خشک لفظوں پر ٹہلتے وعدے—دشت کی سپردگی میں دیے گئے خواہشوں کے ہرن— وصل کی تمنا میں کوکتی کوئل—پنکھ پھڑپھڑاتی سوچ—پھولوں کے مرثیے— زرد پیڑوں کا نوحہ—گھونسلوں میں سہمے ھوئے پرندوں کی فریاد— بربط شوق پر چھائی خاموشی— کھلنے سے قبل مرجھانے والے گل یاسمین—تتلیوں کے ٹوٹے ھوئے پر—صبح کی ہتھیلی سے ٹپکتا لہو— سرد خانوں کی زینت بنا شکستہ بدن—آنکھ کے دریچے پر مچلتے اور تڑپتے آنسو— ہونٹوں پر کپکپاتے ، سسکتے اور بلکتے سوالات–دل کا ڈوبتا سفینہ—ہجر کے سانپوں کا ڈسا وجود— بے آئین بدن اور ضابطے توڑتے اجسام محبت نگری میں آئین شکنی کرتے ھوئے ہوس پرستوں سے فریاد کرتے ہیں کہ محبت کی طریقت میں مرزا اور رانجھے نہیں وارث شاہ اور بلھے شاہ سرفراز ٹھہرتے ہیں-
تمام اچھی باتیں کہی اور لکھی جا چکیں— آئیے کردار سازی پر توجہ دیں- جن لوگوں کو اپنی موت کا دکھ دے کر جانا ھے اپنی زندگی میں انہیں خوشیاں اور آسانیاں دیں- لوگوں کی راہ سے کانٹے چننے والوں کی قبروں پر پھول اگتے ہیں— لوگوں کی زندگی سے اندھیرے دور کرنے والوں کی قبروں پر چراغ جلتے ہیں-