اردو میں سفرناموں کی روایت کافی قدیم ہے ،اگر ان کا شمار کیا جائے تو کتابوں کی ایک اچھی خاصی طویل فہرست تیار کی جاسکتی ہے ۔لیکن کچھ ہی سفرناموں کو یہ اختصاص حاصل ہے جوعلمی ،فنی اور معلوماتی سطح پر مکمل معیارتک پہنچے ہو ں ،ورنہ عام طور پر بیشترسفرنامے محض سفر نامے ہی تک محدود ہوکر رہ گئے، جنہیں عوامی دربار میں کوئی خاص پذیرائی یا مقبولیت حاصل نہیں ہوسکی۔سفرنامے کی اولین شرط یہ ہے کہ راوی خودستائی میں مبتلا نہ ہو، اس کے برعکس وہ اپنے مشاہدات و تجزیات کے ذریعے قاری کو نت نئی معلومات و اکتشافات سے آشنا کرے جواسے علم و ادراک کی ایک نئی دنیا کی سیر کرادے، جس کی روشنی میں وہ اپنے زندگی کے سفر کو آسان بناسکے۔
’ساحلوں کے شہر میں‘ایک ایسا ہی سفرنامہ ہے جو حد درجہ اختصار کے باوجود انتہائی پراز معلومات ہے ،جس کے مصنف ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی ہیں ،جنہوں نے زبان و بیان کی لطافت کے ساتھ ساتھ تجزیاتی و تبصراتی انداز اختیار کرتے ہوئے سفرنامے کو از حد دلچسپ و دل پذیر بنادیا ہے۔انجمن اسلام جیسے اعلی ترین علمی ادارے کے تعلق سے جہاں انہوں نے تعریفی و توصیفی کلمات کہتے ہوئے یہ اعتراف کیا ہے کہ ’یہ ادارہ ملت اسلامیہ کے لیے ایک قابل فخر میراث بن چکا ہے۔‘ وہیں یہ بھی کہے بغیر نہ رہ سکے کہ ’ڈونیشن جیسی علت وہاں بھی رائج ہے ۔‘وہ لکھتے ہیں:
’’انجمن اسلام کے بعض اسکولوں میں داخلے ڈونیشن کی بنیاد پرہوتے ہیں ،یہ نظام پسندیدہ نہیں۔ اس میں سرمایہ داروں کے لڑکے داخل ہوجاتے ہیں اور جن کے پاس پیسہ نہیں وہ تعلیم سے محروم ہوجاتے ہیں یا اچھے اسکولوں میں انہیں داخلے نہیں مل پاتے ۔اس طرح غریب و متوسط درجہ کے وہ طلبہ جن میں ذہانت اور بھرپور صلاحیت ہوتی ہے، وہ اپنے والدین کی معاشی کمزوریوں کی وجہ سے اچھی تعلیم سے محروم ہوجاتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر صاحب ایک علمی شخصیت ہیں اور متعدد کتابوں کے مصنف بھی ۔ملک میں ایک زمانہ ایسا بھی گزراہے جب ریلوے اسٹیشنوں پر ہندو پانی اور مسلم پانی کے بورڈ آویزاں ہوا کرتے تھے جس سے ہندؤوں اورمسلمانوں کے درمیان حد درجہ منافرت کااندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ آج وہ بورڈ تو نہیںلیکن ان کے مابین منافرت اپنی انتہا پر پہنچ چکی ہے ،لیکن ضرورت کبھی کبھی مسلک و مذہب سے پرے ہٹ کر سوچنے پر مجبور کردیتی ہے ،جو ہمیں اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ ہم نے جھوٹی اناکے دباؤ میں انسانی احترام تک ترک کردیا ہے اور پھربڑی عیاری کے ساتھ اسے مذہب سے جوڑ دیتے ہیں، حالاں کہ کوئی مذہب منافرت نہیں سکھاتا ۔ ایک اقتباس دیکھیں:
’’ مغل سرائے اسٹیشن پر ہمارے سامان کے ساتھ پانی کی ایک بوتل بھی تھی، ایک اَن جانے پیاسے شخص نے اسے اٹھایا اور منھ سے لگالیا، میں جب تک اسے منع کرتا تب تک وہ پانی پی چکا تھا۔جب میں نے اسے بتایا کہ یہ میری جوٹھی بوتل تھی تو اس کو کسی قسم کی ناگواری نہیں ہوئی اور وہ مسکراکر رہ گیا۔میں سوچنے لگا کہ عام حالات میں یہ شخص اس کپ میں چائے نہیں پی سکتا جس میں کسی مسلمان نے چائے پی ہو ،مگر پیاس کی شدت میں یہاں اسے کوئی تردد نہیں ہوا ۔‘‘
سفر کے دوران انہوں نے مختلف اہم مقامات کی سیرکے علاوہ متعدد علمی و ادبی شخصیتوں سے ملاقاتیںکیں،جن میں پروفیسر خورشیدنعمانی ،ڈاکٹر اسحاق جم خانہ والا ، شمیم طارق ، ڈاکٹر یونس اگاسکر ،افتخار امام صدیقی ،ہارون اعظمی، اشتیاق سعید وغیرہم قابل ذکر ہیں۔اسی طرح اردو زبان و ادب کی مختلف النوع سرگرمیوں کا بھی اچھا خاصا احوال بیان کردیا ہے ۔ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیںکہ ڈاکٹر صاحب موصوف دریا کو کوزے میں بند کرنے کی کوشش میں کامیاب ہیں۔اس بنیاد پر قارئین سے مطالعے کی سفارش کی جاسکتی ہے۔