کالم

مُفت کی مسکراہٹ : ڈاکٹر اشفاق احمد وِرک

مائیکل اینجلو سے کسی نے پوچھا کہ آپ ایسی بھدی، نوکیلی اور بد وضع چٹانوں میں سے خوب صورت مجسمہ کیسے تراش لیتے ہیں؟
اس معروف مجسمہ ساز نے نہایت اطمینان سے جواب دیا کہ مجسمہ تو پتھر کے اندر موجود ہوتا ہے، مَیں تو اس کے اوپر سے اضافی پتھر ہٹا دیتا ہوں … دوستو! بالکل ایسے ہی خوشیاں، مسرتیں اور قہقہے تو ہر انسان کے اندر ٹھاٹھیں مارتے ہوئے چشمے کی صورت وجود رکھتے ہیں، بس اس کی سطح پر جمی تفکرات، بے حسی اور جھوٹی اناؤں کی برف ہٹانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم نے اپنی خوشیوں کو بڑی بڑی خواہشات یعنی عہدوں اور بنک بیلنس جیسی خواہ مخواہ کی دنیاوی آلائشوں کے ساتھ جوڑ رکھا ہے،حالانکہ یہ لطافتیں تو زندگی کی چھوٹی چھوٹی اکائیوں میں چھپی بیٹھی ہیں۔ مزاح تو زندگی کی لطیف جزئیات کو پلکوں سے چُن کر لوگوں کے ہونٹوں پر سجانے کا نام ہے۔ یاد رکھیں اس دنیا کی سب سے بڑی سچائی انسان کا مسکراتا ہوا چہرہ ہے اور اس کائنات کی سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ اس مسکراہٹ کا سبب آپ ہوں۔ کچھ عرصہ قبل برادرِ مکرم جناب حسین احمد شیرازی نے ایک ایسے رئیس سے متعارف کرایا جو کویتی دیناروں میں ارب پتی تھا۔ جب ان سے دریافت کیا گیا کہ اتنا امیر ہو کے کیسا لگتا ہے؟ تو اس نے کہا : امارت کیا ہے؟ بس بنک اکاؤنٹوں میں راتوں رات پروان چڑھتے مردہ صفرے(Dead Zeros) ہیں۔ اصل سچ تو یہ ہے کہ ایک روٹی میری ضرورت ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اس سے زیادہ کھاؤ گے تو مارے جاؤ گے۔ ایک سے زیادہ بستروں پہ سونے کے لیے میرے جسم کے ٹکڑے کرنے پڑیں گے!!!
سیانے کہتے ہیں کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ دنیا میں صرف ایک ہی ہنر لے کر آتا ہے، اور وہ ہنر ہے رونا …اسے ہنسی کے قرینوں سے آ شنا کرنا انسانی تہذیب کا کمال ہے۔ اسی ہنسی اور مسکراہٹ کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ یہ ایک ہی وقت میں دل کو فرحت، آنکھوں کو چمک، چہرے کو بشاشت اور ذہن کو طراوت بخشتی ہے۔ آپ نے کبھی غور کیا کہ جس تصویر کو لاکھوں میں خریدا گیاکیمرہ اور کروڑوں سے بنایا ہوا سٹوڈیو یادگار نہیں بنا سکتا، اُس تصویر میں مُفت کی ایک مسکراہٹ جان ڈال دیتی ہے۔ انسانی معاشرے میں رہتے رہتے ہم سے غلطی یہ ہوئی کہ:
؎ اِک دوجے نال ہسنا سی ، پر
اِک دوجے تے ہسنے پئے آں !
ہمارا خیال ہے کہ ہم نے ایک دوسرے کے اوپر بہت ہنس کے دیکھ لیا، کچھ ہاتھ نہیں آیا، اس وقت عید کا موقع ہے، تو آئیے آج سے ایک دوسرے کے ساتھ ہنس کے دیکھیں، مزہ نہ آئے تو قہقہے واپس… اس عید پہ آپ لوگوں کو جیب سے نہیں جِیب سے متاثر کر کے دیکھیں۔ لیجیے! ٹوٹی پھوٹی ہنسی کا آغاز ہماری طرف سے… مجھے یقین ہے کہ اس کو ٹوٹی فروٹی بنانے کا اہتمام آپ خود کر لیں گے۔
٭ ہماری ایک نسل، فوڈ کے لیے پینڈا کرتے کرتے مر گئی، دوسری سیدھی سیدھی فوڈ پینڈا پہ اُتر آئی ہے۔
٭ محبت اور شادی میں سب سے نمایاں فرق یہی ہے کہ محبت میں ایک اور ایک مل کے ایک ہو جاتے ہیں، جب کہ شادی میں ایک اور ایک مل کے تین ۔
٭ ہوٹل کی ملازمت میں سب سے بڑی قباحت یہی ہے کہ بندہ روٹی کھانے کے بہانے گھر بھی نہیں جا سکتا۔
٭ شادی ماں باپ کی مرضی کی ہو تو خاوند مجازی خدا ہوتا ہے، اور اپنی مرضی کی ہو تو مزاجی خدا۔
٭ روٹی کو کھانے سے قبل ، دونوں طرف سے اچھی طرح دیکھ لیں، ہو سکتا ہے اس کی دوسری سائیڈ ہی نہ ہو۔
٭ غریب آدمی کی نشانی یہ ہے کہ اس کا کوٹ تنگ ہو جائے تو وہ ڈائٹنگ کے بارے میں سوچنے لگ جائے۔
٭ پیار اور پیاز کے آنسوؤں میں نقطے کا نہیں نوعیت کا فرق ہوتا ہے۔
٭ جب شعور سے عقل کی ’ع‘ نکل جائے تو پیچھے شور ہی شور رہ جاتا ہے۔
٭ مولانا شوہر لدھیانوی کا قول ہے کہ : بیوی جیسی منھ زور گھوڑی کو صرف شاپنگ کی لگاموں ہی سے قابو کیا جا سکتا ہے۔
٭ ’تمام عمر بڑی عزت سے کھیلا ہوں۔‘ (ایک معروف کھلاڑی کا بیان) …’ عزت سے کھیلنے والوں کو الٹا لٹکا دیا جائے گا۔‘ (ایک سیاست دان کا بیان)
٭ شادی کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہے کہ اس کے بعد ہونے والی ہر شادی کسی اور کی ہوتی ہے۔
٭ پشتو فلموں کی صورتِ حال دیکھ دیکھ کے تو جی چاہتا ہے ان کا نام پُشتو فلمیں رکھ دیں۔
٭ ہمارے ہاں پیدل آدمی کے لیے مسائل ہی مسائل ہیں، جب کہ عقل سے پیدل آدمی کے لیے وسائل ہی وسائل۔
٭ ضد، دلیل کی بڑی بہن ہوتی ہے۔
٭ آپ کسی برے سے برے کام کے بارے میں سوچ کے دیکھیں ، ہمارا کوئی نہ کوئی سیاست دان مزے سے بلکہ بغیر ضمیر کی خلش کے انجام دے رہا ہوگا۔
٭ وہیل چیئر کتنی بھی خوب صورت کیوں نہ ہو ،اس سے پیدل چلنے کا ذائقہ کشید نہیں کیا جا سکتا۔
٭ غریب آدمی سے تو بکرا زیادہ خوش قسمت ہوتا ہے کہ اسے ایک عدد لیدر جیکٹ کی سہولت ہر وقت میسر ہوتی ہے۔
٭ سَو روپے کا نوٹ جتنا بھی گیا گزرا ہو، وہ پچاس کے دو نوٹوں کے برابر ہی ہوتا ہے۔
٭ تمام سیاسی لیڈر دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ آیندہ ملکی استحکام کی خاطر مل جُل کر کام کریں گے، بعد میں وہ واقعی مل جل کر کام کرتے ہیں، یعنی مِل لے کر اور جُل دے کر۔
٭ گاڑی کی پہنچ کے لیے ریلوے والے عموماً ’آمد‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں، اور مجال ہے جو انھوں اسے کبھی’ آورد ‘سے آلودہ ہونے دیا ہو۔
٭ ملازمت ملنے سے پہلے عمر، قید محسوس ہوتی ہے، اور ملنے کے بعد عمر قید۔
٭ اسلام میں ذمے داری ہے، زمینداری نہیں۔
٭ نقلی دانتوں کے بعد تو خلال کا صرف ملال ہی باقی رہ جاتا ہے۔
٭ پوری آنکھیں کھول کے سونا، دنیا کا مشکل ترین کام ہے ، ہماری قوم اس کو کتنی آسانی سے انجام دیے جا رہی ہے۔
٭ جو قومیں غور کرنا چھوڑ دیتی ہیں، دنیا ان پہ غور کرنے لگتی ہے۔
٭ کہنے لگا: یار تم نے مجھے کیسا اَن ڈیلیٹ ایبل (Undeleteable Massage) میسج بھیجا ہے۔
٭ آج کے اکثر گلوکاروں کا جوش اور حرکات دیکھ کے انھیں نہایت آسانی سے ’نلکۂ ترنم‘ کا خطاب دیا جا سکتا ہے۔
٭ اس دنیا میں کچھ لوگ مر کر بھی حیات ہوتے ہیں، اور کچھ زندہ رہ کر بھی واہیات!!
٭ یہاں تو غریب آدمی کو پسند کا تھانہ نہیں ملتا ، مرضی کا کھانا کہاں سے ملے گا؟
٭ لاہور ایک بڑا شہر ہے، جو چھوٹے لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا ہے، بلکہ اپنے حکیم جی کا تو کہنا ہے کہ کھچا کھچ لوگوں سے بھرا ہوا ہے۔
٭ ساہیوال کا پرانا نام منٹگمری تھا، جب کہ منٹگمری کا پرانا نام ساہیوال… پس ثابت ہوا کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔
ٔٔٔٔ٭ فیصل آباد کا پرانا نام لائل پور تھا، جب کہ لائل پور کا پرانا نام فیصل آباد نہیں تھا … پس یہ بھی ثابت ہوا کہ تاریخ کسی کے باپ کی نوکر نہیں!!!

younus khayyal

About Author

1 Comment

  1. یوسف خالد

    ستمبر 9, 2020

    عمدہ کالم ہے

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

کالم

ترقی یا پروموشن ۔۔۔۔ خوش قسمتی یا کچھ اور

  • جولائی 11, 2019
ترجمہ : حمیداللہ خٹک کون ہے جوزندگی میں ترقی نہ چاہتاہو؟ تقریباًہرفرد ترقی کی زینے پر چڑھنے کا خواب دیکھتا
کالم

کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی

  • اگست 6, 2019
از : یوسف خالد کشمیر جل رہا ہے اور دنیا بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہے — دنیا کی