زندگی کا کوئی بھی شعبہ یا طبقہ ایسا نہیں ہے جو کرونا سے متاثر نہ ہوا ہو مگر مجھے سب سے زیادہ فکر اپنی نوجوان نسل کی ہے جس سے اس موزی وائرس نے اس کا قیمتی وقت چھین لیا ہے۔جب کرونا پھیلنے کے خدشہ کے تحت سکول،کالج اور یونیورسٹیاں بند کی گئیں تو اس وقت کلاس ون سے آٹھویں تک بیشتر بچوں کے امتحانات مکمل ہو چکے تھے اور وہ رزلٹ کے انتظار میں تھے۔جب کہ نویں اور دسویں کےامتحانات جاری تھے اور چند پرچے ہو بھی چکے تھے۔اس کے ساتھ ساتھ انٹرمیڈیٹ کے طالب علم ایم بی بی ایس،پاک آرمی اور انجینئرنگ میں داخلے کے خواب آنکھوں میں بسائے اپنی کتابیں اذہان میں اتارنے کو کوششوں میں مصروف تھے۔کوئی کہہ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کا امتحان مقررہ تاریخوں میں نہیں ہوگا اور ملتوی کر دیا جائے گا مگر انہونی ہوگئی۔کسی ایک بورڈ کے نہیں ملک کے تمام تعلیمی بورڈوں کے امتحان ملتوی ہو گئے۔کسی ایک شہر،ضلع یا صوبے کے نہیں سارے پاکستان کے سکول،کالج اور یونیورسٹیاں بند کر دی گئیں اور تمام تعلیمی عمل التوا اور انجماد کا شکار ہو گیا۔حکومت کی طرف سے جون میں امتحانات لینے کا اعلان کیا گیا تھا،مگر بے یقینی کی کیفیت طاری ہے۔بچے،اپنے تعلیمی معمولات،ٹیمپو اور مورال کھو چکے ہیں۔حکومت نے تعلیمی چینل شروع کیا ہے مگر اس سے استفادہ کرنے والے بچے کم ہیں۔گھروں میں بچے ٹی وی کے ذریعے پڑھنے پر ذہنی طور پر آ مادہ نہیں ہیں۔ان کا بہت زیادہ نقصان ہو چکا ہے۔ درس گاہوں کی ضرورت گھروں میں پوری نہیں سکتی۔اگر یہی سلسلہ کچھ عرصہ مزید رہا تو ہمارے بچے ذہنی دباؤ اور ڈپریشن کا شکار ہو جائیں گے۔ایک رپورٹ کے مطابق یورپ میں کرونا اور لاک ڈاؤن کی وجہ لوگوں میں ڈپریشن بڑھ رہا ہے اور گھریلو جھگڑے ایک سو بیس فیصد زیادہ رپورٹ کئے گئے ہیں۔ہمارے ہاں چونکہ خاندانی نظام یورپ اور امریکہ سے مختلف ہے،اور کچھ خاندانی اور مذہبی روایات مستحکم ہیں اس لیے خاندانی جھگڑوں میں تو کمی آئی ہےلیکن فرد انفرادی اور اجتماعی سطح پر تناؤ اور تنہائی کا شکارہوگیا ہے۔کسی حد تک تو ہم سب ڈپریشن میں جا چکے ہیں اس لیےمعاشرے کو ذہنی دباؤ اور جسمانی تناؤ سے بچانے کے لیے جہاں کاروبار اور دیگر سرگرمیوں کا پھر سے جاری کرنا ضروری ہے وہاں سکول ،کالج کی سرگرمیاں بچوں میں ڈپریشن میں کمی لانے اور زندگی کو معمول پر لانے میں بہت حد تک ممد ومعاون ثابت ہوں گی۔اس سلسلے میں بعض تجاویز پیش کی جا رہی ہیں جن کے پیش کرنے میں ہماری مدد ہمارے دوست پروفیسر ضیا الدین بابا نےکی ہے۔ضیاالدین بابا چند دن پیشتر ہمارے پاس تشریف لائے اور تعلیمی میدان میں بچوں کے ہونے والے نقصان کی طرف ہماری توجہ دلائی۔انہوں نے جو تجاویز لکھ کر ہمیں دی ہیں وہ قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔ان کے بقول٫٫اگرموجودہ حالات جوں کے توں رہتے ہیں تو اقتصادی اور سماجی مسائل بھی پیدا ہوں گے مگر بچوں کے نفسیاتی اور تربیت کے مسائل سب سے بڑا مسئلہ بن جائے گا ۔جس کا بر وقت احساس اور اقدامات ضروری ہیں تاکہ آئندہ پیدا ہونے والے بحرانوں سے نکلنا آسان ہو۔جب تک بچے گھر پر ہیں۔اس وقت تک انھیں صحت مند سرگرمیوں میں مشٖغول رکھنا نہایت ضروری ہے۔چند اہم اقدامات بروئے کار لانا بہت ضروری ہے جو درج ذیل ہیں ۔۱۔شہروں میں موبائل اسٹیشنری اور بک شاپس کا انتظام ضلعی اتھارٹیز کو کرنا چاہیے۔۲۔لائیبریوں کو حفاظتی اقدامات اور سماجی فاصلے کی دوری کے ساتھ دن کے اوقات میں کھول دیا جائے۔۳۔پی ٹی وی کے تعلیمی پروگرامات کے ساتھ ساتھ پیمرادوسرے پرائیویٹ چینلز کو بھی قومی فرض ادا کرنی کی ترغیب دے اور تمام چینلز کو کم از کم ایک چوتھائی وقت تعلیم ،ماحول اور بچوں کی تربیت کے لیے وقف کرنا چاہیے ۔۴۔ان دنوں اچھے اور قابل اساتذہ ،دانش ور گھر بیٹھ کر مدد کر سکتے ہیں۔ان تک آن لائن رسائی ممکن بنا کر ان سے استفادہ کیا جانا چاہیے ۔۵۔آن لائن سہولت سے تیس فی صد لوگ ہی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔آبادی کے بڑے حصے کے پاس انٹر نیٹ کی معیاری سہولت اور تربیت کی کمی ہے لہذا ہماری روایتی تعلیم ہی ہمارا مسٗلہ حل کر سکتی ہے ۶۔ سکولوں میں کلاسسز کا دورانیہ کم کر کے ہر کلاس کو ہفتے میں دو دن بلا کر کم بچوں کو پڑھایا جا سکتا ہے۔وہی کلاس لیکچر ریکارڈ کر کے اُن بچوں کو آن لائن بھیجا جائے جو سکول نہیں آ سکتے۔حاضری لازمی نہ ہو۔ بچوں کو،تین مختصر اوقات میں باری باری سکول بلایا جائے۔سکول آنے والے بچوں کی حفاظت کے ضابطے بنائے جائیں۔۷ نصاب کو انتہائی لازمی اسباق تک محدودرکھا جائے۔ بورڈز کے امتحانات بھی اسی طرح مختصر رکھ کر کروائے جا سکتے ہیں ۔پیپرز کا دورانیہ دو گھنٹے اور روزانہ تین گروپس میں پیپر لیا جائے،نگران اور عملہ ڈبل ڈیوٹی کرے۔ایک کمرے میں دس طلبا کو بٹھایا جائے۔جراثیم کُش گیٹ اور ہاتھ صاف کرنے کا خصوصی انتظام ہر سنٹر میں ہو۔۹ ۔سوشل میڈیا سے بچوں کو بچانے کے لیے ٹیلی ویژن کی نشریات کو دلچسپ بنایا جائے۔اگر سکول اور تعلیمی ادارے زیادہ عرصہ بند رہے تو قومی مشکلات بڑھ جائیں گی۔یہ ایک رائے ہے ۔لوگ اس پر بات آگے بڑھائیں ممکن ہے بہت بہتر آراء سامنے آجائیں،،۔پروفیسر ضیاالدین کی یہ آراء بہت اہم ہیں۔یقینی بات ہے وفاقی و صوبائی نظامت تعلیم اس حوالے سے سفارشات مرتب کر رہی ہوگی۔امید ہے جو فیصلہ بھی کیا جائے گا۔وہ ہماری نوجوان نسل کے حق میں بہتر ہو گا کیونکہ ان کی زندگی بھی بہت قیمتی ہے،وقت بھی اور مستقبل بھی۔