برِ صغیر میں سبالٹرن مطالعات کی تاریخ میں رنجیت گو ہا کاشمار،اِس مکتبہ فکر کے نمایاں مؤرخین میں ہوتا ہے۔ان کا تعلق بنگال کی سر زمین سے ہے لیکن ۱۹۵۹ء میں وہ برطانیہ گئے اوروہاں یونیورسٹی آف سُسکس(Sussex)سے منسلک ہوئے۔کچھ عرصہ امریکہ میں بطور اقتصادی مؤرخ بھی کام کیا۔جب اُن کی ہندوستان واپسی ہوئی تو اقتصادی تاریخ نویسی سے ان کا جی بھر چکا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح کے تاریخ نویس چند اشخاص سے ملتے ہیں ،بنیادی اعداد و شمار اکٹھے کرتے ہیں اور ان میں ربط پیدا کر کے اپنا مقالہ تیار کر لیتے ہیں،جس کا سماجی اور معاشرتی سطح پر کوئی اثر رونما نہیں ہوتا۔یہ تحقیق اُسی صورت نتیجہ خیز ہو سکتی ہے جب اقتصادی تاریخ نویس اپنے مضمون میں وسیع تجربہ رکھتا ہواور جاندار اقتصادی فلسفیانہ نظریہ اخذ کرنے کی صلاحیت کا حامل بھی ہو، مگر اکثر ایسا نہیں ہوتااوروہ اعداد و شمار کا محکوم بن کر رہ جاتا ہے۔ اس طرح میکانکی انداز میں تاریخ کو بیان کر دینا رنجیت گوہا کے نزدیک درست نہیں تھا۔ابھی تک ہندوستان میں تاریخ نویسی کے ضمن یہی ہوتا آیا تھا۔اقتصادی تاریخ نویسوں نے خود کو خاص اقتصادی حدود میں مقید کر لیاتھا۔گوہا نے تاریخ نویسی کا قدرے مشکل اور پیچیدہ راستا اختیار کیا ۔ویسے بھی برطانیہ اور امریکہ میں قیام کے بعد ان کا رجحان دانشورانہ تاریخ کی جانب مبذول ہو چکا تھااوراب وہ محض اقتصادیات کے بجائے بین العلومی مطالعات کے حامی بن چکے تھے۔ انھوں نے بشریاتی اور تہذیبی مطالعات میں بطورِ خاص دلچسپی ظاہر کی تھی۔ان کی تحریریں اس بات کی بھی غماز ہیں کہ انھیں ادبیات سے بطورِ خاص رغبت تھی۔ان کے بعض ناقدین نے تو ان پر یہ الزام بھی دھردیا کہ ان کی تحریریں ادبی ہو چکی ہیں اور وہ متن کو حد سے زیادہ اہمیت دینے لگے ہیں،جوتاریخ نویس کو زیب نہیں دیتا ۔
رنجیت گوہا نے ہندوستانی قومیت سے متعلق متعدد سوالات اٹھائے مثلاً گاندھی اور ہندوستان کی قومی تحریک سے متعلق یہ سوال اٹھایا کہ گاندھی نے جن نظریوں کوسیاست کا حصہ بنایاوہ نظریات اس قومی تحریک میں کیوںسرایت نہ کر سکے،جس کی گاندھی قیادت کر رہے تھے۔گاندھی عدم تشدد کے قائل تھے لیکن گاندھی کی قیادت میں چلنے والی تحریکوں میں لوگوں نے تشدد کا راستا اختیار کیا۔رنجیت گوہانے دیکھا کہ علاقائی سطح پر پیدا ہونے والی ہر تحریک تشدد پر اختتام پذیرہوتی ہے ،جس کی مثال چورا چوری کے واقعہ سے دی جا سکتی ہے اور یہی انجام تحریک ِ عدم تعاون اورسول نافرمانی کا بھی ہوا۔گوہا نے گاندھی کی عدم تشدد کی تحریک اور ہندوستان میں نکسل باڑی تحریک کاتقابل کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ علاقائی تحریکوں میں لوگوں کا تشدد اس ذلت اور رسوائی کا نتیجہ ہوتا ہے جس میں اکثریت عرصے سے مبتلا چلی آرہی ہوتی ہے۔مختلف باغی تحریکوں کے اعدادو شمار کے تجزیے سے انھوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ بے عزتی اور بلاوجہ کی رسوائی آگے چل کرتشدد میں ڈھل جاتی ہے۔ان کے خیال میں بے عزتی کرنا بذاتِ خود ایک طرح کاتشدد ہے جو ردِ عمل کے طور پر تشدد پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔کوئی بھی سیاسی تحریک صدیوں سے مذموم، مقہور اور مجبور انسانوں کو ذلت کا بوجھ اتارنے کا موقع فراہم کر دیتی ہے اور عوام ہر طرح کے ضابطوں کو توڑ کرآزادی محسوس کرتے ہیں ۔ایسی صورتِ حال میں اگرانھیں ’’اہنسا ‘‘کا سبق دیا جائے تووہ اسے دھیان میں نہیں لاتے۔اسی لیے گاندھی کا اہنسا کا تصور تشدد آمیز واقعات کو روکنے میں ناکام رہا۔ہندوستان میں عدم تشدد نہیں بلکہ تشدد بھی موجود ہے جو ہندوستانی کلچر کی جڑوں میں پیوست ہے ۔ایسا کیوں ہے ،اس کے اسباب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔انھوں نے اپنے متعدد مقالوں میں اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ہمیں دیہی معاشرت کے نظام میں تشدد کی اس روایت کو ہندوستانی ادبیات اور مذہبی نظریات میں دریافت کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ہندوؤں کے دھرم شاستروں میں تحکم اور بالا دستی کا نظام موجود ہے،ان شاستروں میں راجا اور پراجا، گرو اور ششیا ،زمین دار اور رعیت کے رشتے حاکم اور محکوم کے رشتوں پر استوار ہوئے ہیںاور ان رشتوں میں تحقیر اور تشدد کا عنصر موجود ہے۔
سبالٹرن مطالعات کی اس روایت کو ہندوستان میںپروفیسر شاہد امین نے آگے بڑھایا اور بیسویں صدی میں مشرقی یو پی کے کسانوں کی حالت،چورا چوری کے واقعے پر عدلیہ کے کرداراور گورکھ پور میں گاندھی کی آمد اور مقبولیت کے تجزے جیسے دلچسپ اور اہم مطالعے کیے ۔گیان پانڈے نے ۱۹۱۹ء تا ۱۹۲۲ کے زمانے میں اودھ میں ہونے والی کسان بغاوتوں کو سبالٹرن نقطہ نظر سے دیکھا ۔ڈیوڈ آرنلڈ نے ہندوستان میں قحط سالی کو موضوع بنایا۔دپیش چکرا برتی نے ۱۹۲۰ء اور ۱۹۵۰ء کے درمیان کلکتہ کے پٹ سن کے کارخانوں میں مزدوروں کو سبالٹرن تحقیق کا موضوع بنایااور یہاں موجود دولاکھ ساٹھ ہزار مزدوروں کی موجودگی میں ٹریڈ یونین کی عدم فعالیت کے اسباب دریافت کرنے کی کوشش کی ۔سومیت سر کار نے ۱۹۰۵ء میں تقسیم ِ بنگال کو موضوع بنایااور ہندوستان میں تاریخ کے اس مکتبہ فکر کو پروان چڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا ۔ کیا پاکستان کے تاریخ نویسوں نے بھی اس ضمن میں وقیع مطالعات کیے ہیں اس ضمن میں کچھ خاص نہیںکہا جا سکتا ۔اردو ادبیات کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس موضوع کااطلاق اردو فکشن اور نظم میں کرداری مطالعات کے حوالے سے کیا جا سکتا ہے جس سے اہم نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں۔