حلقہ اربابِ ذوق پاک ٹی ہاؤس لاہور کانیا سلسلہ "جشن ہائے شعراء”اس حوالے سے اہم ہے کہ یہ کسی ایک شاعریافردکوخراجِ تحسین پیش کرنے تک محدودنہیں۔یہ ادبی قبیلے کے زندہ لوگوں کازندہ پروگرام ہے۔روایت سے ہٹ کراورکسی بناوٹ یادنیاوی فوائدکے حصول کے لالچ پاک ۔۔۔ صرف اور صرف شعری قبیلے کے نمائندہ شعراء کی تحسین کاپروگرام ۔اسی سلسلہ میں ممتاز شاعر ،محقق، نقاد، اور دانشور جناب ڈاکٹرسعادت سعید کے اعزازمیں بھی ایک شاندارتقریب دیکھنے کوملی ۔
ڈاکٹر سعادت سعیداپنی ذات میں ایک ادارہ ہیں۔۔۔ایک انجمن ہیں ۔ایک نظریہ ساز شخصیت ہیں، جن سے علم وادب کے ہزاروں متلاشیوںنے فیض حاصل کیا۔
کسی بھی فکری یاشعری نظریے کواپنانا اور بالخصوص آج کے میڈیائی دور میں آسان نہیں ۔عہدحاضر کی فضا میں آوازوں کاایک شدید اور بے ہنگم شورموجودہے۔ اب آپ کے پاس نظریے کی علاوہ ایک تواناآواز اور پھراس میں فکری تسلسل کا ہونا لازم ہوگیاہے ۔اگران حالات میں کوئی شخص اپنے گرد ایک ہجوم اکٹھاکرلے تو میں اسے ایک کامیاب شخص کہوں گا۔اس حوالے سے ڈاکٹرصاحب کی کارکردگی متاثرکن ہے ۔ ان کی شاعری، تنقیداور فکرسے مستفیذہونے والےافراد کی تعدادمیں مسلسل اضافہ ہورہاہے ۔ملکی اورغیرملکی لائبریریوں میں ان کی کتابیں پڑھی اور دیکھی جارہی ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ ان کے ’’ فکری نظریے ‘‘ کی اصل کیاہے۔ میرے نزدیک ڈاکٹر سعادت سعیدکے شعری نظریے کی بنیادسماجی الجھنوں میں جکڑی،سسکتی انسانیت کی آوازبن کرسماج کے جبرکے سامنے کھڑاہونے پراستوارہے۔اس آوازکوبغاوت قرارنہیں دیناچاہیے ۔۔۔یہ دھیمے سُروں میں چیخ سے مشابہ ہےجوجبرکےہاتھ کاٹتی نہیں لیکن جابرکی سوچ تک رسائی اوراسے سوچنےکی دعوت دینے کی اہلیت ضرور رکھتی ہے ۔اسی نظریے کے فروغ کوہی انھوں نے ’’ نئی شاعری کی تحریک ‘‘ کانام دیاہے۔اوراس جدوجہد میں انھوں نے مروجہ شعری اصولوں سے بغاوت اورادبی ’’ قاعدہ پرستوں ‘‘پربھی تنقید ی نشترچلانے سے بھی دریغ نہیں کیا۔
کام کر جائوں کوئی بیسنے کا
وقت آیا ہے سخت ریسنے کا
آپ کے دل پہ نقش ہو پاوں
یہی کارن ہے میرے فیسنے کا
آپ کی شستہ خو زباں دانی
اس پہ بھاری ہے لفظ لیسنے کا
آبرو ریزگی کا ننگا پن
کیجیے کام اس کو کھیسنے کا
میرے نزدیک ایک اچھی تخلیق اپنی ساخت اورآوازبلکہ نام تک کاانتخاب خود کرتی ہے اور تخیلق کار کامشاہداتی مطالعہ اورتجربہ اس کی پیش کش میں معاون بنتاہے۔ اگرایسانہیں تووہ محض کرافٹس مین شپ ہے۔
نثری نظم کے حق اور مخالفت میں بہت سے گفتگووئیں ہوئی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔میں ڈاکٹرسعادت سعید کو نثری نظم کافطری شاعر کہوں گا۔ان کی نظم میں حُسن ہے، توانائی ہے، حرکت ہے اورسب سے بڑی بات کہ ایک مکمل فکری نطریے کاتسلسل موجودہے ۔ان کی نثری نظم اس لیے بھی تواناہے کہ انھیں پابنداورآزادنظم کی ضروریات کاادراک بھی ہے اورتجربہ بھی۔ان کی نظم اپنے قاری سے مکالمے کی صورت پیداکرکے اپناپیغام پہنچانے کی پوری اہلیت رکھتی ہے۔
یہاں ڈاکٹرصاحب کی ایک مقبول نظم ’’ خیاطِ دہشت ‘‘ اپنے قارئین کےلیے:
خیّاط ِدہشت
سوزنِ خیاطِ دہشت نے قبائے وقت میں
بے بسی کی جھالریں ٹانکِیں
دماغوں کے غلافوں میں وساوس
سِل گئے………..!
آہنی تاروں کے بخیوں سے پپوٹوں میں چمکتے
تِل گئے………..!
شامتوں کی قینچیوں نے عطر میں بھیگی
عروسِ رُشد کی پوشاک بے دردی سے کاٹی
دھجیاں دستارِ عصمت کی بکھر کر رہ گئیں
نالیوں کے بہتے کیچڑ کی روانی میں ستارہ آشنا
آنچل گئے………..!
فرغلِ امکانِ ہستی کے نئے کپڑے پہ کھونچے
بکلیں،برقعے،عمامے، ٹوپیاں، تہ پوش، چوغے
اس طرح ادھڑے کہ ان کے بے نوا ٹکڑے
ہوس کے پوتڑوں کی گٹھڑیوں سے
مِل گئے………..!
سوزنِ خیاطَ دہشت
اس قدر باریک فولادی
انگشتانوں کے خولوں میں مقید انگلیاں زخمی
پریدہ رنگ ناخن تک جڑوں سے
ہِل گئے………..!
یہاں مجھے عہدحاضرکی مقبول اورتواناآواز،برادرِ عزیز فرحت عباس شاہ سے معذرت بھی کرناہے کہ کچھ نجی ضروری مصروفیات کی وجہ سے اُن کے اعزازمیں منعقدہ تقریب میں شریک نہ ہوپایاجس کا مجھے افسوس رہےگا۔
"جشن ہائے شعراء” جیسے پروگراموں کو ترتیب دینا اور پھرانھیں نبھانایقینا ایک مشکل کام ہوتاہے ۔ جس سلیقے سے یہ سلسلہ جاری ہے اس پرحلقہ اربابِ ذوق پاک ٹی ہاؤس لاہورکی انتظامیہ میں شامل جناب تاثیرنقوی ، جناب علی نوازشاہ ، جناب فیصل زمان چشتی اوردیگراحباب مبارک بادکے مستحق ہیں۔
یوسف خالد
اگست 8, 2020بہت خوب حلقہ ارباب ذوق کے تمام اراکین اور انتظامیہ مبارک باد کی مستحق ہے – آپ نے ڈاکٹر سعادت سعید کی خدمات اور تخلیقی مزاج کا عمدہ تجزیہ پیش کیا ہے –
گمنام
اگست 8, 2020بہت خوب
Syeda Amna Riaz
اگست 8, 2020عمدہ تجزیہ