کالم

لاہور کا آوارہ خیال …ڈاکٹر یونس خیال : منیرفراز

ڈاکٹر یونس خیال سے دو تین برس پرانی یاد اللہ ہے ۔ اگرچہ کہ اُن سے بالمشافہ ملاقات کبھی نہیں ہوئی لیکن اِس کے باوجود میں اُن کے ہاتھوں کے لمس سے آشنا ہوں ۔ سوچئے کہ جو ہاتھ روشنی، خوشبو، پھول، محبت اور امن کے شعر تخلیق کرتے ہوں اور معاشرے کے نباض بھی ہوں وہ کس قدر لطیف و شفیق ہوں گے ۔ میں ڈاکٹر یونس خیال کے ہاتھوں کا یہی لمس اُن سے مصافحہ کئے بغیر محسوس کرتا ہوں اور می‍ں اسی تصور سے اُن کے ذہنی میلان کا اندازہ بھی کر سکتا ہوں ۔
ڈاکٹر یونس خیال صاحب سے پہلی ملاقات فیس بک پر ہوئی، تب میں کویت میں مقیم تھا اور میں نے انگریزی ادب سے امریکی شاعرہ ایلا ویلر ولکوکس کی نظم پر ایک کالم”پانچ ڈالر کی نظم” لکھا تھا، جسے رومانیہ نور صاحبہ نے اردو قالب میں ڈھالا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے بڑے خلوص سے اس کالم کو اپنی ویب سائٹ ” خیال نامہ” میں پیش کرنے کی اجازت چاہی، یہ میرے لئے اعزاز تھا میں نے اسی توسط اور بہانے سے "خیال نامہ” کا مطالعہ کیا ۔ میں نے دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب بہت سنجیدگی کے ساتھ ادب سے وابستہ ہیں وہ معیاری ادب کے قاری اور لکھاری ہیں نظم اور غزل کے ساتھ نثر نگاری میں بھی اپنی علیحدہ شناخت رکھتے ہیں ۔ یوں فیس بک پر دو چار روز بعد اشعار کی صورت اُن سے ملاقات ہوتی رہی مجھے اُن کی پوسٹ کا انتظار رہنے لگا، اس لئے کہ ڈاکٹر صاحب طویل پوسٹ نہیں لکھتے محض ایک آدھ شعر کے ساتھ ہی حاضری دیتے ہیں اور شعر بھی ایسا بولتا ہوا کہ آپ کی طبیعت بحال ہو جائے اگر آپ شعر کے قاری ہی‍ں تو آپ میں مزید کچھ پڑھنے کی آرزو پیدا ہو اور اگر لکھاری ہیں تو ایسا ہی دلنشین شعر تخلیق کرنے کا جی چاہے ۔
گذشتہ دنوں ڈاکٹر صاحب کی طرف سے مجھے دو مجموعہ کلام موصول ہوئے، ایک تو اُن کے گرائیں انشائیہ والے ڈاکٹر وزیر آغا کا مجموعہ "اک کتھا انوکھی” کا پنجابی ترجمہ اور نظموں پر تنقید، جبکہ دوسری کتاب ” تم محبت خرید لائے ہو” ہے جو سرا سر ڈاکٹر صاحب کی شاعری پر مشتمل ہے۔ یہ مجموعہ دراصل ڈاکٹر صاحب کے رفیق کار یوسف خالد صاحب کا ترتیب کردہ ہے جس می‍ں انہوں نے بڑی عرق ریزی سے ڈاکٹر یونس خیال کے وہ اشعار منتخب کئے ہیں جو ادبی حلقوں میں مقبول ہوئے ہیں اور جن سے تخلیق کار کے فکری رجحان کا سراغ ملتا ہے ۔ مجھے اس کتاب کی اشاعت اس لئے دل کو لگی ہے کہ آپ کسی شاعر کی تمام شعری تخلیق پڑھنے کی بجائے ابتداعاً اُن اشعار کا مطالعہ کریں جو خود کسی پختہ فکر تخلیق کار نے منتخب کئے ہیں ۔ کتاب کے آغاز میں انہی پختہ فکر یوسف خالد کا ایک بھاری بھرکم مضمون بھی شامل ہے جو ہر لحاظ سے ڈاکٹر صاحب کی شاعری اور شخصیت کی پرتیں کھولتا ہے ۔
میں نے ڈاکٹر صاحب کا اب تک وہی کلام پڑھا ہے جو مجھے اُن کے منتخب اشعار کے مجموعہ ” تم محبت خرید لائے ہو” کی صورت میں ملا ہے یا وہ چند اشعار جو میں نے اُن کی وال پر پڑھے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ ڈاکٹر صاحب روز صبح شعر کی تلاش می‍ں نکلتے ہیں لاہور کی سڑکوں گلیوں، چوباروں، چوراہوں، رونقوں اور ویرانیوں کا مشاہدہ کرتے ہیں اور پھر رات کی تنہائی میں اُن منظروں کو شعر کا جامہ پہناتے ہیں یوں اُن کی شاعری تخیلاتی کم اور مشاہداتی زیادہ محسوس ہوتی ہے ۔ البتہ محبت کی شاعری میں اُن کے تخیل کی پرواز محبوب کے پیرہن میں کڑھے پھول اور اُن کے تاروں کے رنگ بھی دیکھ لیتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی شاعری کے بارے میں ایک بات مجھ پر واضح ہوئی ہے اور وہ یہ کہ ڈاکٹر صاحب دماغ سے سوچتے ہیں لیکن دل کے قلم سے لکھتے ہیں اس لئے اُن کی شاعری میں شعری جذبہ پوری آب و تاب کے ساتھ نظر آتا ہے ۔ ایک اور بات، ڈاکٹر صاحب سماج سدھار قسم کی شاعری نہیں کرتے نہ وہ ثقیل شعر کہتے ہیں اُن کا شعری اسلوب دھیمے سُروں کا راگ ہے جسے آنکھیں بند اور دل کھول کر سنا جاتا ہے ۔ مجھے پہلی قرات میں ڈاکٹر یونس خیال کی شاعری کا مجموعی تاثر رومانوی لگا ہے، ہجر و وصال کے مضامین اُن کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں محبت میں اُن کے ہاں وقار اور تمکنت ہے ، دکھ کا واویلا ، نہ مسرتوں کا شور ، وہ مجھے ایک مدبر شاعر کی صورت نظر آئے ہیں ایک ایسی شخصیت جس سے مصافحہ کر کے ان ہاتھوں کی لطافت اور شفقت جذب کی جائے اور جس کی سنگت میں لاہور کی سڑکوں اور بیٹھکوں میں شعر سنے جائیں ۔ میں چونکہ لاہور میں اجنبی ہوں چنانچہ پطرس بخاری کے لاہور کے جغرافیہ سے آگاہ نہیں ہوں لیکن خیال کرتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب لاہور کے چاروں اطراف کے ادبی حلقوں میں یکساں مقبول ہیں، وہ مختلف ادبی بیٹھکوں میں بلائے جاتے ہیں، مسندِ صدارت پر بٹھائے جاتے ہیں اور خواہش سے سنے جاتے ہیں ۔
میں اب بھی فیس بک پر باقاعدگی کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کو کسی شعر، کتاب یا کسی ادبی تقریب کی روداد کے ساتھ دیکھتا ہوں، کبھی شعر سنا رہے ہیں اور کبھی کسی شعر پر والہانہ داد دے رہے ہیں ۔ ہو سکتا ہے ڈاکٹر صاحب اپنا سیاسی مسلک بھی رکھتے ہوں لیکن انہوں نے اپنے قلم کو ہمارے یہاں کے بھونڈے، بلکہ کریہہ سیاسی کلچر سے کبھی آلودہ نہیں کیا، کسی نام نہاد لیڈر کے قصیدے لکھے نہ آمریت کے گیت گائے اور نہ ہی اِن سیاسی مسخروں کی توصیف میں بذعم خود دانشور بن کر سطحی قسم کی سیاسی پوسٹیں لگائیں ۔ انہوں نے خود کو کُل وقتی ادب کے لئے وقف کر رکھا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اِن دنوں لکھنے میں دشواری کے باوجود دل چند سطریں لکھنے پر مائل ہوا ہے ۔
میں عموماً کسی شعری مجموعہ پر رائے لکھتے ہوئے مجموعے می‍ں شامل اشعار نقل نہیں کرتا، وہ آپ کو اس مختصر سی تحریر میں بھی نہیں ملیں گے، شعر مجھ پر جو تاثر چھوڑتا ہے میں اسے قلم بند کرنا کافی سمجھتا ہوں لیکن یہاں مجھے ڈاکٹر یونس خیال کی ایک مختصر نظم نقل کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے۔ آپ نے یہ نظم پڑھ کر میرے ساتھ اُس خوف کی تلاش میں نکلنا ہے جو لاہور کے آوارہ خیال اور دھیمے سُر کے شاعر ڈاکٹر یونس خیال کے اندر ٹھہر گیا ہے اور جس میں انسانی نفسیات کے ایک پہلو کا پورا جہان آباد ہے ۔
خوشیوں کو میں
دیکھ کے اکثر
خوف زدہ ہوجاتا ہوں
آخر
ایسا کیوں ہوتا ہے
میں تادمِ تحریر یونس خیال کو بس اتنا ہی جانتا ہوں، لاہور میں نو وارد ہوں، انہیں مزید پڑھوں گا تو وہ مجھ پر مزید کُھلیں گے۔
یار سلامت صحبت باقی

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

کالم

ترقی یا پروموشن ۔۔۔۔ خوش قسمتی یا کچھ اور

  • جولائی 11, 2019
ترجمہ : حمیداللہ خٹک کون ہے جوزندگی میں ترقی نہ چاہتاہو؟ تقریباًہرفرد ترقی کی زینے پر چڑھنے کا خواب دیکھتا
کالم

کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی

  • اگست 6, 2019
از : یوسف خالد کشمیر جل رہا ہے اور دنیا بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہے — دنیا کی