لہو ٹپکا کسی کی آرزو سے
ہماری آرزو ٹپکی لہو سے
ساری عمر چچا فرصت کے دن ڈھونڈتا رہا کہ اس ڈومنی کے تصور میں بیٹھا رہے جس کے بارے میں اسے کہنا پڑا
زہر لگتی ہے مجھے آب و ہوائے زندگی
یعنی تجھ سے تھی اسے نا سازگاری ہائے ہائے
چچا غالب کو بھی ایسی فرصت کہاں ملنی تھی اور پھر جب چچا کو فرصت نصیب ہوٸی تو کہہ اٹھے
گیا ہو جب اپنا ہی جیوڑا نکل
کہاں کی رباعی کہاں کی غزل
پھر جب ان کے نواسے نے ان کی جیب ٹٹولی کہ کچھ نقد مل سکے تو کیسی بے بسی سے پکار اٹھے تھے جیسے آب حیات میں قصہ مذکور ہےکہ حسین علی خان (عارف کا چھوٹا بیٹا) نے ضد کی اور کہا کہ دادا جان مٹھاٸی منگوانی ہے اور اسی غرض سے دادا کی جیب کو دیکھ رہا تھا تب کہا
درم و دام اپنے پاس کہاں
چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں
انہی یتیم بچوں کے لیے مثنوی قادر نامہ لکھی گٸی تھی۔جس کے بارے میں چچا فرماتے ہیں
جس نے قادر نامہ سارا پڑھ لیا
اس کو آمد نامہ کچھ مشکل نہیں
احسن اللہ خان بیان کا دیوان بیان مرتب کردہ انجمن آراء 1909 مطبع انجمن ترقی اردو ہند دہلی مطبوعہ 2004 میں یہ شعر کچھ یوں موجود ہے
دل اب اس دل شکن کے پاس کہاں
چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں
گویا یہ احسن اللہ خان بیان کا شعر ہوا اور چچا نے اس پر گرہ لگاٸی کہ خواجہ کا سن پیداٸش 1727 اور وفات کا سن 1797 ہے۔یہی چچا کا سن ولادت ہے اور آگرہ کا مقام ہے۔ حکیم احسن اللہ خان مظہر کے شاگرد اور فغاں کے دوست تھے اور مثنوی چیخ نامہ کے خالق بھی۔انہوں نے ہی کہہ رکھا ہے
لہو ٹپکا کسی کی آرزو سے
ہماری آرزو ٹپکی لہو سے
اور
سیرت کے ہم غلام ہیں صورت ہوئی تو کیا
سرخ و سفید مٹی کی مورت ہوئی تو کیا
چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں ضرب المثل ہے یا بیان کے کہنے کے بعد ضرب المثل ہوٸی ہے معلوم تو ہو۔
ایک چچا کے دوست اور مربی حکیم احسان اللہ خان تھے یہ آخری تاجدار دہلی کے وزیر تھے اور ان کے متعلق چچا نے یوں لکھا ہے مبارک وزیر کار آگاہ، ستودہ مذہب اور گرامیِ رازداں، خوش اخلاق،ضمیر کے اعتبار سے لوحِ محفوظ کی مثال اور گراں مایہ ہونے میں عقل اول کا ہم سر، کیواں جیسا بلند خیال، مشتری جیسی عقل و دانش والا، برجیس ہوش، عطارد جیسی طاقت کا مالک، ارسطو مرتبہ افلاطون کی سی عقل والا،احترام الدولہ، معتمد الملک، حاذق الزماں، عمد ۃ الحکماء حکیم احسن اللہ خاں ثابت جنگ’۔ان پر سب سے بڑا الزام ہےحکیم احسن اللہ خاں پر سب سے سنگین الزام حویلی ثمرو بیگم (چوڑی والان، دہلی)میں انقلابیوں کے بارود خانہ میں آتش زنی کا ہے۔ اس دھماکہ میں 500 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
غالب کے بزرگ مرزا فرقان بیگ سمر قند سے لاہور اور پھر لاہور سے دہلی اور دہلی سے آگرہ پہنچے۔
چچا ہمیشہ کراٸے کے مکاں میں رہے میاں کالے خان کے مکان میں بغیر کراٸے کے رہے۔یہ وہی کالے خان ہیں جو چچا کو انگریز کی قید سے چھڑوا لاٸے تھے اور چچا پر اپنے گھر میں جوأ کھلوانے کا الزام تھا جب واپس آٸے تو ایک صاحب نے مبارک دی کہ قیدسے چھوٹے چچا بولے کون کم بخت قید سے چھوٹا ہے پہلے گورے کی قید میں تھا اب کالے کی قید میں ہوں۔
مودودی نام سے ہماری واقفیت تو سید ابو الاعلیٰ مودودی کی وجہ سے تھی۔سید صاحب اورنگ آباد میں پیدا ہوٸے مگر ہم جس مودودی کی بات کر رے ہیں وہ احمد حسن خان مودودی ہیں اور چچا کے دوست ہیں اور ان سے چچا کا خط و کتابت کا تعلق بھی تھا۔
کیسی فرصت ہے کہ اسی دوران میں ہمیں چچا کے ایک بھانجے مرزا مرزا عباس بیگ سے تعارف ہوا جو لکھنو میں ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر تھے اور انہی کی فرماٸش پر مثنوی دعاٸی صباح لکھی گٸی۔ چچا جان تھے تو بادشاہوں کی آل اولاد۔برکیاروق سلجوقی کا خالص خون کیسے نچلا بیٹھتا۔قوقان بیگ لاہور میں نواب معین الملک بہادر کے ملازم ہوٸے چچا کے والد عبداللہ بیگ الور میں راو بختاور کے پاس پہنچے اور وہیں میدان جنگ میں کام آٸے۔چچا دو بھاٸی اور ایک بہن چھوٹی خانم اور بھاٸی یوسف
دی مرے بھائی کو حق نے از سر نو زندگی
میرزا یوسف ہے غالبؔ یوسف ثانی مجھے
خانم خان سے اور بیگم بیگ سے ہے۔میڈم کو بھی فارسی والے خانم کہتے ہیں۔ یوسف ثانی کا ذکر اقبال نے بھی اپنی نظم التجاٸے مسافر (بہ درگاہ حضرت محبوب الہی دہلی)میں کیا ہے
وہ میرا یوسف ثانی وہ شمع محفل عشق
ہوٸی ہے جس کی اخوت قرار جاں مجھ کو
حضرت محبوب الہی کا ایک لقب زری زر بخش بھی ہے۔اور پیڑھی پندرھویں پیڑھی پر حضرت علی کرم اللہ وجہ اللہ سے ملتی ہے۔ اقبال نے جس یوسف ثانی اور شمع محفل عشق کہہ کر بات کی ہے یہ وہی ہیں۔زری زر بخش ہونے پہلے جب پاکپتن پہنچے تو بے اختیار ہو کر کہہ اٹھے
اے آتش فراغت دل ہا کباب کردہ
سیلاب اشتیاقت جان ہا خراب کردہ۔
اب فارسی کا ذکر چلا ہے تو کچھ ان فارسی شعرا کا بھی تذکرہ ہونا چاھییے جو چچا کے جدا امجد کے زمانے میں جواہر ریزیاں کرتے رہے۔
فارسی کلاسیک شاعری کے دس ادوار ہیں جن میں طاہری،صفاری،سامانی،غزنوی،سلجوقی،ایلخانی،تیموری،صفوی،مغلیہ اور قاچاری شامل ہیں۔صفاری برتن قلعی کرنے والوں کو کہتے تھے۔
چچا کا نسب جس سلجوقی بادشاہ برکیاروک سے ملتا ہے اس کا لقب سلطان ابو المظفر رکن الدین والدنیا اور اس کا عہد 1094 تا 1105 عیسوی ہے۔ بنو عباس کے بعد سلاجقہ آخری مسلم حکمران تھے جن کے پرچم تلے ایک وسیع سلطنت تھی۔آخری سلجوقی بادشاہ احمد سنجر تھا جو بارہویں صدی کے وسط تک برسراقتدار رہا اس عہد کے ممتاز فارسی شاعر عمر خیام عنصری فردوسی اور کٸی اہم نام ہیں۔
چچا کو اپنے شاگردوں میں میر مہدی مجروح سے بہت پیار تھا اور انہیں اپنا بیٹا ہی کہتے تھے مجروح کے والد میر حسین فگار بھی چچا کے شاگرد تھے
ایک راو وہ تھا جو الور میں تھا اور چچا کے والد اس کے وہیں کسی لڑاٸی میں کام آٸے تھے ایک اور بھی راو تھا جس نے وزیر غازی الدین کے ایما پر بادشاہ کی آنکھیں نکال دی تھیں اس کا نام ملہار راو تھا وہی بادشاہ جس کی بابت میر نے کہا
شہاں کہ کحل جواہر تھی خاک پا جن کی
انہیں کی آنکھ میں ہھرتی سلاٸیاں دکھیں۔
اسی غزل کا مطلع ہے
جفائیں دیکھ لیاں بے وفائیاں دیکھیں
بھلا ہوا کہ تری سب برائیاں دیکھیں
اب لیاں بھی غور کریں تو محمود شیرانی یاد نہ آٸیں کہ اردو پنجابی اور پنجاب سے نکلی ہے۔اور علم اللسان میں پراٹو انڈین روٹ کے مطابق انگریزی الفاظ اسی پنجابی سے نکلے ہیں جیسے Nose ناس سے متھ Mouth سے Mouth منہ سے،ڈکشنری دیکھن سے،Matter ماہ سے، Son سونے سے یعنی جنم لینے سے۔وہ تو اس کا ماخذ سنسکرت بتاتے ہیں مگر ہمارا تھیسز تو پنجابی زبان کے حق میں ہے۔چچا نے اس موضوع کو نہیں چھیڑا۔
چچا لہجے کا قاٸل نہ تھا کہتا تھا اساتذہ کا تتبع کرو لہجے کے پیچھے مت دوڑو
کوٸی بھور پتاسے نی
چِھک تصویر گِھناں تیڈے نِکے نِکے ہاسے نی
چچا ایسے لہجے اور اس کی مٹھاس کو جان سکتا اگر وہ گھیبی لہجے کو جانتا۔یہ گھیبی لہجہ نوے سو کلومیٹر کے ریڈیس کو جکڑے بیٹھا ہے جو بستی شاہ کمال شیر جنگ، کھوڑ اور کامرہ میں اور گاڑھی ہو جاتا ہے۔
مگر خدا لگتی کہوں چچا آدمی بہادر تھا دیکھو اس وبا میں میں گھر میں دبکا پڑا ہوں باہر نکلنے کا یارا نہیں اور موت سے چھپتا پھر رہا ہوں ہمارے دوست عباس مرزا کہتے ہیں کوٸی ایسی بلا ہے جو آدم آدم بو کا آوازہ لگاٸے جاتی ہے اور ایک چچا کہ میر مہدی مجروح کو مکتوب میں لکھتا ہے تف ایسی وبا پر جو ایک بڈھے اور ایک بڑھیا کو نہ مار سکی۔جیو چچا بہادر!!