کالم

یوسف خالدکاچھٹا مجموعہ’’قوسِ خیال‘‘ : یونس خیال

تخیل اور فکری جہتیں اپنے لیےاظہارکے مخصوص قالب یا پیٹرنز کااہتمام بھی خود ہی کیاکرتی ہیں ۔تخیل اورپیٹرن کی اچھی موزونیت ہی اصل میں وہ نکتہ ہے جو کسی خاص شعری صنف میں جان ڈالتاہے ۔باقی کام شاعر کا ہے کہ وہ اپنی علائم کی پہلوداری اور لفظیات کی لطافت سے اس صنف کو کس مقام تک پہنچانے کی اہلیت رکھتا ہے۔ پچھلی چاردہائیوں میں جن شعراء نے اردو شاعری کی مقبول ترین اصناف یعنی غزل ، نظم اور قطعات تینوں میں اپنی یکساں مہارت کا احساس دلایاہے ان میں یوسف خالد منفرد اورممتاز ہیں ۔
یوسف خالد کی نظم اور غزل جہاں جمالیاتی لطافت میں گندھے اپنےمخصوص اسلوب کی وجہ سے معتبر ہے وہاں اس کے قطعات بھی الگ شعری حُسن لیے نظر آتے ہیں ۔یہ صبح کے وقت سبزے پرپڑی اوس کے اُن قطروں کی مانند ہیں جو دیکھنے میں الگ الگ لیکن آپس میں مل کر خوب صورتی کاایک جہان آباد کیے ہوتے ہیں ۔
نظم کی طرح یوسف خالد کے قطعات میں بھی ایک نئی کروٹ محسوس کی جاسکتی ہے ۔اُس کے پہلے شعری مجموعے ’’ زرد موسم کا عذاب ‘‘ کی شکل میں بلندآہنگی کے ساتھ شروع ہونے والے معاشرتی سدھارکا مضبوط رویہ ’’ ابھی آنکھیں سلامت ہیں ‘‘ ، ’’ ہواکوبات کرنے دیں ، ’’ خواب سفر کا رستہ ‘‘ اور پھر ” اسے تصویر کرنا ہے” کی صورت میں آہستہ آہستہ محبت اورلطافت کی آمیزش سے دھیمے سُروں میں تبدیل ہوگیا ہے- کسی بڑے فنکارکے ہاں عروج کی یہ شکل بڑی ریاضتوں کے بعدہی ممکن ہواکرتی ہے۔
تمھاری ذات محبت کا استعارہ ہے
تمھاری ذات سے وابستگی امیری ہے
تمھارے قُرب نے بخشی ہیں نرمیاں ایسی
کہ میری سوچ کا ہر پیرہن حریری ہے
۔۔ ۔۔۔۔۔
خاموشی سے پیار ہوا ہے
تنہا جینا سیکھ رہا ہوں
من کے اندرپیاس اُگی ہے
آنسو پینا سیکھ رہا ہوں
یوسف خالد کی شاعری میں یہ تبدیلی ہی وہ اہم بات ہے جونہ صرف بطور شاعراس کے مقام کا تعین کرتی ہے بلکہ ایک تسلسل سے قاری کے ساتھ مضبوط فکری سانجھ کی بنیاد بھی مہیا کرتی ہے۔ اس ضمن میں عباس تابش کی رائے دیکھیے :

مجھے یوسف خالد کے قطعات کے اس مجموعہ نےایک خوش کن حیرت میں مبتلا کر دیا ہے -اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہمارے جدید شعراء نے قدیم اصنافِ سخن سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور دوسری وجہ یہ کہ فی زمانہ قطعہ نگاری اخبارات کے ادارتی صفحات تک محدود ہو کر رہ گئی ہے – لیکن یوسف خالد جہاں نظم اور غزل میں اپنا مقام بنا چکے ہیں وہاں ان کا قطعات کا ڈول ڈالنا پہلے تو کچھ عجیب سا لگا، جب میں نے مسودہ پڑھنا شروع کیا تو حیرتوں کی لپیٹ میں آتا چلا گیا، یہ قطعات نہ رسمی ہیں نہ صحافتی مجبوریوں کی پیداواربلکہ یوسف خالد کے موضوعاتی دائرہ در دائرہ جہان میں پھیلتے چلے جاتے ہیں جہاں ذات اور کائنات دونوں ہم آہنگ ہوتے محسوس ہوتے ہیں ، میں سمجھتا ہوں انہوں نے یہ قطعات کہہ کر یہ تآثرزائل کر دیا کہ اب قطعہ نگاری جدید شاعری کا حصہ نہیں بن سکتی ، یہ قطعات نہ صرف قطعہ نگاری کے باب کا احیا ہے بلکہ ایک خوبصورت اضافہ ہے-

younus khayyal

About Author

1 Comment

  1. یوسف خالد

    نومبر 15, 2020

    شکریہ ڈاکٹر یونس خیال

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

کالم

ترقی یا پروموشن ۔۔۔۔ خوش قسمتی یا کچھ اور

  • جولائی 11, 2019
ترجمہ : حمیداللہ خٹک کون ہے جوزندگی میں ترقی نہ چاہتاہو؟ تقریباًہرفرد ترقی کی زینے پر چڑھنے کا خواب دیکھتا
کالم

کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی

  • اگست 6, 2019
از : یوسف خالد کشمیر جل رہا ہے اور دنیا بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہے — دنیا کی