خالق کائنات کے سامنے جب اپنی پہچان کا سوال پیدا ہوا تو اس نے چاہا کہ وہ پہچانا جائے۔پس اس نے یہ کائنات تخلیق کردی ۔حضرت آدم سے نوع انسانی پھیلی۔پھر رب تعالیٰ نے تخلیق کے عمل کو مستقل نوعیت دے دیدی۔ستارے،کہکشائیں اور دیگر عالم وجود میں آئے ۔نئی دنیائیں اور مخلوقات وجود میں آئیں۔سائنس دانوں کے مطابق یہ کائنات پھیلتی اور وسیع تر ہوتی جا رہی ہے۔
آرائش جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیش نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں
اقبال نے بھی اپنے ایک شعر میں بہت خوبصورتی سے اس حقیقت کا بیان کیا ہے کہ
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکوں
اللہ تعالیٰ نے ہم انسانوں میں فکر و تدبر اور سوچ بچار کا مادہ اسی لیے رکھا ہے کہ ہم اپنے گرد پیدا ہونے والے سوالوں کے جواب ڈھونڈیں۔بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے لیے یہ ژندگی بالکل نئی ہوتی ہے۔وہ جب سانس لینا شروع کرتا ہے تو ایک نئے تجربے سے آشنا ہوتا ہے۔یہ آشنائی اسے حیران بھی کرتی ہے اور پریشان بھی۔وہ حیرانی سے اپنے اردگرد دیکھتا ہے۔کچھ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔رفتہ رفتہ اس کی پہچان کا عمل شروع ہوتا ہے ۔وہ جو اسے بار بار اپنے سینے سے لگا کر اسے دودھ پلاتی ہے وہ اس کی ماں ہے۔وہ جو اسے بار بار چمکارتا اور پکارتا ہے وہ اس کا باپ ہے۔پھر وہ اپنے بھائیوں،بہنوں اور دیگر رشتہ داروں کو پہچاننے لگتا ہے لیکن اس پہچان کے عمل میں حیرت اور سوال دونوں کا ساتھ ہوتا ہے۔ماں باپ اور بہن بھائیوں سے اسے بہت سے سوالات کے جوابات ملتے ہیں۔سوال زندگی بھر اس کے ساتھ رہتا ہے۔سوال کا تعلق زندگی کے علاؤہ انسان کی موت سے بھی بڑا گہرا ہے۔ہر انسان کی موت ایک سوال چھوڑ جاتی ہے کہ وہ شخص جو ابھی کچھ دیر پہلےہنس بول رہا تھا،جس کا ایک نام تھا اور بڑے بھرپور انداز میں اپنا کردار ادا کر رہا تھا،وہ کہاں چلاگیا۔موت کیوں انسان کو آغوش میں لے لیتی ہے۔یہ زندگی اتنی مختصر کیوں ہے۔اگر انسان کا تعلق مذہب سے نہ ہوتا تو اس کے لیے ان سوالات کا جواب دینا انتہائی مشکل ہوتا کیونکہ مذہب ہی ہمیں اس عارضی زندگی کے بعد ایک دائمی زندگی کی نوید دیتا ہے۔بہر حال سوال موت کے بعد بھی قائم رہتا ہے اور قبر میں فرشتے اس سے پہلا سوال یہی کرتے ہیں کہ من ربک،یعنی تمہارا رب کون ہے۔حساب کتاب کے روز بھی سوال ہی اہم ہو گا کہ دنیا میں فلاں شخص کے اچھے اور نیک اعمال کتنے ہیں اور برے اعمال کتنے ہیں۔پھر فرشتوں کا لکھا ، معیاری سمجا جائے گا اورانسان کے اعمال کی فلم اس کے سامنے چلا دی جائےگی۔موت کے بعد جب انسان اٹھے گا تو بھی اک عالم تحیر میں ہوگا۔اس حیرت میں اللہ کا خوف،ڈر سبھی کچھ ہو گا مگر جو اللہ والے ہوں گے انہیں خوف ہو گا نہ ڈر۔چنانچہ اس دنیا میں اللہ کا بن کر رہنا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
سوال کے سوال کے جواب سے انسان کی ذہنی تشفی ہوتی ہے۔سوال کی دو نوعیتیں ہیں۔ایک علم کا مرحلہ اور دوسراتربیت کا۔علم کے مرحلے میں سوال کےبغیر ارتقا ناممکن اور تربیت کے مرحلے میں سوال ہی ترقی کے رستے میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔اسی لیے قرآن حکیم میں وضاحت سے فرمایا گیا ہے کہ” تم سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہوئے کہ ان میں قیل و قال اور کثرت سوال تھا”جہاں تک حصول علم کا تعلق ہےقول معروف ہے کہ سوال آدھا علم ہے۔امام جعفرِ صادق ع نے اصولِ کافی کتاب العقل والجہل میں فرمایا ہے کہ: مسائلِ دین سے نادانی ایک درد ہے جس کی دوا صرف سوال ہے, اور علمِ دین پر تالہ لگا ہوا ہے جس کی کنجی صرف سوال کرنا ہے۔یہی اصول باقی علوم پر بھی منطبق ہوتا ہے اور دنیا بھر میں جتنی ایجادات اور دریافتیں ہوئی ہیں وہ سوال کی اسی کنجی ہی سے کھلی ہیں۔کیوں کہ سوال کھوجنے اور تلاش کرنے کی دعوت دیتا ہے۔اس دنیا کا مشکل ترین سوال انسان کی اپنی تلاش پر مبنی ہے۔اپنی تلاش کا عمل ایک طرف تو اپنی خامیوں پر قابو پانے اور خوبیوں کو نکھارنے کا نام ہے تو دوسری طرف اسی سوال کا جواب ڈھونڈتے ڈھونڈتے انسان نے علوم و فنون کے ارتقا کے کئی عہد طے کر لیے ہیں لیکن سوال ہنوز تشنہ تکمیل ہے۔سوال ہی کی بدولت میڈیکل سائنس انسان کی جسمانی ساخت اور اس میں چھپی بیماریوں کو کھوجنے اور ان کا علاج کرنے میں کامیاب ہے تو نفسیات کا شعبہ اس کے ذہنی مسائل اور بیماریوں کو تلاش کرتا ہے۔ذہنی مسائل کا زیادہ تر تعلق جسم کے بجائے روح سے ہوتا ہے۔جب جسم میں کوئی بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو ہماری روحانی کمزوری کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔قران کی تلاوت،ذکر اذکار ہماری روح کی طاقت کا سبب بنتے ہیں۔اسی لیے ان سے شفا بھی ملتی ہے۔
فلسفہ اس کائنات اور زندگی سے متعلق بے شمار سوالوں کو جنم دیتا یے۔ہر دور کے فلسفی انہی سوالوں کے جوابوں کے لیے عمریں گزارتے رہے ہیں۔
سوال کی تدریسی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے۔استاد اگر کلاس روم میں بچوں کو سوالات پوچھنے کا موقع دیتا ہے تو وہ کئی ایسے سوالات کرتے ہیں جن کے جوابات اور وضاحت تمام طلبا کے مفید ہوتی ہے۔اس لیے سوالات کا پورشن سبقی اشارے کا لازمی حصہ ہوتا ہے۔ہمارا تمام تر امتحانی نظام، چاہے معروضی اور موضوعی ہو یا انٹرویو اور زبانی امتحان پر مبنی ہو سوالات پر ہی مشتمل ہوتا ہے۔ان میں سوالات کے ذریعے ہی طلبا کی استعداد کار اور صلاحیت جانچی جاتی ہے اور اس کے گریڈ کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔طالب علم سے تمام تر سوالات نصاب سے پوچھے جاتے ہیں۔اس کی ذات اور معمولات کے متعلق سوال نہیں پوچھا جاتااسی طرح وہ بھی اپنے نصاب تعلیم سے سوال کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔استاد کی ذات کے بارے میں سوال کرنا حد ادب میں آتا ہے۔یہ حد ادب ہمیں ٹی وی چینلز پر بری طرح پامال ہوتی دکھائی دیتی ہے۔
ٹی وی چینلز کی فصلیں آگنےسے پہلے اخبارات میں فورمز ہوا کرتے تھے۔جہاں سوالات مختلف اشوز پر اٹھائے جاتے تھے۔یہاں سنجیدگی بھی ملحوظ خاطر ہوتی تھی اور مواد بھی کانٹ چھانٹ اور قطع برید کے بعد وہ شائع ہوتا تھا جس سے کسی کو اختلافات کی گنجائش نہیں ہوتی تھی نہ ہی وہ کسی کی دل آزاری کا سبب بنتا تھا۔پھر چینلز ایک ایک کر کے بنتے گئے اور اظہار کی آزادی کے نام پر میڈیا آزاد ہوتا گیا۔لائیو اور گرما گرم بحث مباحثے کے شوز شروع ہوئے تو اختلافات کی بانگیں جو کبھی سیاسی جلسوں میں سنائی دیا کرتی تھیں،آمنے سامنے بیٹھے ہوؤں میں دکھائی بھی دینے لگیں۔یہاں سوالات کا خون ہونے لگا۔دوسرے کی بات مکمل ہوئے بغیر اور مکمل سنے بغیر اسے کاٹا جانے لگا۔اپنی برتری ثابت کرنےکے لیے آوازبلند ہونے لگی۔گفتگو میں دھیما پن ،متانت اور سنجیدگی باقی نہ رہی اور اخلاقیات کا دامن سیاستدانوں ،اور دانشوروں سےچھوٹنے لگا۔عدم برداشت کا یہ رویہ معاشرے میں نہ جانے کب سے پنپ رہا تھا۔چینلز پر عوام کی محبوب پارٹیوں کے لیڈروں کی اس نقاب کشائی نے لوگوں کے آئیڈیلز کے بت پاش پاش کر دئے۔اب وہ سب پر ہنسنے لگے۔ہنسنے کے سوا وہ کر بھی تو کچھ نہ سکتے تھے۔ یہ سب کچھ ہوا لیکن سوال باقی رہا۔سوال باقی رہے گا کہ یہ اپنے اندر بہت بڑی طاقت اور قوت رکھتا ہے۔سوال باقی رہے کہ یہ ہمیشہ سے جواب کی تلاش میں رہا ہے۔