کالم

احتیاط کا روحانی پہلو : ڈاکٹراسدمصطفےٰ

ملک بھر میں لاک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے جو اس وائرس کو بڑی سطح پر پھیلنے سے روکنے میں بہت حد تک کامیاب رہا ہے۔تاجر برادری نے پندرہ تاریخ سے دکانیں کھولنے کا اعلان بھی کیا ہےاور اگر پندرہ تاریخ سے لاک ڈاؤن میں مزید کمی کی جاتی ہے تو عوامی سطح پر بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوگی۔ابھی تک پاکستان میں کرونا وائرس کا شکار ہونے والوں کی تعداد بھی دوسرے ممالک سے بہت کم ہے اور اس کے نتیجے میں مرنے والے بھی بہت کم تعداد میں ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ یہاں متاثرہ مریضوں کے صحت یاب ہونے کی شرح بھی دوسرے ممالک کی نسبت کافی زیادہ ہے۔ اسے کچھ ماہرین طب نے قوم کے مضبوط امیون سسٹم کو اس بیماری سے بچنے کی وجہ قرار دی ہے جبکہ وزیراعظم عمران خان نے اس بات سے اتفاق نہیں کرتے ۔ان کے نزدیک سماجی سطح پرایک دوسرے سے دوری اور دوسری احتیاطی تدابیر ہی سےکسی بڑے نقصان سے بچا جاسکتا ہے۔امیون سسٹم دراصل ہماری قوت مدافعت ہے جو کسی بھی بیماری کے خلاف لڑنے کی قوت ہوتی ہے۔بیماری کوئی سی بھی ہو سکتی ہے۔ہر بیماری کے خلاف ہمارا جسم ایک خودکار مدافعتی نظام رکھتا ہے۔ادویات چاہے ہربل ہوں،ہومیوپیتھک ہوں یا ایلو پیتھک یہ تمام اپنے اپنے طریقے سے اس خود کار مدافعتی نظام کو سپورٹ فراہم کرتی ہیں۔اسی طرح اچھی اور متوازن خوراک بھی اسی مدافعتی نظام کو مزید تقویت دیتی ہے۔جس طرح ادویات کے لیے ضروری ہے کہ بیماری کی تشخیص کے بعد ڈاکٹر یا ماہر طبیب کی رہنمائی میں استعمال کرنی چاہیں اسی طرح خوراک کے متعلق بھی ضروری ہے کہ وہ متوازن ہونی چاہے۔مثال کے طور پر اگر ہم ایسی خوراک متواتر استعمال کر رہے ہیں جس میں وٹامن اے یا ای زیادہ ہے اور ہمارے جسم کو اس وٹامن کی ضرورت نہیں ہے تو لازمی بات ہے یہ خوراک ہمارے جسم میں کوئی بگاڑ یا خرابی پیدا کرے گی اس لیے ضروری ہے کہ خوراک میں گوشت،انڈے،دالیں،سبزیاں اور وہ سب کچھ ہو جس میں صحت قائم رکھنے اور قوت مدافعت بڑھانے والے اجزاء پائے جاتے ہیں۔ہمارے ملک کا وہ غریب اور نادار طبقہ جو متوازن اور اچھی خوراک استعمال نہیں کر سکتا اپنے بشرے اور چہرے مہرے سے ہی کمزور اور بیمار نظر آتاہے۔اس حوالے سے وہ خواتین زیادہ متاثر ہوتی ہیں جنھیں خوراک کی کمی کے ساتھ ساتھ بچوں کی پیدائش کے عمل سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ مگر ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ آپ صاحب استطاعت اور خوش خوراک ہیں تو ہفتے کہ ساتوں دن گوشت ہی بھون بھون کر اور نت نئے پکوان تیار کروا کے کھاتے رہیں۔اور آپ کو اپنے بھوکے اور غریب پڑوسی اور رشتہ دار کا خیال تک نہ آئے۔خوش خوراکی نوجوانی میں تو کسی حد تک برداشت ہوسکتی ہے مگر ادھیڑ عمر میں ذرا سی بے احتیاتی عمر بھر کا روگ بن جاتی ہے اور پھر انسان کی بقیہ عمر دواؤں کے سہارے بسر ہونے لگتی ہے۔پاکستان میں کرونا وائرس سے متاثرین کی تعداد میں یوں تو اضافہ ہو رہا ہے لیکن یہ دوسرے ممالک کی نسبت بہت کم ہے اس کے ساتھ ساتھ اس وائرس سے متاثرہ اشخاص کی صحت یابی کی شرح بھی دیگر ممالک کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔اس بچت وبہتری کے عمل کو ہم اللہ تعالٰی کا خاص کرم کہہ سکتے ہیں۔اللہ کے اس انعام واکرام کے پیچھے ہمارے بزرگوں کی دعائیں بھی موجود ہیں ۔یوں جہاں لاک ڈاون اور احتیاط سے ہم اپنے آپ کو محفوظ کر رہے ہیں وہاں ہماری حفاظت کا خالص روحانی پہلو بھی موجود ہے۔اس سے بھی استفادہ کرنا چاہیے۔اس روحانی پہلو میں سب سے اہم چیز حلال رزق اور حلال خوراک ہے۔حلال خوراک جسم میں صالح خون پیدا کرتی ہے جس سے اسنجہ واعصاب مضبوط ہوتے ہیں۔چنانچہ حلال خوراک استعمال کرنے والوں کی قوت مدافعت مضبوط ہوتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ روحانی پہلو کا سب سے اہم جزو اللہ کی ذات پر توکل اور ایمان کی قوت ہے۔ایمان کی قوت ہر مسلمان کی ذات کا جزوِ اعظم ہے اور یہی چیز مسلمانوں کو دوسری قوموں سے ممتاز کرتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ہر جسمانی بیماری کے پیچھے کوئی نہ کوئی روحانی کمزوری ہوتی ہے۔اسی روحانی کمزوری کو دور کرنے کے لیے قران کی تلاوت ضروری قرار دی گئی ہے۔قران کی تلاوت تمام بیماریوں کے لیے شفا ہے اور نماز سے مدد لینے کی بھی تلقین کی گئی ہے۔حدیث شریف کے مطابق ہر جسمانی بیماری کے لیے اللہ تعالیٰ نے ستر دوائیں اتاریں ہیں۔ہردوا اس وقت اثر کرتی ہے جب بیماری کی علامات کے مطابق درست دوا تجویز کی جائے ورنہ غلط دوا مزید خرابیاں پیدا کرتی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ایک خدا پر یقین رکھنے والے اور اس کے آگے سربسجود رہنے والے مسلمانوں کا امیون سسٹم ان تمام قوموں سے بہتر ہونا چاہیےجواللہ کی وحدانیت اور اسلام پر یقین نہیں رکھتیں اور ان کی خوراک میں کتے،بلیاں،چمگادڑیں،چوہے،گدھے اور سور وغیرہ سب کچھ شامل ہوتے ہیں ۔اسلام میں حرام چیزوں میں جہاں ناجائز ذرائع سے حاصل ہونے والے مال ودولت کو حرام قرار دیا گیا ہے وہاں خوراک میں بھی خاص طور پر حلال و حرام کی تمیز رکھی گئی ہے۔جو مسلمان حلال مال سے حلال و طیب چیزیں کھاتا ہے اور پھر طہارت کے خاص انتظام یعنی بار بار غسل اور وضو سے اپنی پاکیزگی قائم رکھتے ہوئے رب تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط رکھتا ہے اسے کسی دنیاوی آفت کےخطرہ کا ادراک اور اس سے محفوظ رہنے کا طریقہ دوسروں سے بہتر سمجھ میں آسکتا ہے۔ اللہ پر کامل یقین اس کو حفاظتی حصار فراہم کرتا ہے ۔کرونا ایک وبائی مرض ہے اور اس نے ہمیں اپنے خالق ومالک سے جڑنے کا ایک اور موقع فراہم کیا ہے۔
Comments

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

کالم

ترقی یا پروموشن ۔۔۔۔ خوش قسمتی یا کچھ اور

  • جولائی 11, 2019
ترجمہ : حمیداللہ خٹک کون ہے جوزندگی میں ترقی نہ چاہتاہو؟ تقریباًہرفرد ترقی کی زینے پر چڑھنے کا خواب دیکھتا
کالم

کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی

  • اگست 6, 2019
از : یوسف خالد کشمیر جل رہا ہے اور دنیا بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہے — دنیا کی