کالم

چلا جو درد کا اک اور تیر میں بھی نہ تھا : ناصر علی سیّد

یار لوگوں کا ہمیشہ سے یہ طریقہ رہا ہے کہ جب بھی ان کو گفتگو شروع کرنے میں مشکل پیش آتی ہے تو فورا موسم کا ذکر چھیڑ دیتے ہیں، ”اب کے بہت سردی پڑی ہے یا اس بار تو گرمی نے حد ہی کر دی ہے“ جیسے تعارفی کلمات کسی بھی اجنبی سے بات چیت شروع کرنے کا ایک مجرب نسخہ ہے، کیونکہ مخاطب کو بھی خاموشی توڑنے کا بہانہ چاہئے ہو تا ہے، شکیل بدایونی نے تو اس کیفیت کو محبت کے رنگ میں رنگتے ہوئے یہ بھی کہا ہے
وہ ہم سے خفا ہیں ہم ان سے خفا ہیں
مگر بات کرنے کو جی چاتا ہے
اب میرؔ کا زمانہ تو ہے نہیں کہ ہم سفر سے بات کرنا اس لئے گوارا نہ تھا کہ زبان بگڑنے کا خدشہ تھا، اب تو خیر سے زبان بگڑنے کا کوئی خدشہ اس لئے بھی نہیں ہے کہ اس سے زیادہ اور کیا بگڑے گی۔مرحوم غلام محمد قاصر اور جمیل کاظمی سمیت کچھ باذوق پروفیسر صاحبان کا گورنمنٹ کالج کے لان میں منڈلی جمانا روز کا معمول تھا،اس اکٹھ میں شعر و ادب و فلسفہ میں دلچسپی رکھنے والے طلبہ بھی شامل ہو جاتے تھے، اور مختلف حوالوں سے گفتگو جاری رہتی اور بیشتر اوقات تو کالج خالی ہو جاتا اور ہم بیٹھے رہتے،ایک دن قاصر مرحوم ایک نوٹ بک ساتھ لے کر آئے اور اس سے چند سطریں پڑھ کر ہنستے ہوئے کہا، کل شام یہ پڑھ کر بہت ہنسی آئی تو سو چا دوستوں سے شئیر کر لوں، وہ سطریں سن کر میں نے کہا کہ آپ کو تو ہنسی آئی اور میرا جی چاہتا ہے کہ دھاڑیں مار مار کر روؤں،اس پر ایک اور قہقہہ پڑا۔ بظاہر وہ سیدھی سادی بے ضرر سی اردو زبان کے حوالے سے چند سطریں تھیں، جو اب مجھے اس ترتیب سے تو یاد نہیں مگر مفہوم کچھ یوں تھا، ”ہمیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ اردو زبان کتنی قدیم ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس میں جو نکھار اور سدھار آتا رہا ہے۔۔“ یہ پوسٹ گریجوئٹ کلاس کی ایک طالبہ کی نوٹ بک تھی جس کو اس کے پروفیسر نے اپنے لیکچر کے نوٹس دئیے تھے۔قاصر مرحوم نے میز پر سوال یہ رکھا کہ ’ اردو زبان کی قدامت کے بارے میں ایم اے(اردو) پڑھانے والے ایک پروفیسر کو بھی اگر اردو زبان کی قدامت کے بارے میں کوئی غرض نہیں ہے تو آخر پھر کس کو غرض ہونا چاہیئے۔اس پر دیر تک بات ہوتی رہی مگر یہ وہ زمانہ تھا کہ ابھی زبان میں اتنا بگاڑ پیدا نہیں ہوا تھا، لیکن اب الیکٹرانک میڈیا نے اردو میں اتنی اصلاح کر دی ہے کہ کم و بیش ایک اور نئی زبان وجود میں آ چکی ہے اور وضع دار لوگ جو غالب جیسے نابغہ کی زبان پر بھی گرفت رکھنے والے تھے وہ بھی اس نئی زبان کے رنگ میں رنگے جا رہے ہیں، خیر سر دست تو بات زبان کی نہیں گفتگو کی ہو رہی تھی کہ دو اجنبی، موسم کی وساطت سے بات چیت کا آغاز کر تے ہیں، مگر اب بات چیت شروع کرنے کے لئے یار لوگوں کے ہاتھ ایک اور موضوع آ گیا ہے۔اور وہ ہے کورونااب میں یہ تو نہیں جانتا کہ کورونا کے پھیلنے سے لوگ کتنے خائف ہیں یاپھر کتنے لوگ،خائف ہیں مگر یہ ضرور جانتا ہوں کہ یہ اس وائرس کا دوسرا پھیرا ہے اور جیسا کہ دنیا بھر میں کہا جارہا ہے کہ اب کی اس کی لپیٹ میں زیاد لوگ آ رہے ہیں، کہنے کو تو یہی بات ہمارے ہاں بھی کہی جارہی ہے مگر یار لوگ اسے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لے رہے، اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ سرکار کی طرف سے سارا دن چینلز پر حکمت عملی کے خلاف جو غیر محسوس چتاؤنی دی جارہی ہے اسے حزب اختلاف کی سرگرمیوں کے ساتھ مشروط کیا جا رہا ہے، اگر کورونا سے بچاؤ کے پیغام کے ساتھ یہ پخ نہ لگائی جاتی تو زیادہ مؤثر ہو تا۔ پھر یہ بھی ہے کہ ساری دنیا میں اس وائرس کا شکار ہونے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ اس وائرس کا شکار ہونے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد صحت یاب بھی ہو رہی ہے، اب یار لوگ اس مرض کے لئے بنائی اور بتائی گئی احتیاطی تدابیر کا بہت خیال رکھتے یا نہیں مگر یہ ضرور ہے کہ اس پر ہر جگہ اور ہر محفل میں بات ضرور ہوتی ہے میں نے ان لوگوں کو بھی اس پر سنجیدگی سے بات کرتے سنا ہے جو کل تک اسے ماننے کو بھی تیا نہ تھے، لیکن اس کے باوجود وہ اپنی اجتماعی سرگرمیاں ترک نہیں کر رہے، شادیوں کو موسم ہے اور کوئی دن ایسا نہیں آتا کہ کہیں سے شرکت کی دعوت نہ ملتی ہو۔ اسی طرح کی اور سرگرمیاں بھی جاری ہیں بلک ایک دن میں صبح شام دو د و تقریبات ہو رہی ہیں، جن سماجی تقریبات کی جھلک چھوٹی سکرین پر نظر آتی ہیں ان میں ان قاعد و ضوابط کا ذرا بھی خیال نہیں رکھ اجا تا مگر اس کے ساتھ جڑی ہوئی خبروں میں پورے اعتماد سے جھوٹ بولا جاتا ہے کہ ”ایس او پیز کا خیال رکھتے ہوئے یہ اجتماع منعقد ہو رہا ہے“ فارسی والے ٹھیک کہتے ہیں کہ ”شنیدہ کے بود مانند ِ دیدہ “ گویا سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ سماعت پر بھروسہ کریں یا پھر آنکھوں دیکھے پر یقین کریں، کہا کچھ جاتاہے اور دکھایا کچھ جاتا ہے، ماسک کا عالم یہ ہے کہ کسی بھی محفل میں بمشکل تین چار لوگوں کے پاس ماسک ہوتا ہے اور وہ بھی یا ایک کان کے ساتھ لٹکا ہے یا عینک کی طرح ماتھے پررکھا ہوتا ہے اور یا پھر تھوڑی کے نیچے استراحت فرما رہا ہوتا ہے۔ بلکہ سوشل میڈیا میں تو ایک صاحب کی نماز پڑھتی تصویر پوسٹ کی گئی جس میں موصوف نے سر پر ٹوپی کی بجائے ماسک پہنا ہوا ہے، یہ حال ان ماسک کا ہے جو ڈسپوزایبل ہوتے ہیں، غنیمت ہے کہ بینکوں اور کچھ بڑے سٹورز میں بغیر ماسک لگائے داخلہ منع ہے مگر اس کا کیا جائے کہ جس طرح کچھ دن تک فلنگ سٹیشنز پر موٹر بائیک والوں کو بغیر ہیلمٹ فیول نہیں دیا جاتا تھا تووہ ایک دوسرے سے ہیلمٹ مانگ کر پٹرول ڈلوا کر واپس کر دیتے تھے، یہی سلوک اب وہ ماسک کے ساتھ بھی روا رکھنے لگے ”یار ذرا اپنا ماسک دینا مجھے بینک سے پیسے نکالنا ہیں“ ایک خطر ناک اور جان لیوا مرض کے ساتھ یہ اٹھکیلیاں اس لئے کی جارہی ہیں کیونکہ اس کا ذکر اتنا ہونے لگا کہ لوگوں کے دل سے اس کا ڈر ہی نکل رہا ہے، شہروں میں صورت حال قدرے بہتر ہے مگر قصبوں اور گاؤں میں یار لوگوں کی بے فکری خوف زدہ کر دیتی ہے،اب کس کس کو وائرس یاد دلایا جائے، یوں بھی اس فائدہ نہیں ہے کیونکہ کل فراز نے کہا تھا کہ
میں کہہ رہا تھا رفیقوں سے جی کڑ ا رکھو
چلا جو درد کا اک اور تیر ، میں بھی نہ تھا

younus khayyal

About Author

1 Comment

  1. یوسف خالد

    دسمبر 16, 2020

    واہ واہ ہلکی پھلکی عمدہ تحریر — زبردست

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

کالم

ترقی یا پروموشن ۔۔۔۔ خوش قسمتی یا کچھ اور

  • جولائی 11, 2019
ترجمہ : حمیداللہ خٹک کون ہے جوزندگی میں ترقی نہ چاہتاہو؟ تقریباًہرفرد ترقی کی زینے پر چڑھنے کا خواب دیکھتا
کالم

کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی

  • اگست 6, 2019
از : یوسف خالد کشمیر جل رہا ہے اور دنیا بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہے — دنیا کی