اِس دفعہ بھی عید دادو کے گھر مناٸیں گے نا اب میں اس معصوم کو کیا بتاتا کہ اس انہونی نے عید کا تصور ہی تبدیل کر دیا ہے نہیں ہم عید پر یہیں ہوں گے یہ کیا بات ہوٸی اس ننھی جان نے منہ بسورتے ہوٸے پوچھا وہ دادو تو پانچ سال ہو گٸے انتقال کر گٸیں تھیں دادا ابو تو ہیں نا وہاں نہیں وہ بھی تٸیس برس ہو گٸے آسودہ خاک ہوٸے چلیں ان کا گھر تو ہے نا گھر کے ساتھ متصل ان کی قبروں کا ایک بڑا سا احاطہ تو ہے نا وہاں سیڑھیاں بھی تو ہیں جہاں سارے جوتے اتار کر اوپر جاتے ہیں اور فاتحہ پڑھتے ہیں۔ہر برس عید بقرعید پر ہمارے گھر میں اسی قسم کی گفتگو ہوتی مگر ایسی باتیں اس عید پر گھر میں نہیں ہوٸیں۔
عید ہم نے کبھی شہر میں مناٸی ہی نہیں تھی ادھر رمضان کا دوسرا عشرہ آتا کپڑوں کی تیاری شروع ہو جاتی وہی رولا اور وہی چخ چخ۔۔بھٸی مجھے کپڑے نہیں خریدنے اتنے کپڑے شلوار قمیضیں موجود ہیں مگر گھر والے کہاں ماننے والے ہیں فوراً ہی بیگم کی آواز آتی کوٸی ڈھنگ کا سوٹ تو آپ کے پاس ہے نہیں اوپر سے عید بقرعید پر ایسا شور مچاتے ہیں ۔آپ نہیں سمجھیں گے کبھی مگر اس دفعہ عجیب عید آنی تھی اس عید پر یہ گفتگو بھی نہیں ہوٸی کہ اس واٸرس کی وجہ سے ایک تو ہم سب ویسے ہی گھروں میں بند تھے اور مسجد تک جانے کی ایک قسم کی ممانعت تھی اب یہ بھی پتہ چل گیا تھا کہ عید بھی یہیں مناٸے جاٸے گی۔یہ پہلی عید تھی جو ایک سوگواری کے عالم میں قریب آ رہی تھی۔نہ بیگم نے کہا کہ عید کی شاپنگ کرنی ہے نہ گھر میں کوٸی شور تھا نہ ہنگامہ بس جیسے تیسے عید کا انتظار تھا۔
میں تو ایک کمرے میں جسے بند پڑا تھا اور طبیعت بھی بہت بوجھل تھی اور دو طرح کی پریشانیوں میں دن کٹا تھا۔ جہاز کے کریش ہونے کی وجہ سے دل میں ہول اٹھ رہے تھے کمرے میں بند ہونا تو کوٸی اچنبھے والی بات نہیں تھی کہ ان حالات میں جینا مرنا سیکھا تو نہیں خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑا ہوا ہے کہ نہ حکومت نے کوٸی بات سمجھنی ہے نہ عوام نے کچھ سیکھنا یا ہدایات پر عمل کرنا ہے۔
حکومت کا کہنا تھا اور مسلسل کہے جا رہی تھی کہ اپریل کا مہینہ ہلاکت خیز ہو گا اپریل ویسے بھی بڑا ظالم ہوتا ہے ۔
اپریل گزر رہا تھا اور ہمیں مٸی کے ڈراوے دینے شروع ہو گٸے اس دوران کرونا سے ہلاکتوں میں بھی اور دہشت میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا تھا ہماری حالت وہی نہ جاٸے ماندن و پاٸے رفتن والی تھی اس دوران ہمارا ایک قرنطینہ سنٹر دیکھنے کا بھی اتفاق ہوا وہاں پر موجود دوست نے بتایا کہ اب ایک بھی مریض داخل کرنے کہ گنجاٸش نہیں ہےاور مریض ہیں کہ ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے ہمیں کرونا وارڈ میں جانے کااتفاق تو نہیں ہوا مگر وہاں لوگوں نے بتایا کہ میڈیکل سٹاف اپنی پوری صلاحیتیں بروٸے کار لا کر اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔یہ ایک اطمینان بخش بات تھی کہ ایک لگن اور کمٹمنٹ کا مظاہرہ ہے مگر حکومت کہ Herd immuniyty والی بات حلق سے نیچے نہیں اتر رہی تھی۔
عید کے دن ہم اپنے بہن بھاٸیوں سمیت گاوں میں ہوتےہیں وہاں ہماری سب سے بڑی عیاشی علی الصبح اٹھ کر ماں باپ کہ قبروں پر حاضری ہے
علی الصباح مرداں چوں کاروبار روند
بلاکشان ِ محبت بہ کوٸے یار روند
جب ابھی فجر کی اذان نہ دی گٸی اور اندھیرا اپنے دبیز کمبل کو ذرا ذرا سا سرکا رہا ہو افق کی سرمٸی جھالر ساکن ہو اور گھر میں لگے ملک ِ چین کے برگد کے پیڑ پر ابھی پرندے سو رہے ہوں البتہ کبھی کبھی پروں کو ہلاتے ہوں سامنے والی سڑک سارے دن کے شور سے تھک کر خاموش ہو کر سوٸی پڑی ہو اور والدین کی قبروں والے احاطے کے روشنی ٹھنڈی اور پراسرار ہو اس وقت خاموشی کے ساتھ ماں باپ کی قبر پر دو آنسو بہانے سے بڑی اس دنیا میں اور کیا نعمت اور کیا عیاشی ہوسکتی ہے۔۔جب پو پھٹے تو حافظ یاسین اپنے آٹھ دس طلبا کے ساتھ وہاں ختم قران کے لیے آ جاٸیں پرندے پر جھاڑنے لگیں اور دربار سے متصل مسجد سے اذان فجر کی آواز آٸے اور نمازی حضرات گھروں سے نکلیں اس سے زیادہ کون سی گھڑی نشاط آور ہو سکتی ہے۔قبروں کے احاطے طلبا کی تلاوت کی آواز کے ساتھ گھر میں ان کے لیے خوردونوش کا انتظام شروع ہو جاتا ہے۔ پہلے سب مل کر پڑھتے ہیں مگر جب قرآن کے تیس پاروں کی تلاوت مکمل ہو جاتی ہے تو حافظ صاحب کی دعاٸے مغفرت کے ساتھ یہ طلسم ختم ہو جاتا ہے طلبا وہاں سے ایسے ہی بھاگتے باہر نکلتے ہیں جیسے سکول سے چھٹی کے وقت مگر اس دفعہ یہ نعمت اور یہ عیاشی کرونا نے ہم سے چھین لی تھی اب میرا کمرہ تھا اور وہی بے چارگی کے عالم تھا جس سے وہ دو دن قبل دوچار ہوا تھا۔
ایک ایر بس جو ایک عام پرواز کے لیے روانہ ہوٸی تھی موت کی پرواز بن گٸی عین رن وے پر پہنچنے سےوہ پہلے کریش کر گٸی۔اب اس کے متعلق سو کہانیاں تھیں اور سو توجیہات۔
سب سے پہلے تو رہ رہ کے شہباز گل کی طرف دھیان جا رہا تھا کہ کتنا بہادر انسان اور پروفیشنل آدمی تھا جس نے ایک سال میں پرواز کے ایک ہزار گھنٹے مکمل کیے تھے اور اوور آل ستر ہزار گھنٹوں کی پرواز اس کے ریکاڈر پر تھی۔وہ پوری طرح مطمٸن تھا اور بار بار کہہ رہا تھا کہ وہ آرام سے لینڈنگ کر لے گا۔ایک کہانی یہ ہے کہ جہاز کے پہیے نہیں کھل پاٸے تھے اور اس نے بیلی لیڈنگ کی کوشش کی مگر رن وے پر پیچز کی وجہ اس نے جہاز کو پھر اوپر اٹھا لیا۔بی بی سی کے مطابق اس المیہ کے تین بنیادی کردار ہیں شہاز گل اس کا معاون پاٸلٹ اور نامعلوم ایر ٹریفک کنٹرولر۔نامعلوم وہ کیسے ہو سکتا ہے آخر وہ کون تھا جو ہدایات دے رہا تھا جب ساری گفتگو ریکارڈ ہو رہی ہو تو وہ کیسے نامعلوم ہو سکتا ہے یہ ایک قسم کی جرم کی پردہ پوشی کے برابر ہے یہ بھی اتنا ہی بڑا جرم ہے۔دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونا چاہیے کہ آخر وہ کون تھا اور تکنیکی امور کے تفتیش کے ساتھ ساتھ اس کو بھی سامنے لایا جانا چاہیے۔مسافر کیسے کسے ارمانوں کے ساتھ اپنے پیاروں کےساتھ عید کے چند دن گزارنا چاہتے تھے مگر موت نے مہلت نہ دی۔ایر ہوسٹس انعم اور پاٸلٹ نے شام تک واپس پہنچنا تھا مگر واٸے قسمت ایسا بھیانک حادثہ ہو گیا۔کیسے کیسے طریقوں سے موت نے اپنے گھیرے میں لیا۔ان میں حافظ احسان کو دوسرے مسافروں سمیت کیسے موت کھا گٸی۔اب تک پی آٸی اے تیرہ فضاٸی حادثوں کی تاریخ سے بھری ہوٸی ہے۔یہ پی آٸی اے کہ کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے شنید ہے اس ادارے میں میرٹ نام کی کوٸی چیز نہیں اک لوٹ سیل کا پرگرام ہے جس کے ہاتھ جو لگا وہ اسے لے کر چلتا بنا۔خاقان عباسی کی ذاتی نجی ایر لاٸن اس کے خون پی کر پلی بڑھی ہے اور یہ حقیقت ہرکسی کے علم میں ہے۔
عید سے ایک دو دن قبل اخبار اور روزنامے بسوں کے اڈوں اور ریلوے سٹیشنوں پر پردیسیوں کے گھروں کی جانب جانے اور لوٹنے کی تصویروں سے بھرے ہوتے تھے مگر اس دفعہ یتیم خانے اور بادامی باغ کے اڈوں کی خاموش، ویران اور اداسی بھرے خالی بنچوں کی تصویریں ہی نظر آٸیں اور ہو کا عالم ہی نظر آیا نہ کسی پردیسی نے عید کے دن گھر جانا تھا کہ وہ تو لاک ڈاون کی وجہ سے ایک ڈیڑھ ماہ پہلے ہی گھروں کو واپس جا چکے تھے۔اب اخبارات کے صفحوں پر خالی ٹرمینلز تھے اور خالی ٹرمینلز کی تصویریں۔سو ایک دوسرے کو سوشل میڈیا کے ذریعے عید مبارک کہی اور وصول بھی کی۔نہ مصافحہ نہ معانقہ نہ مسجد نہ میٹھی سویاں ۔ہم نے پہلی دفعہ دوستوں عزیزوں اور رشتہ داروں سے عید نہ مل پاٸے اور والدین کی قبروں والی درگاہ پر دو اشک بہانے نصیب ہوٸے۔الطاف علوی کے ہاں البتہ ایک دوستوں کا اکٹھ ہوا وہ بھی اس قدر پروٹوکول کا مارا اکٹھ تھا بس انتہاٸی احتیاط اور فاصلے فاصلے سے ایک دوسری کی طرف کھانے کی چیزیں سرکاتے رہے۔
عید سے ایک دن قبل رویت ہلال کا جو قضیہ اور بحث مباحثہ تھا اس نے اس سوگواریت میں مزید اضافہ کیا اور آخر کار چوہدری فواد اپنی مرضی کا چاند چڑھا کر رہے۔رات ہو چلی تھی لوگ گھروں میں تراویح کی اداٸیگی کے بعد سونے کی تیاریوں میں تھے کہ ایک دوسرے کو فون کے ذریعے چاند نظر آنے کی اطلاع دی گٸی ۔پہلے لڑکے بالے پٹاخوں کی مدد سے عید کا اعلان کر دیتے تھے مگر اس دفعہ تو وہ دکانیں پہلے ہی سے لاک ڈاون کی وجہ سے بند تھیں لہذا رات پٹاخ پٹاخ کی آوازیں بھی نہ سنیں اور عید کا سوگوار دن میں سوگوار خاندانوں کے دوستوں اور بزرگوں کے گلے شکوے سنتے گزارا وہ مجید نظم نے کیا کہا تھا
وہ رت اے ہمنفس جانے کب آٸے گی
وہ فصل دیر رس جانے کب آٸے گی
یہ نو نمبر کی بس جانے کب آٸے گی
اور شہباز گل پاٸلٹ کے والد نے کیا کہا ہے
اے گندی نالی کے کیڑو اے گند کھا کھا کر پیٹ بھرنے والو بولو وہ رت کب آٸے گی یا ایسے ہی گند کھا کھا کر پیٹ بھرتے رہو گے۔
دونوں کا بین السطور پیغام ایک ہی تھا سو یہی سو توجیہات کی اول اور آخری توجیہ ہے۔