ترجمے کی ضرورت و اہمیت سے کسی صورت انکار نہیں کیا جا سکتاکیوں کہ جس قوم نے بھی ترقی کے زینے طے کیے ہیں اس نے دیگر اقوام کے فکری سرمایے سے ضرور استفادہ کیا ہے۔عرب قوم نے علوم و فنون میں جو ترقی کی اس میں یونانی اور رومی علوم کےتراجم کا گہرا عمل دخل ہے۔اسی طرح اگر یورپی اقوام کی فکری بالیدگی کے عقب میں جھانکا جائے تو عیاں ہوگا کہ انھوں نے عربوں کی تصانیف سے تراجم کے توسل سے اکتساب کیاہے۔عصرِ حاضر میں دیکھا جائے تو سائنسی ،سماجی اور فلسفیانہ علوم کا بیشتر سر مایہ انگریزی زبان میں موجود ہے جس سے اس زبان کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔گزشتہ کچھ دہائیوں سےانگریز ی زبان میں موجودعلوم و فنون سے استفادے کی غرض سے ترجمہ کاری کی ضرورت کا احساس پوری دنیا میں بڑھا ہے ۔ اس ضرورت کو اردو دان طبقے نے بھی محسوس کیا ہےاور علم و ادب کے کئی معیاری تراجم اردو زبان کو عطا کیے ہیں۔
جدید ٹیکنالوجی نے جہاں زندگی کے دیگر شعبوں کو متاثر کیا ہے وہیں اس نے عصرِ حاضر میں مشینی ترجمے کو بھی رواج دیا ہے۔کئی ایسے سوفٹ وئیر متعدد آن لائن ویب گاہوں پر موجود ہیں جو متن کو ایک زبان سے دوسری زبان میں فوری طور پرمنتقل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔یہ سوفٹ وئیر صحافتی اور علمی متن کاتو ترجمہ کرنے میں مفید ہو سکتے ہیں لیکن ادبی اور تخلیقی تحریروں کو ایک زبان سے دوسری زبان میں ڈھالنامشکل اور محنت طلب کام ہے جس کے لیے حد درجہ لگن کی ضرورت ہے۔ادبی متون میں معنی سادہ اور سیدھے نہیں ہوتے بلکہ بین السطور ہوتے ہیں جن تک رسائی انسانی دماغ ہی کر سکتا ہےکوئی مشین نہیں کر سکتی۔ان سوفٹ وئیر کا وجود اس بات کا غماز ہے کہ ترجمہ کس قدر اہمیت کا حامل ہے ۔ترجمہ جس قدر اہم ہے اس سے کہیں زیادہ باریک بینی،دقتِ نظراور نزاکت کا متقاضی بھی ہے۔ادبی تراجم چاہے منظوم ہو ں یا منثور میکانکی انداز میں نہیں ہو سکتے ۔ترجمے کی میکانکیت سے بچنے کے لیےمترجم کو دونوں زبانوں سے واقفیت لازمی ہے بصورتِ دیگر مفہوم کہیں سے کہیں جا پڑے گا ۔اچھا اور معیاری ترجمہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب مترجم دونوں زبانوں کی ثقافت،متعلقہ موضوع پر گرفت ، الفاظ ، روز مرہ،محاورات اور اصطلاحات سےبخوبی واقف ہو۔اچھےمترجم کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ترجمہ کرتے ہوئے وہ اپنی ذات اور خیالات کو الگ رکھےتاکہ ترجمہ شدہ عبارت کے مفہوم کو سہل بنایا جا سکے ورنہ بعض اوقات مترجم کے خیالات اور اس کی ذات مفہوم کے ابلاغ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔
ڈاکٹر سعید احمد ترجمہ نگاری سے خاص شغف رکھتے ہیں ۔اب تک وہ متعدد افسانوں ،نظموںاورپاؤلو کویلھوکے دو ناولوں کو اردو زبان کے سانچے میں ڈھال کر علمی و ادبی حلقوں سے داد وصول کر چکے ہیں۔یہ تراجم اس بات کے غماز ہیں کہ وہ نہ صرف محنتی مدرس، محقق اور نقادہیں بلکہ اچھے ترجمہ نگار بھی ہیں ۔انھوں نے ناولوں کی ترجمہ نگاری میں اس بات کا خاص خیال رکھا ہے کہ وہ خیالات جو مذکورہ ناولوں میں ،بین السطورموجود ہیں انھیں سہل ،آسان اور عام فہم انداز میں قارئین کے سامنے پیش کیا جائے۔انھوں نےترجمے میں ذاتی خیالات اور نظریات سے گریز کرتے ہوئے معروضی اور سائنسی انداز اختیار کیا ہے ۔ورنہ عموماً ترجمہ نگاراپنا طرز بیان ترجمے میں شامل کر دیتا ہےجس سے مصنف کے بجائے مترجم کی شخصیت متن پر حاوی ہو جاتی ہے۔انھوں نے ترجمہ کرتے ہوئے مصنف کا اندازِ بیان ترجمے میں جوں کا توں منتقل کیا ہے ،محنت،لگن اور جاں کاوی سے انھوں نے منشا ئے مصنف کومسخ ہونے سے بچا لیا ہےجو ان کے پختہ کار مترجم ہونے کی واضح دلیل ہے۔ اس ضمن میں ” گریہ بر کنارِ دریا” سے اقتباس ملاحظہ ہو:
"ہم ایک کپ کافی کے لیے ٹھہر گئے ۔ہاں زندگی ہمیں بہت کچھ سکھاتی ہے ۔میں نے بات جاری رکھنے کی غرض سے کہا:’یہ ہمیں بتاتی ہے کہ ہم سیکھ سکتے ہیں اور ہم تبدیل ہو سکتے ہیں۔’اس نے جواب دیا ۔یہاں تک بھی جب ہمیں سب کچھ ناممکن نظر آرہا ہو۔یقیناً وہ اس موضوع پر زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ہم نے دو گھنٹے کے طویل سفرمیں بمشکل چند باتیں کی ہوں گی کہ ہم سڑک کنارے اس کیفے تک آن پہنچے ۔”(گریہ بر کنارِ دریا،ص:25)
اسی اقتبا س کی انگریزی ملاحظہ ہو:
We stopped for a cup of coffee. “ yes, life teaches us many things,” I said, trying to continue the conversation. “ It taught me that we can learn, and it taught me that we can change,’’ He replied, even when it seems impossible.” Clearly he wanted to drop the subject. We had hardly spoken during the two-hour drive that had brought us to this road side café.”
یہ حقیقت ہے کہ ترجمے کا مزاج ہمیشہ اصل تحریر سے مختلف اور الگ ہوتا ہےاور یہی انفرادیت زبان کے پھیلاؤ یا وسعت کو یقینی بناتی ہے۔ترجمے میں اسی جذب و قبول کے سلسلے سے زبان میں نئےافکار داخل ہوتے ہیں اور اظہار کے نئے امکانات تخلیق پذیرہوتے ہیں۔پختہ کار مترجم اصل متن کو اپنی زبان میں دو بار تخلیق کرتا ہےاور اس بات کا خصوصی خیال رکھتا ہے کہ ترجمہ اصل سے بڑھ نہ جائے ۔اس طرح کے تراجم ہمیں مولوی عنایت اللہ ،ہادی حسین اور محمد عمر میمن کے دیکھنے کو ملتے ہیں ۔کہیں کہیں یہ صورتِ حال سجاد باقر رضوی اورحسن عسکری کے ہاں بھی دکھائی دیتی ہے۔
دورانِ ترجمہ صرف فن پارے سے عمیق واقفیت لازمی نہیں بلکہ انگریزی اور اردو ،دونوں زبانوں کے آہنگ کابخوبی ادراک بھی ضروری ہے۔مترجم کو اس بات کا خیال رکھنا لازمی ہے کہ "سورس لینگویج”کا مصنف جو کچھ کہنا چاہتا ہے وہ گم نہ ہو جائے اور” ٹارگٹ لینگویج” میں زیادہ سے زیادہ منتقل ہو۔ڈاکٹر سعید احمد نے اس بات کا بخوبی خیال رکھا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس میں مصنف کے لہجے کی کھنک بھی موجود ہے اور اردو زبان کا مزاج بھی ،ترجمہ اصل متن سے قریب تر بھی ہےاورزبانوں کو نئے سانچوں سے آشنا بھی کرتا ہے ۔مثلاً ناول کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو :
"خدا کو پانے کے لیے تمھیں صرف اپنے آس پاس دیکھنا ہے لیکن اس سے ملاقات آسان نہیں ۔خدا جس قدر ہمیں اپنے اسرار میں شریک ہو نے کو کہتا ہےہم اتنا ہی راہ سے بھٹک جاتے ہیں ۔وہ ہمیں مسلسل اپنے خوابوں اور دلوں کی پیروی کرنے کا کہتا ہے اور یہ اس وقت مشکل ہو جاتا ہے جب ہم کسی اور ڈھب پر زندگی گزارنے کے عادی ہوجاتے ہیں ۔”(گریہ بر کنارِ دریا، ص:112)
"گریہ بر کنارِ دریا "کے مترجم نے نہ صرف جمالیاتی اور تخلیقی طرزِ عمل کو اپنایا ہے بلکہ وحدت تاثر کوبھی قائم رکھنے کی کوشش کی ہے جسے دیانت دارانہ عمل سے موسوم کیا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔انھوں نے حتی الوسع تخلیق کار اور اصل متن سے وفاداری کا ثبوت دیا ہےجس سے ترجمے میں تخیل کے ارتفاع سے تخلیقی باز آفرینی کا عمل وقوع پذیر ہوا ہے ۔ترجمے میں تہذیبی،تمدنی، معاشی اورثقافتی صورتِ حال کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے تاکہ ناول اپنے جملہ لوازمات کے ساتھ اردو کے سانچے میں ڈھل سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ناول کا،جتنا اصل متن دلکش اور دلپذیر ہے ترجمے میں بھی وہی خصوصیات نمایاں ہوئی ہیں اور بعض جگہوں پر تو ترجمے کےمتن پر طبع زاد ہونے کا گماں ہوتا ہےجو ان کی خلاقانہ صلاحیت کی واضح دلیل ہے ۔انھوں نے مصنف کے خیالات کو ادبی اسلوب میں پیش کرکےترجمے میں ایک انفرادیت قائم کی ہے۔ترجمے کے متعلق اکثر کہا جاتا ہے کہ "یہ دوشیزہ کے مانند ہوتا ہے ،جو وفادارہوتو خوب صورت نہیں ہوتی اور اگر خوب صورت ہو تو وفادارنہیں ہوتی ”
“Translation is like a young girl, if faithful not beautiful, if beautiful not faithful.”
مذکورہ ناول کے ترجمے کو دیکھا جائے تو اس میں دونوں خصوصیات موجود ہیں جو جمالیاتی خصائص کا حامل بھی ہے اور پائیلو کویلو کے منشا کے نزدیک بھی ہے۔ شاذو نادر ایسے تراجم دیکھنے کو ملتے ہیں ورنہ تخلیق کار، ترجمہ نگارسےخیالات کی ترسیل کے سلسلے میں اکثر شکوہ کناں رہتا ہے ۔ترجمے کے فن کی پیچدگی اور مشکلات کے باعث اردو میں ترجمہ نگاری پر دسترس رکھنے والے خال خال ہی ملتے ہیں لیکن ڈاکٹر سعید احمد نے اس کمی کو پورا کرنے کی حتی الوسع کو شش کی ہےاور ترجمےمیں ادبی محرکات اورادبیت کا خاص خیال رکھا ہے۔مزید براں انھوں نے ناول کا ترجمہ کرتے ہوئےدونوں زبانوں کےالفاظ ،تراکیب اور اصطلاحوں کے استعمال میں احتیاط اور فنکارانہ مہارت سے کام لیاہے جس بنیاد پر انھیں انگریزی اور اردو میں لسانی اور ثقافتی سفیر کہا جا سکتا ہےکیوں کہ انھیں ادبی قدروں کا ادراک بھی ہے اور ترجمے کے مسائل سے آگاہی بھی ہے۔