سہ ماہی”لوح” جدید اردو ادب کے بنیاد گزار ادبی رسائل میں شامل ہوچکا ہے۔ادبی رسائل میں اس زرخیز پرچے کا تخصص یہ ہے کہ اس میں تین نسلوں کے نمائندہ شاعر و نثر نگار تخلیقی رنگ بکھیر رہے ہیں۔
یہ جدید عہد کا تقاضا بھی بھی ہے اور ضرورت بھی جسے 672 صفحات پر پھیلے ہوئے "لوح” نے سمیٹتے ہوئے اپنی اہمیت کو ایک ادبی دستاویز کے طور پر منوالیا ہے۔۔میرے لیے تو اس پرچے کی اشاعت ایک تہذیبی عمل کے مانند ہے۔۔اور خوشی ہے کہ تازہ شمارے کی فہرست شعر و ادب کے سنگ خوش رنگ سفر کا دعوت نامہ ہے۔۔زیر نظر شمارے میں حمد و نعت کے مبارک اوراق سمیت نظم،غزل،تنقید،تاریخ،مضمون،مقالہ،افسانہ،خود نوشت،سفرنامہ،شعری و نثری تراجم،فلم و موسیقی،طنز و مزاح،کافی اور خاکہ نگاری کا شہرادب آباد ہے۔۔
اس دلآویز شہر کے آباد کار جناب ممتاز شیخ نے یہ شہر علم و اب اپنی مادر علمی کی عقیدت میں بسایا ہے۔۔۔
"لوح” کے مطالعے نے دھیرے دھیرے میرے وجود میں مدھم پڑتے ہوئے امید سازی کے عمل کو تازہ سانسیں دی ہیں۔۔سماج کی اجتماعی بے حسی تہذیب کے قلعے میں پہلا شگاف ڈالتی ہے۔۔۔اور تخلیقی رویوں کی آبیاری اس قلعے کو استحکام دیتی ہے۔۔ادب سازی،ادیب سازی اور ادبی مجلات کی اشاعت زوال پذیر سماج کی مٹتی تہذیب کو سہارنے کا عمل ہے۔۔رسالہ "لوح” اسی پاس داری کو نبھانے کا زندہ آہنگ ہے۔۔۔”لوح” کے روپ میں جناب ممتاز شیخ کی ادب دوستی زندگی کا وہ حسین قرینہ ہے۔۔۔جسے علم و حکمت کی گم شدہ میراث سمجھیے۔۔۔خوشی ہے کہ مدیر "لوح” اپنے حصے کی گم شدہ میراث تلاشنے میں کامران ہو چکے ہیں۔۔اور اب ہم سب نے اپنے حصے کی میراث تلاشنی ہے۔۔میرے نزدیک "لوح” اسی احساس کا نام ہے۔۔