کے خانے میں انسانی ہمدردی،محبت ،شگفتگی اور مزاح ایسے کچھ عناصر بھی شامل کرلے تو اس سے روشنیاں پھوٹنے لگتی ہیں اور شخصیت کے رنگ نمایاں ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ہر شخصیت کی اپنی خوشبو بھی ہوتی ہے۔ کسی شخص کی خوشبو سے اس کی کرداری شخصیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔یہ سب کچھ ہمارے جسم کے ان ہارمونز اور فیرومونز کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے جن کا اخراج ہمارے پسینے کے ذریعے ہوتا ہے۔کامیاب اور بڑے انسانوں کا لازمی مقصد حیات ہوتا ہے۔کامیابی ایک ٹرین کی طرح ہے۔ اس کے بہت سے حصے ہیں.جن میں سخت محنت ، توجہ کا ارتکاز اور قسمت کی یاوری وغیرہ شامل ہیں۔کامیابی کی ٹرین کی تمام بوگیوں کی رہنمائی،خوداعتمادی کا انجن کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ کامیابی کا تمام تر دارومدار مستقل مزاجی، ثابت قدمی اور مشکلات کے خلاف مزاحمت پر ہوتا ہے۔ثابت قدمی یہ ہے کہ جو کام بہت ضروری کرنا ہو اس پر ڈٹ جانا چاہئے اور مزاحمت یہ ہے کہ ناپسندیدہ اور غیر ضروری کاموں سے ہرصورت میں اجتناب کرناچاہیے۔جن افراد میں خود اعتمادی کی کمی ہوتی ہے وہ درمیانہ رستہ اختیار کرتے ہیں اور یہ اندازہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہاں کیا ہوتا ہے۔ غلطیاں کر کے نقصان اٹھانے والوں کی زندگی کی کتاب معزرتوں سے بھری ہوتی ہے۔اس لیے ہمیں ہر ایسی چیز سے نجات حاصل کرنی چاہیے جو مفید نہ ہو۔مقصد متعین ہو تواپنی زندگی میں نئے کاموں کے آغاز کے لیے کبھی بھی دیر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ کامیابی کے لیے مسلسل کام ضروری ہے اور مشکل ترین چڑھائی کے بعد ہی بہترین نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔بقول آتش
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجر سایہ دار راہ میں ہے
گمنام
جنوری 31, 2021خرد افروز تحریر
یوسف خالد
جنوری 31, 2021بہت عمدہ آگہی فراہمی کرتی ہوئی تحریر