ناروے میں بھرے مجمع میں قران کو جلاتے دیکھ کر یہودی پر جھپٹنے والا عمر الیاس، شیر دل خان ہے۔ جس نے قران اور دین اسلام سے محبت وعقیدت کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔اس چیتے کی طرح جھپٹے ہوئے شیر دل خان کی ہر اد،ا پر دل ہزاروں بار قربان ہونے کو چاہتا ہے۔ قران اور صاحبِ قران کی عزت وتکریم کی پامالی مغربی ممالک میں آئے دن کا معمول بن چکی ہے جہاں آزادی ئ اظہار کے نام پر ایسے مجرموں کو سزا دینے کے لیے کوئی پراثرقانون بھی موجود نہیں ہے، سو اسلام کی نفرتوں سے بھرے ہوئے دل دین اسلام اور شعائر اسلام کی تضحیک کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ہر چند ماہ بعد میڈیا پر ایسی کوئی خبر دیکھنے کو ملتی ہے۔ سوشل میڈیا میں ہر ایسا ناگوار واقعہ جو چند منٹوں میں وائرل ہو جا تا ہے۔ماضی میں جب سوشل میڈیا موجود نہ تھا اور ایسی خبرمسلم دنیا تک اول تو پہنچتی ہی نہ تھی اور پہنچنے بھی کئی دن اور ہفتے لگ جاتے تھے۔ ایسے واقعات بھی کثرت سے تھے جو رپورٹ ہی نہیں ہوتے تھے۔دین اسلام اور شعائر اسلام کا مذاق اڑانے کا سلسلہ یورپ کے اخبارات وجرائد اور انٹرینٹ کی ویب سائیٹس پر ایک عرصے سے جاری ہے۔گلوبلائزیش کے اثرات کے تحت جہاں مختلف کمیونٹیز ایک دوسرے کے قریب آئی ہیں اور انہیں ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملا ہے، وہاں اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کرنے والے قوم پرست ومتعصب عناصر کو بھی اپنی اندر کی خباثتوں کے اظہار کا بھرپور موقع ملا ہے۔یورپ،امریکہ میں اسے اظہار رائے کی آزادی قرار دیتے ہوئے اس پر بظاہر خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ انٹر نیٹ پر بہت سی ویب سائیٹس پر اسلام مخالف مواد اب بھی موجود ہے جس کی صفائی اور خاتمہ کے لیے تمام اسلامی ممالک کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ کچھ عرصہ قبل حضور اکرمﷺ کے خلاف فلم یوٹیوب پر جاری کی گئی تھی۔اسے بعض اسلامی ممالک کی طرف سے وقتی طور پر بلاک تو کر دیا گیا تھالیکن میرا خیال ہے کہ اس کے بعض حصے اب بھی یو ٹیوب پر موجود ہیں۔ یہ اسلام مخالف قوتوں کو اپنے ناپاک عزائم سے روکنے کا مؤثر حل نہیں ہے۔ فرانسیسی اخبار میں بھی گستاخانہ خاکوں کا سلسلہ دوبار شروع ہوا تھا۔ امریکہ، یورپ اور ا ن کا میڈیا یا انٹرنیٹ کمپنیاں ان گستاخانہ فلموں اور مواد کو آزادی رائے سمجھتی رہی ہیں۔کسی بھی مذہب یا مذہبی شخصیات کی توہین کس طرح آزادی ئ رائے کہی جا سکتی ہے۔کل سلمان رشدی ملعون، دین اسلام کے خلاف کھڑا ہواتھا۔پھر گستاخانہ خاکے اور فلمیں اس کی جگہ لیتی رہی ہیں۔اس کے پیچھے اہل یہود و ہنود اور متعصب عیسائی قومیت پرستوں کی منصوبہ بندی ہی ہو سکتی ہے۔آج کا مغرب اپنی تمام تر وسیع الظرفی اور وسیع المشربی کے دعوؤں کے باوجود اسلام سے تعصب کو بالائے طاق نہیں رکھ سکا۔نائین الیون کے بعدابراہیمی ادیان میں ہم آہنگی پیدا کرنے اور مکالمے کی ضرورت نے بار بار سراٹھایااور اس پر دونوں طرف کے سکالرز کی گفتگو بھی ہوئی اور بعض کتابیں بھی منظر عام پر آئیں مگر یہ ہم آہنگی بات چیت سے آگے نہ بڑھ سکی۔حقیقت یہ ہے کہ مغرب ایک طرف اپنی طاقت سے مشرق کو مرعوب اور مغلوب کئے رکھنا چاہتا ہے تو دوسری طرف نبی پاکﷺ اور ان کے دین کا مذاق اڑا کر مسلمانوں کی تذلیل کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتا،تاکہ یہ مرعوب لوگ، نفسیاتی اور ذہنی خلجان میں بھی مبتلا رہیں۔مغرب اسلام کو اپنی بقا کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتا آیا ہے کیونکہ اس کے نزدیک یہی دین اور اس کے پیروکار ہی قرون اولی اور قرون وسطیٰ کے دور میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور دنیا بھر کے حکمران تھے۔یقینی بات ہے کہ کوئی بھی موقع ملت اسلامیہ کو ایک بار پھر دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کی ہمت وطاقت دلا سکتا ہے۔لیکن مغربی طاقتیں ہمیں ایک دوسرے سے الجھائے رکھنا چاہتی ہیں اور اس میں ان کی کامیابی کی شرح بلند ہے۔آج دنیا کے معروضی حالات کا جائزہ لیں تو فلسطین،کشمیر سمیت دنیا کے بہت سے خطوں میں یہودی،عیسائی اور ہندو مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کئے ہوئے ہیں۔اسی حوالے سے ایک بہت بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان آخر کب تک اسی محکومی اور بے چارگی کی حالت میں رہیں گے۔مغرب کے جارہانہ عمل اور اس کے پرودرہ میڈیا کی بدمعاشی سے مسلمانوں کی حقارت اور تضحیک کا جو سامان پیدا کیا جا رہا ہے وہ نام نہاد مہذب معاشرے کے چہرے پرکہیں نہیں جچتا۔ مغرب، دنیا بھر میں پیدا ہونے والی متشدد اسلامی تحریکوں کو نہیں مانتا اور انہیں دہشت گر داور ظالم و غاصب قرار دیتا ہے لیکن اس کا اپنا طرز عمل کتنا درست اور انسان دوست ہے۔عراق اور افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے بعد اب نئے دور کے پرانے گدھ ایک طرف ایران کا گوشت نوچنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں تو دوسری طرف شام کا بند بند مضمحل اور شکستہ و پرخار کر دیا گیا ہے اور اس کے بعد دیگر اسلامی ممالک کے مستقبل کا بھی ایک بھیانک نقشہ ان کے پاس تیار ہے۔اسرائیل کے عزائم بھی اب دنیا سے ڈھکے چھپے نہیں رہے۔گریٹر اسرائیل کے لیے وہ بہت سے اسلامی ممالک کے نقشے دنیا کے نقشے سے مٹا ڈالنا چاہتا ہے۔ غزہ میں اسرائیل کے قبضہ کے ستر سال پورے ہونے پر جس طرح وہاں اسرائیلیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی شہادتیں ہوئی ہیں،اسی وجہ سے ترکی کے صدر ارداگوان نے اسرائیل پر حملے کے لیے تمام مسلم ممالک کو متحد ہو کر مقابلہ کرنے کی دعوت دی ہے۔یہ دعوت بہت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ جب تک ظالم کے ہاتھ کو پکڑ کر اسے روکا نہیں جائے گا وہ ظلمسے بعض نہیں آئے گا۔آخر میں سہلیہ سلیم کی وال سے شیر دل خان سے اظہار عقیدت کے چند ال
فاظ جو میرے سمیت آپ سب کے دلوں میں دھڑک رہے ہیں۔”وہ کسی شیر کی طرح جست لگا کر کودا،جھپٹا،ٹوٹ پڑا،لمحوں میں سارا شیطانی ارادہ خاک میں ملایااور کروڑوں مسلمانوں کے دل کی دھڑکن بن گیا،سانس لیتے کروڑوں اربوں ہیں مگر زندگی بس سانس لینے کا نام تو نہیں؟یہ تو اپنی زندگی اپنے مستقبل،اپنی دولت اپنے گھر،اپنے بچوں سے اوپر ہو کر کسی اعلی اور ارفع مقصد کے لیے جینے اور جی جان کی بازی لگا دینے کا نام ہے اور یہ وہ کر گزراامر ہو گیا،تم جیو ہزاروں سال اور تم کیا سمجھتے ہو ہم میں سے کچھ کو خرید کر باقیوں کو گمراہ کر کے تم ہمارے چیتے ختم کر دو گے؟غیرت مسلم مار دو گے؟ یہ حمیت کہیں نہ کہیں سے پھوٹ نکلے گی۔ یہ اللہ کا نورہے اور نور کی کوئی سمت ہے، نہ یہ وقت اور زمانے کا قیدی ہے۔ تم عالم اسلام کو یرغمال بناؤگے تو یہ تمہارے اندر سے اٹھ کھڑا ہو گا۔کیونکہ اسلام ہی عالم انسانیت کی آخری امید ہے اور آخری چراغ ہے اور اللہ اس کو بجھنے نہیں دے گا۔ ان شاء اللہ“