یوسف خالد
کوئی بھی فرد، معاشرہ یا ملک جب اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کا جائزہ لیتا ہے – تو اس کے لیے لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے ماضی سے رجوع کرے اور اپنی تاریخ کے ان فیصلوں کا تجزیہ کرے جو اس کے حال کو تشکیل دینے کا باعث بنے ہیں – اگر تو اس کا حال اس کی توقعات کے مطابق منظر نامہ تخلیق کر رہا ہے تو یہ باعث اطمینان ہے اور آگے بڑھنے کے لیے حوصلہ افزا ہے — لیکن اگر صورتِ حال اس کے بر عکس ہے تو پھراپنے تمام گزشتہ فیصلوں کا انتہائی دیانت داری سے تجزیہ کرنا ضروری ہوتا ہے -جب تک کسی قوم کے پاس ترقی کا کوئی معیاراور خاکہ نہیں ہوتا – اس کی تگ و دو لا حاصل رہتی ہے -سب سے پہلے یہ طے کرنا ضروری ہوتا ہے کہ ہمارا ہدف کیا ہے ہماری منزل کیا ہے ہم حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں – اور ہمارے سامنے ترقی کا کون سا ماڈل ہے -جب تک اس حوالے سے ہماری سوچ،ہمارے تصورات واضح نہیں ہو جاتے ہم کوئی منصوبہ بندی نہیں کر سکتے –
آج اگر ہم اپنے معاشرے کو دیکھیں اور اپنے گزرے دنوں پر نظر دوڑائیں تو ہمیں ایک بڑی تصویر دیکھنے کو ملتی ہے جس میں ہمارے گزرے دنوں کی معاشرت بھی ہے اور موجودہ معاشرتی صورتِ حال بھی ہے -تاریخ کے اس موڑ پر وہ نسل بھی موجود ہے جو ہمارے ماضی سے بھی واقف ہے اور حال کو بھی دیکھ رہی ہے -وقت گزرنے کے ساتھ جب یہ نسل نہیں ہو گی تو ہمارے ماضی کی داستانیں صرف کتابوں تک محدود ہو جائیں گی – آج ہمارے سامنے دو مختلف معاشروں کے نمائیندے موجود ہیں – ہم اگر چاہیں تو اپنے معاشرے کے دونوں چہرے پڑھ سکتے ہیں – اور اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کو نشان زد کر سکتے ہیں –
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم بتدریج اس دانش اور تجربے سے محروم ہو ئے ہیں جو ایک نسل دوسری نسل تک منتقل کرتی آ رہی تھی – وہ سماجی شعور جو سینہ بہ سینہ ایک مجلسی زندگی کے چلن کے ذریعے ہمیں فیض یاب کرتا تھا اور معاشرے کی ایک اجلی صورت تشکیل دیتا تھا — وہ سب کچھ قصہء پارینہ ہوا– زمانے کی رفتار اور ٹیکنالوجی کی یلغار ان مجالس کو چاٹ گئی جہاں بڑے غیر محسوس انداز میں دانش تقسیم ہوا کرتی تھی — وہ سلسلہ معدوم ہو چکا اب ہرفرد اپنی ذات تک محدود ہو گیا ہے- گرچہ یہ ایک فطری عمل ہے کہ زمانے کی رفتار رک نہیں سکتی، وقت کا بہاؤ تھم نہیں سکتا لیکن اس کمی کو پورا کیا جا سکتا تھا اور اس کا واحد ذریعہ تعلیم تھی — با مقصد و بامعنی تعلیم – مگر افسوس کہ ہم نے تعلیم کو کبھی ترجیح نہیں دی – تعلیم کے نام پر ایک مکروہ تجارت شروع کر دی – نصاب تعلیم میں چند ایسی بنیادی تبدیلیاں کر دیں کہ کوئی اگر چاہے بھی تو علم و حکمت تک رسائی حاصل نہ کر سکے – زبان جو حصول علم کے لیے بنیادی ضرورت ہے اسے انتہائی بے دردی سے نطر انداز کر دیا گیا ہے — اور یوں طالب علم کا تعلق لفظ سے،سوچ سے ،خیال سے اور کتاب سے کمزور کر دیا گیا ہے – لائبریریاں ویران ہو چکی ہیں – کتابیں فٹ پاتھوں پہ آ گئی ہیں –اب تعلیم محض معلومات اکھٹی کرنے اور بوقت ضرورت اس کو استعمال میں لانے کا ہنر بن چکی ہے- اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے انٹر نیٹ اور دیگر زرائع بڑی آسانی سے یہ خدمت انجام دے رہے ہیں – سوچ ،فکر، خیال اور دانش کی کوئی وقعت نہیں رہی – ایک دوڑ لگی ہوئی ہے کہ کیسے کوئی منصب حاصل کرنا ہے اختیار حاصل کرنا ہے اور کیسے اپنی ذات کے لیے سہولتیں اکھٹی کرنا ہیں — اس دوڑ میں حصہ لینے کے لیے ڈگریوں کا حصول لازمی ہے – علم کا نہیں
ملک و قوم کی ترقی ،معاشرے کی اقدار کی پاس داری ،شخصیت کا حسن اور معاملات میں دیانت و شرافت ، سب بے معنی ہو چکے ہیں
ہم نے ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کی ہے جس کا فرد اپنی ذمہ داریاں نبھانے سے گریزاں ہے – جس کی علمی و فکری حیثیت ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے – جو برداشت اور تحمل کی صفات سے محروم ہے– جس میں فیصلہ سازی اور معاملہ فہمی کی صلاحیت مفقود ہوتی جا رہی ہے – ہم سب اس صورت حال کے شاہد بھی ہیں اور اس کا حصہ بھی ہیں – اور ہماری کج فہمی اس المیے کو سمجھنے میں رکاوٹ ہے
ہم خوش فہم رہنا چاہتے ہیں حقیقت شناس نہیں – ہم پر امید رہنا چاہتے ہیں پر عزم نہیں
ہم سب اچھے کا راگ الاپ رہے ہیں مگر اندر سے ٹوٹتے جا رہے ہیں ،ریزہ ریزہ ہو رہے ہیں – معجزوں کے انتظار میں ہیں –
ہماری یہ صورت حال اپنے ماضی کی کچھ شاندار روایات سے لا تعلق ہونے اور نئے دور کی اندھی تقلید کے سبب ہوئی ہے- ہم نے اپنی مجلسی دانش کو کھو دیا ہے اور جدید دور کی دانش سے فائدہ نہیں اٹھایا – جدید دور سے ہم نے صرف سہولتیں سمیٹی ہیں – گویا ہم دانش کے دونوں ذرائع سے کوسوں دور ہیں – ہماری جڑیں اب اپنی زمین میں زیادہ گہری نہیں رہیں – اور ہم عالمی معاشرے کا فرد بننے کی بھی اہلیت نہیں رکھتے – ہماری حیثیت صرف اور صرف ایک صارف کی ہے – یہ صورتِ حال خصوصی توجہ کی متقاضی ہے – اس انحطاط کا سدِ باب کرنا بہت ضروری ہے -ہم نے بہت وقت ضائع کیا ہے اب مزید وقت ضائع کرنا خود کشی ہو گی –
اس لیے ضروری ہے کہ قومی سطح پر اپنی سوچ اپنے تصورات اور اہداف کا تعین کیا جائے اور ان کے حصؤل کے لیے نتیجہ خیز اقدامات کیے جائیں –
یوسف خالد