ڈاکٹر اسدمصطفیٰ
امریکہ میں مودی اور ٹرمپ کے مشترکہ خطاب کے دوران کوئی انہونی نہیں ہوئی بلکہ دونوں کے اصل چہرے بے نقاب ہوئے ہیں۔انہوں نے واضح کردیا ہے کہ ان کے دل میں جو کھٹکتا ہے وہ صرف اسلام ہے،سو انہوں نے اسلام کو دہشت گردی سے تعبیر کردیا ہے۔اسلام کے خلاف منظم تحریک کئی دہائیوں سے جاری ہے،خصوصاًجدید میڈیا نے تو اسلام مخالف گروپ کے کام کو بہت آسان کردیا ہے۔اب جس کا جی چاہتا ہے،زبان کی دو دھاری تلوار سے ہرزہ سرائی پر اتر آتا ہے۔اس موقع پر ہمیں عمران خان غنیمت محسوس ہوئے ہیں جنھوں امریکہ کی سرزمین پر کھڑے ہو کر اسلام کا بھرپور دفاع کیا ہے۔عمران خان نے بجا طور پر کہا ہے کہ اسلام دو نہیں ہیں صرف ایک ہے اور ہم معتدل م اور انتہا پسند اسلام پر یقین نہیں رکھتے بلکہ ہم صرف محمد عربیﷺ کے اسلام پر یقین رکھتے ہیں۔عمران خان وہ پہلے حکمران ہیں جو بھرپور اور مدلل انداز میں اسلام کے دفاع کے ساتھ ساتھ کشمیر پر دو ٹوک انداز میں اپنا موقف بیان کر رہے ہیں۔مغرب نے طویل عرصے سے اسلام کو انتہا پسند اور معتدل اسلام میں تقسیم کرکے میڈیا کے ذریعے اس شدت سے پروپیگنڈہ کیا ہے کہ عام مسلمان بھی ان کی باتوں پر یقین کرنے لگا ہے۔خاص طور پر دہشت گردی کی لہر نے ان کے نظریے کو تقویت دینے میں بڑا نمایاں کردار ادا کیا ہے۔مغرب بھی اپنے اسی نظریے کی بدولت اسلاموفوبیا کو شکار ہو کر مسلمانوں کو دہشت گرد کہتا اور ہم سے نفرت کا اظہار کرتا رہا ہے۔اسلام اور مسلمانوں پر طنزو تمسخر کے یہ حملے 9/11 کے سانحے سے پہلے بہت کم تھے یا یوں کہہ لیں کہ اکا دکا تھے مگر اس حملے کے بعدمسلمانوں کو دہشت گرد قراد دینے کے لیے خاص طور پر منظم انداز میں کام کیا گیا ہے۔ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے اصل مجرم کون تھے،برطانیہ میں حملے کس نے کئے یا دنیا بھر میں دہشت گرد کاروائیوں کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔اہل مغرب کے پاس چند تصاویر اور ویڈیوز کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے مگر انہوں نے اپنی ان معمولی معلومات کی بنا پرغیر مسلم اقوام کے دلوں میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف ایسی نفرت پیدا کر دی ہے جس سے نہ صرف مشرق اور مغرب کے درمیان خلیج بڑھی ہے بلکہ خود ہمیں یہ یقین ہو چلا ہے کہ سب کچھ مسلمانوں ہی کا کیا دھرا ہے۔آج ہم دنیا کے منظر نامے پر دیکھتے ہیں تو ترکی کا صدر طیب اردگان اور پاکستان کا وزیر اعظم عمران خان دو ایسے بین الاقوامی رہنما نظر آتے ہیں جو اسلام مخالف دنیا کو دلائل وبراہین سے اسلام کے متعلق حقیقت پسندانہ رویہ اپنانے پر مجبور کر رہے ہیں۔ لیکن کیا وہ مغرب کے انتہا پسند اسلام مخالف افراد کوقائل کر سکیں گے۔کیا مغرب اسلام اور اپنے درمیان مکالمے کو ممکن بنا کر کوئی راستہ نکالنے کی کوشش کرے گا یا دنیا جس تہذہبی تصادم کی راہ پر گامزن ہے، اس پر چلتے ہوئے تباہی و بربادی کے نئے سامان پیداکئے جاتے رہیں گے۔جہاں تک اسلام کا تعلق ہے میں صرف چند ایسی مثالیں پیش کرنے پر اکتفا کروں گا جو اسلام کے عالم گیر تہذیب و تمدن، عدل و انصاف، مساوات، اخوت ا ور دیگر خوبیوں کی آئینہ دار ہیں۔ ہمارے پیارے رسول ﷺ کے ایک قول کا مفہوم یہ ہے کہ ”جو تمہاری راہ میں کانٹے بچھاتے ہیں تم ان کی راہ میں کانٹے نہ بچھاؤ۔ اس طرح تو دنیا کا نٹوں سے بھر جائے گی اور کانٹوں میں جینا مشکل ہے بلکہ اگر ہوسکے تو ان کی راہ میں پھول بچھاؤ کہ پھولوں کے جمال میں کھوکر وہ اپنی پرانی عادت بھول جائیں“ اپنی کتاب ”تمدن عرب“ میں مشہور فرانسیسی دانشور اور مورخ گستاولی بان لکھتا ہے کہ ”میں اس قول کی ہزاروں بار تردید کر سکتا ہوں کہ اسلام کی اشاعت بزورِ شمشیر ہوئی۔ تلوار سے سر تو کاٹے بھی جاسکتے ہیں اور جھکائے بھی جاسکتے ہیں لیکن ذہن سے عقیدے اور ایمان کھرچ کر نکالے نہیں جا سکتے اگر ایسا ہوتا تو وہ چنگیز وہلا کوجنہوں نے خون کے دریا بہائے اور سروں کے مینار اٹھائے، عربوں کو اور دوسرے اسلام کے پر ستاروں کو اپنی طرح درندے بنا دیتے لیکن اسلام کی قوت ایسی زبردست تھی کہ خود ان کی نسلیں اسلام کی گرویدہ ہو کر اس کے لیے جانیں قربان کرنے لگیں اوراسلام اس تیزی سے اور اتنی دور دراز دنیا تک صرف اپنی رواداری اور حسنِ سلوک سے پھیلا۔“
ARABIAN SOCIETY AT THE TIME OF PROPHET MUHAMMAD میں پرینگل کینڈی لکھتا ہے کہ ”وہ لوگ جو کہتے ہیں انسان ہی سب کچھ ہے،ماحول کچھ نہیں ہوتا، انہیں بھی اگر اپنے دعویٰ کی دلیل مل سکتی ہے تو محمد ﷺکی ذات سے۔ اس ایک مثال سے وہ ثابت کر سکتے ہیں کہ انسان کیا کچھ کر سکتا ہے لیکن وہ لوگ بھی جو عقیدہ رکھتے ہیں کہ تاریخ کے انقلابات کسی ایک فرد کی کوششوں سے زیادہ ماحول کی خصوصیات اور قلب انسان کی استعدادِ قبولیت کے رہینِ منت ہیں۔ اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ اگر تاریخ میں ایسا عظیم انقلاب آنا ہی تھا۔ جو عرب میں آیا تو محمد ﷺ کے بغیر یہ انقلاب یقینا ایک غیر متعینہ مدت تک معرضِ التوا میں میں پڑرہتا“۔
معروف دانشور میشا د رہبان لکھتا ہے:
”عیسائیوں کے لیے نہایت افسوس کی بات ہے کہ رواداری جو مختلف اقوام کے مابین ایک بڑا قانونِ مر وت و اخلاق ہے، اس کی تعلیم مسلمانوں نے دی ہے۔ یہ بھی ایک ثواب کا کام ہے کہ انسان دوسرے مذہب کی عزت کر ے اور کسی کو اپنا مذہب قبول کرنے پر مجبورنہ کر ے“۔ مشہور ڈرامہ نگار برنا ڈ شاہ لکھتا ہے۔ ”میں نے محمد ﷺ کے مذہب کو اس کی توانائی کی بنا ء پر ہمیشہ احترام کی نگاہوں سے دیکھا ہے۔ میرے نزدیک دنیا میں تنہا یہی مذہب ہے جس میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کا ساتھ دے سکے اور یہی وجہ ہے کہ یہ ہر زمانے کے لوگوں کو اپیل کر سکتا ہے۔ میں نے پیش گوئی کی ہے کہ جس طرح آج کا یورپ اس مذہب کو قبول کر نے پر آمادہ ہو رہا ہے اسی طرح کل کا یورپ بھی اسے قبول کر لے گا۔“ مندرجہ بالا سطور میں اسلام کی سچائی کی جو مثالیں دی گئی ہیں وہ زیادہ ترغیر مسلم دانشورں کی ہیں اورمغرب کے دانشور اس دنیا میں وہ جس فسا د کے ختم کرنے کی باتیں کر تے ہیں،اس کے شروع کرنے والے مسلمان ہر گز نہیں ہیں بلکہ بھارت کے ساتھ ساتھ اسرائیل اور وہ صہیونی طاقتیں ہیں جنہوں نے فلسطین اور کشمیر سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔اب ایک طرف ہندوستان پاکستان سے جنگ کی منصوبہ بندی کررہا ہے تو دوسری طرف ایران کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہے اورایسے حالات پیدا کئے جا رہے ہیں کہ خلیجی ممالک ہتھیاروں کی دوڑ کا مرکز بنیں اور مسلمان ایک دوسرے کے خلاف لڑیں تاکہ ان کی تباہی وبربادی کا ایک نیا دور شروع ہو۔