قلمی جنگ ِ صفّین نامی کتاب دو صحافیوں ، دو عالموں اور دو نابغوں یعنی مولانا محمد علی جوہر اور خواجہ حسن نظامی کے درمیان بحث پر مشتمل ہے نام اس کا خاصہ معنی خیز ہے ویسے تو جنگ ِ صفین شام کے علاقے میں ہوٸی یعنی حضرت علی کی فوج عراق سے شام گٸی۔حلب سے ڈیڑھ سو کلومیٹر کے فاصلے پر دریاٸے فرات کے شمال مشرق مں ایک شہر رقہ ہے اسے ہارون الرشید نے اپنا گرماٸی دارالخلافہ بھی بنایا تھا اسے مدینتہ الرشید بھی کہتے تھے یہ فرات کے کنارے پر واقع ہے یہیں صفین کا مقام ہے اور شہر رقہ واقع ہے ۔اس وقت اس شہر کی آبادی تین لاکھ نفوس پر مشتمل ہے داعش نے اسی شہر پر 2014 میں قبضہ کر لیا۔اسی شہر میں خلیفہ چہارم اور امیر شام کے درمیان گھمسان کا رن پڑا جسے تاریخ میں جنگ صفین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔دو گروہوں کے درمیان یہ جنگ صبح کے وقت شروع ہوٸی تو رات کو بھی جاری رہی اس رات کو لیلتہ الحریر کہتے ہیں۔مدرسہ شمس العلوم گھوسی میو یو پی کے مہتمم عاصم اعظمی کے مطابق حضرت علی کی فوج میں ستر بدری سات سو بیعت ِ رضوان اور چار سو دوسرے مہاجرین و انصار تھے یہ گیارہ سو ستر اصحاب ِ رسول علی کی فوج میں تھے۔
یہ ایک تلخ باب ہے جس پر لکھنا کسی مورخ کا کام ہے مگر ایک اور قلمی جنگ ِ صفین بھی ہوٸی جو ابھی پچھلی صدی میں ہوٸی یہ جنگ مولانا محمد علی جوہر اور حواجہ حسن نظامی کے درمیان ہوٸی اور اسے خواجہ حسن نظامی نے قلمی جنگ ِ صفین کا نام دیا ہے۔یہ دونوں اصحاب ہماری تاریخ اور صحافت کے نابغے ہیں مولانا جوہر نے اردو اخبار ہمدرد اور ایک انگریزی اخبار کامریڈ جاری کیا اور انگریز حکومت کے خلاف زندگی بھر جہاد کیا مگر اپنی قلم کی حرمت پر آنچ نہ آنے دی۔ وہی خواجہ حسن نظامی جو مہر علی شاہ گولڑوی سے بیعت اور گٸو رکشا کے موید تھے اور ترک قربانی گاو کتابچے کے مصنف بھی انہی دونوں اصحاب کے درمیان وہ قلمی معرکہ برپا ہوا پھر خواجہ حسن نظامی نے اسے کتابی شکل بھی دی یہ ایک ضخیم کتاب ہے خود مصنف کا کہنا ہے کہ اس میں بہت سارا مواد یا شامل نہیں کیا گیا یا اسے حذف کر دیا گیا ہے۔وہی سیدزادے خواجہ حسن نظامی جن کا کہنا ہے
”ہندوستان کے نامور بزرگ شری رام چندر جی، شری کرشن اور مہاتما بدھ کے حالات پڑھنے، ان کی طرز زندگی پر غور کرنے اور ان کی تعلیمات پر منصفانہ نظر ڈالنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے وہی حالات تھے جو سیدنا حضرت ابراہیم ،عیسیٰ اور موسیٰ کے تھے اور وہی تعلیم تھی جس کا ذکر بار بار قرآن شریف میں آیا ہے۔“
اس کتاب کے نام کے بارے میں بھی انہوں نے بتا دیا ہے کہ جوہر نے بار بار ہمدرد میں لکھا کہ حسن نظامی پر میرا حملہ صفین کی لڑاٸی ہے۔نام کی حد تک تو معاملہ صاف ہو گیا اب اس کتاب کی مندرجات اور اہمیت کا سوال ہے وہ اس سے بھی زیادہ اہم ہے۔خواجہ کے مطابق ان کا جوہر سے بنیادی اختلاف جوہر اور جوہر برادران کا مذہب کے مقابلے میں سیاست کو زیادہ اہم جاننا ہے یعنی ان دو ہستیوں کا اختلاف ذاتی نہیں علمی ہے دوٸم یہ بات کہ یہ مضامین سترہ نومبر 1926 سے لے کر 24 دسمبر 1926 کے عرصے کے دوران لکھے گٸے۔ان مضامین کی ضخامت ساڑھے چھ سو صفحات سے بھی زیادہ ہے۔خواجہ صاحب کو اعتراض یہ تھا کہ کیا سیاست کی خاطر جوہر برادران نے مسٹر تلک کی ارتھی کو کندھا نہیں دیا تھا اور رام رام ست ہے کہتے ہوٸے نہیں چلے تھے اور کٹر اسلام دشمن سوامی شر دہانند جی کو جامع مسجد کے منبر پر نہیں چڑھا دیا تھا جنہوں نے دہلی میں ہند و مسلم فسادات کرواٸے تھے۔کیا ملاپ کانفرنس دہلی کے موقع پر لاجپت راٸے جی اور نہرو جی کے سامنے نہیں کہا تھا
” اگر ہندو کعبہ کی بے حرمتی کریں اور اگر ہندو قرآن شریف کے ٹھوکریں ماریں اور اگر ہندو مولانا محمد علی کی اہلیہ کی بے حرمتی کریں تب بھی محمد علی ہندووں پر ہاتھ نہیں اٹھاٸے گا “ اس کے علاوہ اس کتاب میں جگہ جگہ خواجہ کی وہ باتیں ہیں جو آج بھی سچ ہیں ایک جگہ مولانا جوہر کو مخاطب کر کے لکھتے ہیں ” جو بندہ خدا کی مرضی کا مسخر ہو جاٸے وہ خدا کی سرکش مخلوق کو مسخر کر سکتا ہے “
یہ حقیقت میں ایک معرکتہ الارا کتاب ہے جو صحافیوں کے لیے ایک راہنما کتاب ہے شاعروں کی رہنماٸی کے لیے ہمارے عہد میں ہی ساقی فاروقی کی ہدایت نامہ شاعر ایک کتاب بھی ہے شاید ہی اس میں کچھ کام کی باتیں ہوں بس ہم عصروں کی تضحیک خوب کی گٸی ہے شاید اسی لیے انتظار حسین نے کہا تھا کہ اگر اقبال بھی ساقی فاروقی کے زمانے میں ہوتے تو خیر سے یہ اقبال کو بھی مشورے دیتے یا ان کے کلام کی تصحیح کرتے ویسے ایک شاعر تھے وزیر آباد کے سید برکت علی گوشہ نشین، ایک سکول میں استاد تھے انہوں نے ایک کتاب ”اقبال کا شاعرانہ زوال“ لکھی اور اقبال کے اشعار کی اغلاط نکالیں بھی اور درست بھی کیں اور ان کی اپنے تٸیں تصحیح بھی کی جیسے اقبال کا شعر ہے
سکوت آموز طول ِ داستان ِ درد ہے ورنہ
زباں بھی ہے ہمارے منہ میں اور تاب سخن بھی ہے
اب اس شعر کی گوشہ نشیں نے یوں تصحیح کی
سکوت آموز طولِ داستان ِ درد ہے ورنہ
زباں بھی ہے مرے منہ میں مجھے تاب سخن بھی ہے
علامہ کا ایک اور شعر دیکھیے
کشتہ ِ عزلت ہوں آبادی میں گھبراتا ہوں میں
شہر سے سودا کی شدت سے نکل جاتا ہوں میں
اس کو گوشہ نشین نے یوں لکھا
کشتہ ِ عزلت ہوں آبادی میں گھبراتا ہوں میں
شدت ِ سودا میں صحرا میں نکل جاتا ہوں میں
اس طرح کے سینکڑوں اشعار ہیں جن کی گوشہ نشین نے درستی کی۔برکت علی گوشہ نشین ہمارے دوست اور پنجابی نظم کے بڑے شاعر راجہ صادق اللہ کے والد رحیم اللہ خاں دلشاد کے کولیگ بھی تھے اور بزم ادب وزیر آباد کے سیکرٹری بھی رحیم اللہ اسی بزم ادب کے صدر تھے۔رحیم اللہ دلشاد نے ایک ادبی پرچہ دبستان کے نام سے بھی جاری کیا تھا اور سات سال تک اسے کامیابی سے چلایا۔جو ساقی فاروقی کی کتاب ہے اور جس طرح انہوں نے شعرا کے کسی شعر میں فنی سقم کی نشاندہی کی ہے اس سے گوشہ نشین کی کتاب اور شعر کے بارے میں اپروچ اور جانکاری کم از کم ساقی سے بہت بہتر ہے مگر قلمی جنگ ِ صفین میں ایک عہد ایک صدی کی تاریخ محفوظ ہو گٸی ہے اس کے مطالعے سے صحافی کی عظمت اور وقار میں اضافہ ہوتا ہے مگر اب ہمارے پاس گنتی کے کتنے لوگ ہیں جن کے دم سے صحافت کا بھرم قاٸم ہے۔ارشاد احمد حقانی نے اپنے کالموں میں ملکی حالات پر طویل بحث مباحثے کرواٸے۔اب بھی آٸی اے رحمان، حسین نقی، محمود شام، ایاز امیر اور بھی بہت سارے ہیں جنہوں نے نام کمایا اور لوگ انہیں احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن پر کسی پارٹی کی نہیں اپنے نظریات کی چھاپ ہے ورنہ جیسا مال اب وہاں دستیاب ہے اس سے توبہ ہی بھلی اور اب ہمارا واسطہ صحافت کے ایسے نابغوں سے پڑا ہے جو ایک عالم دین کے پیچھے پنجے جھاڑ کر پڑے اور پھر ان سے معافی منگوا کر خوش خوش پھرتے اور پھولے نہیں سماتے ہیں
بقول غالبؔ:
دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
یاں آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں