منٹو نے فلم یہودی کی لڑکی کے معروف ایکٹر نواب کاشمیری کے بارے میں ایک مضمون لکھا ہے جو (غالبا)ََ ان کے فلمی ستاروں پر لکھے گئے مضامین کے مجموعہ ” لاؤڈ سپیکر“ میں بھی شامل ہے۔ان کی ایکٹنگ کا تو ایک زمانہ معترف تھا مگر منٹو ان کے ادبی ذوق سے اس دن سے متاثر تھا جس دن اس نے نواب کاشمیر ی کو پنی ایک فلمی کہانی سنائی تھی تو کہانی سن کر اس نے کہا تھا۔”ٹھیک ہے۔ لیکن مجھے پسند نہیں آئی“ پھر جب ایک منٹو نے اسے اپنی دوسری کہانی سنائی تو کہانی سنتے ہو ئے وہ رونے لگا تھا۔ اور منٹو سے پوچھا یہ کس فلم کمپنی کو دے رہے ہو۔ مجھے اس میں بھڑوے کا رول بہت پسند آیا اور میں یہ کردار کرنا چاہتا ہوں، منٹو نے جواب میں کہا تھا،یہ کہانی کوئی بھی کمپنی لینے کو تیار نہیں۔ تو نواب کاشمیری نے غصّے میں کہا۔ بھاڑ میں جائیں سب(یا شاید سب پر لعنت بھیجو) منٹو نے اس مضمون میں نواب کاشمیری کی پہلی فلم(منٹو پہلا فلم لکھتے تھے۔ اردو میں مستعمل انگریزی الفاظ کے حوالے سے زعما متفق ہیں کہ یہ مذکر اور مؤنث دونوں طرح ٹھیک ہیں ، فلم بھی انگریزی زبان سے دخیل اسم ہے) ”یہودی کی لڑکی“ کا بظور خاص ذکر کیا ہے،اس فلم کی ہیروین ’رتن بائی‘ تھی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس بال اس کے ٹخنوں کو چھوتے تھے۔(آاااہا) اس فلم میں یہودی کا کردار ادا کرنے کے لئے اور اس کردار میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لئے نواب کاشمیری کلکتہ(کولکتہ) میں کتنے ہی یہودیوں سے ملا بات چیت کی اور کئی دن تک ان ملاقاتوں کے بعد فلم میں غدار یہودی کا کردار ادا کرنے کی حامی بھری تھی۔ صرف اتنا ہی نہیں بوڑھے یہودی کے کردار میں پوپلے منہ سے ڈائیلاگ بولنے کے لئے نواب کاشمیری نے اپنے سارے دانت بھی نکلوا دئیے تھے،کیا زمانہ تھا کیا لوگ تھے اور آرٹ سے کیا محبت تھی۔ اس طرح کی مثالیں ہالی وڈ اور لالی وڈ میں بھی ملتی ہیں بلکہ من موجی فنکارہ ریکھا نے تو ایک فلم میں بغیر میک اپ کے کام کیا تھا جو شاید سب سے مشکل کام تھا۔ نواب کاشمیری کے بارے میں منٹو نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس کی کوئی اولاد نہ تھی جس وجہ سے اس نے رشتے ڈھونڈنے شروع کر دئے اور بالآخر نواب اودھ کی پوتی مہر قدر سے شادی رچا لی جس کا پہلی بیوی نے بہت اثر لیا بہت ہنگامے ہوئے مگر نواب کاشمیری نے پروا نہ کی جس کی وجہ سے پہلی بیوی نے خود پر مٹی کا تیل چھڑک کر خود کشی کر لی۔منٹو نواب کاشمیری کے فن کی بہت تعریف کرتے ہوئے مضمون اس طرح ختم کرتے ہیں ”کہ میں اس کے فن کا قائل ہوں اور اسے ایک بڑا فنکار سمجھتا ہوں،لیکن جب بھی اسے سکرین پر دیکھا مجھے گھانسلیٹ (مٹی کا تیل) کی بو آئی۔ اور یہ محض منٹو کی انسان دوستی کی بات نہیں،بلکہ ایسا کئی مواقع پر ہمارے ساتھ بھی ہوتا ہے مگر ہم اسے ضبط تحریر میں نہیں لا سکتے،خود میں ایک بے پناہ لکھنے والے دوست کا شاید بڑا مداح ہوں اور میرے بہت قریب کے دوست جانتے ہیں کہ اس دوست کے لکھے ہوئے کئی شگفتہ مضامین نہ صرف مجھے پورے کے پورے یاد ہیں بلکہ اکثر محافل میں سناتا بھی رہتا ہوں، میرے یہ دوست ڈرامہ نگار اور مزاح نگار ڈاکٹر محمد یونس بٹ ہیں، ان میں میری آخری ملاقات اسلام آباد میں ادبیات پاکستان کی ایک عالمی کانفرنس میں ہوئی تھی (اسی کانفرنس کے دوران مجھے اپنے پسندیدہ شاعر و دانشور ”رسول حمزہ توف“ سے ملنے اور مصافحہ کرنے اعزاز بھی حاصل ہوا۔) ہم ہال میں کھڑے تھے ڈاکٹر ڈینس آئزک اور یونس بٹ کے ساتھ خوش گپیاں جاری تھیں کہ مجھے کسی نے کہا کہ ڈاکٹر طارق عزیز بلاتے ہیں میں نے اجازت چاہی تو چونکہ سب کا مزاج اس وقت کھلنڈرا ہو رہا تھا تو اسی بے تکلفی میں میرے دوست نے بھی ایک جملہ معترضہ کہا،میں سن کر چپ رہا اور ڈاکٹر طارق عزیز سے ملنے چلا گیا، میں اپنے دوست کا آج بھی قدر دان ہوں اور حلقہ ارباب ذوق پشاور سے امریکہ کی کئی ریاستوں کے کئی عمدہ محافل میں اس کی تحریروں کے اقتباس زبانی سنتا رہتا ہوں مگر اس دن کے بعد میں ان سے نہیں ملا۔ ڈاکٹر طارق عزیز بھی میرے دل کے بہت قریب ہیں اور ان سے رفاقت کئی مہ و سال پر پھیلی ہوئی ہے۔ زیادہ ملاقاتیں لاہور کی ادبی محافل میں ہوئیں اور ان میں کئی برسوں کا تعطل بھی آ تا رہا، الحمرا میں جب میں آخری بار رخسانہ نور سے ملا تھا تو اسی کانفرنس میں بہت دنوں بعد ڈاکٹر طارق عزیز سے بھی ملاقات ہوئی تھی، میں نے عارف لوہار کو جھک کر انہیں ملتے دیکھا، سراپا محبت ڈاکٹر طارق عزیز سے پہلی ملاقات اور میری دوستی بے بدل شاعر و افسانہ نگار یوسف عزیز زاہد کے توسط سے ہوئی تھی۔ جب ان کا پہلا شعری مجموعہ ”جلا وطن “ شائع ہوا تو یوسف عزیز زاہد نے احباب سے کہہ کر اس کی رونمائی کا اہتمام پشاور میں کیا تھا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے تو اس تقریب میں یوسف عزیز زاہد،یوسف رجا چشتی اور میں نے مضامین پڑھے تھے۔ مجھے یہ تو یاد ہے کہ میرے مضمون کا عنوان تھا ” جگنو میری مٹھی میں کبھی مر نہیں سکتا“ مگر یہ سطور لکھتے وقت مجھے کسی طور اس شعر کا پہلا مصرع یاد نہیں آ رہا ، بس اسقدر یا د ہے ”یہ بات مری رسم محبت سے۔۔۔۔ ہے“ جو لفظ یاد نہیں آ رہا رتھا وہ ”پرے“ تھا یا کوئی اور لفظ تھا، میں نے یوسف عزیز زاہد کو فون کیا ان دنوں وہ گھر پر ہی رہتے ہیں کچھ وبائی صورت حال نے اور کچھ بیماری نے روک رکھا ہے گھر پر ہی، فزیو تھراپی کے مراحل سے گزر رہیں ہیں (احباب دلجوئی کے لئے …..
0345 910 3005 پر اس طرح دار شاعر اور لا یعنیت کی بھیڑ میں۔ اور۔روشن دان میں اندھیرا جیسے افسانوں کے مجموعوں کے افسانہ نگار سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ یوسف عزیز زاہد کو کچھ دن پہلے ہی میں ڈاکٹر طارق عزیز کے بچھڑنے پر’ پرسا ‘دے چکا تھا۔انہیں یہ شعر یاد نہ تھا ، کہہ رہے تھے جلا وطن میرے پاس ہے مگر گھر میں آ ج کوئی نہیں جو ڈھونڈ دے اور میرے لئے موومنٹ مشکل ہے۔ البتہ مجھے ان کا جو شعر بہت پسند ہے وہ شعر یاد ہے وہ سنا دیتا ہوں،
کیا لینا ہے سڑکوں پر آوار ہ پھر کر
اتنی جلدی گھر بھی جا کر کیا کرنا ہے
یوسف عزیز زاہد نے شعر سنایا تو مجھے یاد آیا کہ غالبا یہ اس غزل کا شعر ہے جس کا مطلع ہے
تعبیروں کے درد اْٹھا کر کیا کر نا ہے
کیا کرنا ہے خواب سجا کر کیا کرنا ہے
ان کے شعر اسی طرح خوابوں تعبیروں جگنوؤں اور تتلیوں کی کہانیاں سناتے ہیں۔ یہ نظم دیکھئے۔
کبھی تم کتابوں میں کچلی ہو ئی کوئی تتلی جو دیکھو
تو یہ جان لینا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر طارق عزیز محبت اور محنت کا پیکر تھے نا ممکن ان کی لغت میں واقعی نہ تھا بچپن سے اپنے ”سپیشل“ ہونے کا انہیں سامنا تھا مگر انہوں نے کبھی ہمت نہیں ہاری اور نہ صرف تعلیم مکمل کی، پی ایچ ڈی کی ڈگریی حاصل کی بلکہ ادب کے شعبے میں بھی تنقید و تحقیق کے ساتھ ساتھ ”بصری ڈرامہ“ کو بھی اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا،پی ٹی وی اور نجی چینلز پر ان کے کئی مقبول اردو اور پنجابی ڈرامہ سیریلز نشر ہو تے رہے۔ ویل چیئر پر ہونے کے باوجود ادبی میلوں کا حصہ بنے رہتے، (بعد میں باہر سے ایک سپیشل کار بھی منگوا لی تھی“ پامردی سے زندگی بسر کرنے والے دوست کووڈسے
ہا ر گئے۔۔۔
(بشکریہ ادب سرائے)
منصف ہاشمی
جون 3, 2021آج اخلاق حیدرآبادی صاحب سے ملاقات کے دوران باتوں باتوں میں ڈاکٹر صاحب کا ذکر خیر ہوا تھا۔ سہ پہر کے بعد جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں ڈاکٹر طارق ہاشمی صاحب اور ماجد مشتاق صاحب سے ملاقات کے دوران بھی ذکر ہوا۔ لیکن آپ نے کمال کردیا۔
ہمیشہ خوش رہیں۔۔۔۔ سلامتی ہو سر۔
yousaf khalid
جون 3, 2021واہ واہ کیا عمدہ یاد نگاری ہے – میں نے آپ کی ہر تحریر میں یہ بات محسوس کی ہے کہ آپ مجلسی انسان تو ہیں ہی لیکن آپ دوستوں سے اپنی ملاقاتوں کا تذکرہ بڑی محبت اور خلوص سے کرتے ہیں ایک سچے انسان اور عمدہ تخلیق کار کو ایسا ہی ہونا چاہیے – آپ کی تحریریں ایک ادبی تاریخ م مرتب کرنے جیسی ہیں – سلامت رہیں اور اسی توانائی سے لکھتے رہیں
امجد منہاس
جون 3, 2021بہت خوب