رمضان شریف اپنی برکات ومنزلات کے ہمراہ پھر سے ہمارے درمیان موجود ہے۔اس ماہ مقدس کا پہلا عشرہ رحمتوں کا ہے اوردنیا بھر کے مسلمان اس ماہ صیام کے آغاز پر رب تعالی سے پرامید ہیں کہ وہ اپنے فضل وکرم سے اس موزی جرثومے اور اس کی تباہ کاریوں سے پوری امت کو بالخصوص اورپوری انسانیت کو بالعوم نجات دے گا۔ایک طرف رمضان شریف کی مبارک ساعتیں ہم میں امید کے پھل پھول لگارہی ہیں تو دوسری طرف ڈاکٹرحضرات اور حکومتی عہدیدار زیادہ احتیاط برتنے پر زور دے رہے ہیں،کیونکہ اعداد وشمار کے مطابق کرونا کیسسز میں پچھلےکچھ دنوں سے تیزی آئی ہے۔احتیاط کا دامن پکڑنا ہم سب پر لازم ہے لیکن یہ ماہ مقدس ایسی رحمتوں اور برکتوں والا ہے کہ ہم اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہو کر اس کو منا سکتے ہیں۔اس کی ناراضی دور کر سکتے ہیں۔ویسے بھی ملک میں زیادہ تر کاروبار بند ہیں،سکول،کالج،یونیورسٹیاں اور دیگر تعلیمی و غیرتعلیمی ادارے بند ہیں اورسماجی دوری کا پیغام ہر سطح پر دیا جا رہا ہے،تو اس وقت سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہیےاور اپنی دیگر مصروفیات و معاملات کی تحدید کرتے ہوئے،اپنا زیادہ وقت عبادت اور توبہ واستغفار میں گزارنا چاہیے۔وقت سے فائدہ اٹھانا ہماری عام لغت میں محض معاشی اور دنیاوی فضیلت وبرتری کے لیے استعمال ہوتا ہے،مگر دیکھئےکہ وقت کے ساتھ ساتھ الفاظ کس طرح اپنے معنی بدلتے ہیں۔آج جب معاشی سرگرمیاں مفقود ہیں،اپنی محنت سے بورڈ ٹاپ کرنے والے بچےبھی بے یقینی کی کیفیت میں ہیں اور شہرت کے رسیا بھی دیوار سے لگے بیٹھے ہیں،رب تعالی کو منا لینے کا نادر ویگانہ موقع ہاتھ آیا ہے۔ممکن ہے،مساجد میں نہ سہی گھروں میں مساجد کا ماحول پیدا کر لیا جائے۔ہر آدمی کے دل میں بھی ایک مسجد ہوتی ہے۔ کرونا کے آغاز سے پہلے کا آدمی ظاہری مسجد کی طرح اپنی باطنی مسجد کو بھی بھول چکا تھا۔اب اسے آباد کرنے کا سنہری موقع ہاتھ آیا ہے توہمیں اس موقع اور وقت سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔یہ موقع نادر اس لیے بھی ہے کہ شیطان اپنی ساری فورسز کے ساتھ قید ہوچکا ہے۔اب شیطان اور شیطانی طاقتیں ایک طرف اپنے پھیلائے ہوئے جال یعنی کرونا کے ہاتھوں بے بس ہیں تو دوسری طرف حکم خداوندی ایسا ہے کہ شیطان اب قیداوراضمحلال وانقباض کا شکار ہے۔اس تناظر میں اس عشرہ ءرحمت میں اگر ہم رب کی رحمت حاصل نہ کرپائےتوپھر یہ ہماری بدبختی ہو گی۔ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی پوری امت کوماہ صیام میں گناہ کی بدبختی سے بچائے ۔روزے کی حکمت و فلسفہ یہ ہے کہ انسان کے اندر تقوی و پرہیزگاری پیدا ہو جائےاور ان دونوں خوبیوں کا حصول اس ماہ مقدس میں سب سے زیادہ آسان اور سہل ہوتا ہے۔بس آدمی کو تھوڑی سی مشقت کرنا پڑتی ہے۔اگر ہم اپنی زندگی کو دیکھیں تو انسان اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ساری زندگی مشقت کرتا ہے۔سولہ سالہ تعلیم،اور ایم فل،پی ایچ ڈی ہو یا فوج،انجنئرنگ ،میڈیکل یا اور کوئی شعبہ مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے ہم سخت محنت کرتے ہیں۔ مگر یہ دنیاوی مقاصد ہیں جن کے حصول کے لیے خوب محنت کی جاتی ہے۔پیسہ لگاتے ہیں اور وقت بھی مگر جب خدا کا معاملہ آتا ہے جس کو نبھانا نہایت آسان ہے تو ہم سستی،کاہلی اور آلکسی کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔آج دنیا کے جو حالات ہیں،ہمیں اس دنیا اور اگلی دنیا میں دونوں میں کامیابی کےلیے اپنے سابقہ کردار پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔مجھے یہاں یہ لکھتے ہوئے افسوس بھی ہو رہا ہے کہ ہم میں سے بیشتر لوگوں نے ابھی بھی کچھ نہیں سیکھا۔ایک طرف لاکھوں لوگوں کے کاروبار بند ہیں،اورلاکھوں بے روزگار ہیں تو دوسری طرف وہ لوگ جن کے کاروبار کھلے ہیں اورانہوں نے اشیائے ضرورت،خصوصاکھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کر دیاہے۔کرونا ایک ٹسٹ کیس ہے۔ابھی قیامت آنا باقی ہے لیکن لالچی اورخودغرض لوگ دولت سمیٹنے کے چکر میں ہیں۔اس ماہ مقدس کے آغازپر ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا پرستی،جو پہلے ہی اضمحلال کا شکار ہے کو چھوڑ کر حقیقی معنوں میں اپنے سر بارگاہ ایزدی میں جھکا دیے جائیں۔اپنے اسلاف کے طریقوں پر چلا جائے اور رب سے اس کی رحمت طلب کی جائے۔عین ممکن ہے اللہ تعالی کو اپنی اس خسارے کے سمندر میں ڈوبتی مخلوق پر رحم آجائے اوروہ اس بابرکت مہینے کےصدقے کرونا کاعذاب ختم فرما دے۔آخر میں میرا ایک قطعہ ملاحظہ ہو۔
حق ہے نمازایسےادا کر رہے ہوں آپ
مغرب ادا ہوئی ہو،عشا کا ہو انتظار
یعنی کہ بندگی کے لیے بے قرار ہوں
دل کو بجز نماز ذرا بھی نہ ہو قرار