یہ شہر ہے کہ شہرزاد کی کہانی‘ ہر رات ایک ایک نیا تجسس‘ ایک الگ طلسم۔ نہ شہرزاد کی کہانی ختم ہوتی ہے نہ اس شہر کا حسن ماند پڑتا ہے۔ کوئی نشہ ہے کہ یہاں شمال اور جنوب سے قافلے امنڈتے رہے ہیں اور اب بھی پنجاب کے دور دراز کے لوگ اس کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں۔ لاہور اور اہلِ لاہور کا دامن اور دل‘ دونوں اتنے وسیع کہ ہر آنے والے کے لیے دیدہ و دل فرشِ راہ کیے بیٹھے ہیں۔ تین ہزار سال پرانی تاریخ کو دامن میں سمیٹے راوی دریا کے کنارے یہ شہرِ آباد‘ جس نے شمال سے آنے والی فوجوں اور لٹیروں کو بھی دیکھا اور دلوں پر مہریں ثبت کر کے چلے جانے والی نیک روحوں کے قدموں سے اٹھتی دھول کو آنکھوں کا سرمہ بھی جانا۔ اگر یہاں ایرانی گلہ بان مار دھاڑ کرنے آئے ہیں تو غزنی میں جنم والے علی بن عثمان ہجویریؒ بھی اسی شہر میں آن بسے۔ یہاں کوہ البرز کے دامن میں آباد ایران کے شہر زنجان میں جنم لینے والے میراں حسین زنجانیؒ کو بھی خوش آمدید کہا گیا؛ بغداد سے ہجرت کر کے ایران میں بسنے والی امام موسیٰ کاظمؒ کی آل اولاد کے چشم و چراغ!
سائیں دتہ سندھی کے بیٹے میاں میرؒ‘ جن کے دارا شکوہ جیسے شہزادے دیوانے ہوئے‘ نے بھی یہیں ٹھکانہ کیا۔ ایک طرف نور الدین محمد سلیم‘ جسے دنیا اور اہلِ عشق جہانگیر کے نام سے جانتے ہیں‘ کا ہیبت جگاتا مقبرہ۔ دوسری طرف اسی شہر میں اس پہ مر مٹنے والی انارکلی کا مقبرہ اور اسی کی خاطر سب کچھ تن‘ من‘ دھن وارنے والی صفوی سلطنت کے شہر قندھار میں آنکھ کھولنے والی مہر النسا‘ جسے ہم نور جہاں کے نام سے جانتے ہیں، جسے جہانگیر نے پہلے نور محل کے نام سے یاد کیا تھا‘ اسی لاہور کی خاک میں ابدی نیند سو رہی ہے۔ ہماری طرح وہ بھی اس شہرِ طلسم کی قیدی ہو کر کہہ اٹھی ؎
لاہور را بجان برابر خریدہ ایم
جان دادہ ایم و جنت دیگر خریدہ ایم
(لاہور کو ہم نے اپنی جان کے عوض خریدا ہے، بلکہ یوں کہیں کہ ایک جان دے کر دوسری جنت خرید لی ہے)
کیسے کیسے برگزیدہ شہروں میں جنم لینے والی ہستیاں یہاں آئیں اور یہیں کی ہو کر رہ گئیں۔ کیا بغداد میں پیدا ہونے والے اور شہرِ خدا‘ مکۃ المکرمہ میں کئی سال گزارنے والے پیر مکی‘ جن کا اسم مبارک سید عزیز الدین ہے اور کیا امام علی نقیؒ کی اولاد سے بابا موج دریا‘ جو پیدا تو اوچ شریف میں ہوئے مگر اس شہر کو عزت بخشی۔ ان کے مزار کے عقب میں لیک روڈ پر جہاں ایک احاطے میں ان کی ہمشیرہ فاطمہ بھی آسودۂ خاک ہیں‘ چند سال پیشتر مزار پر حاضر ہونے کا شرف حاصل ہوا اور ان کی قبر کی زیارت ہوئی۔ اس احاطے میں ایسی پُراسراریت تھی کہ بیان سے باہر ہے۔ ایسے لگتا تھا کہ وہ بی بی یہیں زندہ سلامت موجود ہیں۔ پرانی انار کلی اور جین مندر کے عین درمیان سرسبز درختوں سے بھرا کچی مٹی سے لیپا ہوا احاطہ۔ شہر کے دل میں واقع علاقے گوالمنڈی میں آرام فرما شاہ ابوالمعالی جن کے آبا تو کرمان سے تعلق رکھتے تھے مگر آپ یہاں ایک اونچے ٹبے پر محوِ استراحت ہیں اور کبوتر کے پرے کے پرے ان کے مزار پر مقیم ہیں۔
تین ہزار سالہ تاریخ کا امین شہر‘ جو اپنے کئی ناموں کے بعد لاہور ہوا‘ کوئی اسے لوپور کوئی الہاور اور کوئی لوہور کہتا ہے۔ مورخین اور ماہرِ لسانیات اس کے نام کی اصل کی کھوج میں عشاق کی طرح سرگرداں۔ عشاق کی ایک فہرست البیرونی، امیر خسر و، علی ہجویریؒ اور جامع التواریخ والے رشید الدین‘ سبھی اس کے نام کی تاریخ کھوجنے والوں کی فہرست میں شامل۔
کیسے کیسے بہادروں اور جنگجوئوں کا پایہ تخت رہا یہ شہر۔ رام چندر گپت سے شروع ہو کر محمود غزنوی، ایاز لاہوری، شہاب الدین غوری، ایبک، قباچہ، بہلول، لودھی، شیر شاہ سوری اور مہاراجہ رنجیت سنگھ تک ایک لڑی ہے جس میں کوئی کسی سے کم نہیں۔ کسی نے اس شہر کو لوٹا‘ کسی نے اسے دل میں بسایا۔ کوئی اس پر چند سال حکمرانی کر کے چلتا بنا، کوئی یہیں انار کلی بازار سے دائیں جانب اترتی چھوٹی سی سڑک پر ہمیشہ کی نیند سو گیا، جس کے چاروں جانب اس مقبرے کے مکین کی خاموشی کو نظر انداز کرتا ہوا چھوٹی چھوٹی دکانوں پر گاہکوں کی آوازوں کا شور ہے۔ اس کے عین سامنے ایک افغان کا ٹھیلا جس کے پاس اپنی طرز کا سلاد ہے۔ اسی سلاد کی پلیٹیں بھر بھر کر چوباروں پر کام کرنے والے لوگ لے جاتے ہیں‘ جنہیں یہ خبر بھی ہے کہ یہ قطب الدین ایبک کا مزار ہے، مگر انہیں اپنے روزگار کی فکر ہے۔ ایبک جیسے اور کئی بادشاہوں کی رعایا کی آل اولاد اس سے بے نیاز‘ اپنے روزگار میں مصروف ہے۔ اسی مملوک خاندان کے بادشاہ نے خراسان، عراق اور ایران سے علما اور شعرا کو یہاں بسایا اور ان کی عزت افزائی کی۔ یہیں بلبن کے بعد منگول تیمور نے اسے فتح کیا اور اپنا پرچم لہرایا۔
یہ شہر ہے کہ سمندر‘ جہاں ہر سمت سے آنے والے ندی نالے اس میں گرتے ہیں اور اس کی وسعت بڑھا کر خود گم ہو جاتے ہیں۔ ادبا اور شعرا کا مسکن یہ شہر‘ جس نے مولانا محمد حسین آزاد سے لے کر منیر نیازی تک کو خوش آمدید کہا، جنہوں نے اس کی شان و شوکت میں اضافہ کیا۔ کربلا گامے شاہ کے پچھواڑے میں مولانا محمد حسین آزاد کی قبر کی چوکھنڈی، بادشاہی مسجد کے سامنے حضوری باغ میں قیام پذیر اقبال اور ماڈل ٹائون کے قبرستان میں فیض کی آخری آرام گاہ‘ ہر جگہ جگمگ‘ ہر مقام ایک تاریخ۔ لکشمی مینشن کا رہائشی منٹو‘ جو ممبئی جیسے شہر کو چھوڑ کر یہاں آباد ہوا‘ جہاں اس کی رہائش گاہ اب بھی ایک سج دھج سے اپنا افسانہ سنا رہی ہے‘ جہاں سفید کرتے پاجامے میں منحنی اور نستعلیق منٹو رہتا تھا اور اس مینشن کے باہر کتاب کی دنیا کا معروف ادارہ، بائیں بازو کی سیاست کا علمبردار کلاسک‘ جو اب بھی لذتِ کام و دہن کا اہتمام کرنے کے ساتھ ساتھ کتابیں بیچتا اور چھاپتا ہے۔ یہیں فیضؔ اور نہرو کا دوست‘ استاد دامن بھی مقیم رہا، جس نے لاہور کو اپنی الگ آنکھ سے دیکھا اور اس شہر کے دروازے‘ کھڑکیاں‘ اینٹیں اور کنوئیں گنتا ہے کہ اس شہر کتنی اینٹیں سلامت ہیں‘ کتنی ٹوٹ گئیں، ان کے بارے میں پوچھتا پھرتا ہے ۔کتنے کنوئیں میٹھے ہیں اور کتنے کڑوے ہیں‘ کس محبت سے کس ناز سے وہ اس شہر کو دیکھے جا رہا ہے۔
یہ شہر کتنی بار اجڑا‘ کتنی بار آباد ہوا‘ شاہی قَلعے کی فصیل سے ادھر رعایا کیسے ہلاک ہوتی رہی‘ جہانگیر جو راوی کے بائیں کنارے سو رہا ہے‘ جب تخت نشین ہوا تو اس کے بیٹے خسرو نے بغاوت کر کے بادشاہ کا ناطقہ بند کر دیا، شہزادے کو قلعے سے نکلنے کی اجازت ہی نہیں تھی مگر وہ دادا اکبر کے مقبرے کی زیارت کے بہانے سے نکلا اور بغاوت کر دی۔ متھرا سے ہوتا ہوا اپنے جانثاروں کے ہمراہ لاہور کی نیت سے نکلا مگر وہ ابھی راستے میں ہی تھا کہ جہانگیر کا ایک سالار پہلے ہی یہاں پہنچ چکا تھا۔ خسرو نے اس لاہور کا محاصرہ کر لیا جس کے متعلق اس کی ماں نے کہا تھا کہ اس نے اپنی جان کے بدلے لاہور خرید لیا ہے۔ بالآخر بغاوت ناکام ہوئی، خسرو کو معافی تو ملے مگر آنکھوں میں سلائی پھیر دینے کے بعد ۔اسی خسرو نے اس شہر کے محاصرے کے وقت اپنے بدخشانی جنگجوئوں کو کہا تھا کہ شہر میں داخلے اور فتح کی صورت میں اس شہر کو سات دن تک لوٹنے کا پروانہ ہے‘ اڑا دو فصیلوں کو‘ آگ لگا دو اس کے دروازوں کو۔ مگر شہر نے سلامت رہنا تھا‘ سلامت رہا۔ بابل، شیراز، دلّی اور سمر قند کے برابر کھڑا شہر۔
یہ سطریں لکھنے والا اس شہرِ طلسم میں داخل ہوا، اس بے کنار سمندر میں آن گرا مگر کسی ندی‘ نالے کی طرح نہیں، کسی ندی نالے کی چھوٹی سی دھار کی طرح نہیں، ایک ننھے سے قطرے کی صورت، ایک بے مایہ قطرے کی طرح، جو اس کے حسن کا اسیر ہے، جو اس کی تاریخ پر فدا ہے، جس کا نام اس کے عشاق کی فہرست میں سب سے نیچے، سب سے آخر میں ہے، جو اس شہر سے اتنی ہی محبت کرتا ہے جتنی استاد دامن کرتا ہے، جس نے ہمدم کے قلمی نام سے لازوال گیت لکھا ”نہ میں سونے دی‘ نہ چاندی دی‘ میں پتل بھری پرات‘ مینوں دھرتی قلعی کرا دے‘ نچاں میں ساری رات‘‘۔ جو اس کی ایک ایک دانش گاہ‘ ایک ایک باغ کا والہ و شیدا ہے، جو اس کے اہل علم و دانش کا قتیل ہے‘ جو صبح شام اس شہر کے مزاروں کو آباد دیکھتا ہے، وہ اس علم، روشنی، تاریخ، کلچر اور تہذیب کے سمندر میں کسی ندی اور کسی جوئے بار کی طرح نہیں داخل ہوا، وہ ایک نا معلوم قطرے کی طرح اس میں گرا ہے اور وہ بھی یوں کہ نہ اس سمندر میں کسی قسم کا ارتعاش پیدا ہوا نہ اس سمندر کی چادر میں کوئی سلوٹ نمودار ہوئی مگر وہ استاد دامن کی طرح اس کی دیواروں اور گھروں کی اینٹیں گن رہا ہے کہ ان میں سے کتنی سلامت ہیں اور کتنی ٹوٹ گئی ہیں، کتنے کنوئیں میٹھے ہیں اور کتنے کڑوے مگر اسے جس کنوئیں پر جانے کا اتفاق ہوا وہ میٹھا تھا، میٹھا اور شہد جتنا میٹھا!
اقتدار جاوید
ستمبر 10, 2020شکریہ برادر