صائمہ نسیم بانو
کبر کے خداؤں کی
اونچی بارگاہوں میں
خود نمائی غالب تھی
خود پرستی واجب تھی
خوف اک مجاور تھا
پاسباں تھا جابر تھا
زائرین آئیں تو
یہ انہیں ڈراتا تھا
اپنے جبر کے دم پر
دل پہ قہر ڈھاتا تھا
سادگی صداقت اور
راستی خلوصِ دل
آرزوئیں دل کی سب
دل میں ہی سسکتی تھیں
اور دعائیں لب پر ہی
ٹوٹ ٹوٹ جاتی تھیں
دل مرا گداگر تھا
جوگی و مسافر تھا
فقر اور گدائی کے
راستوں پہ چل چل کر
کھوج لی پھر اک دن جب
وجد کی فضاؤں میں
روشنی کی بانہوں میں
اپنی ذات کی خوبی
اپنی ہست کا جوہر
طرز مفلسوں کی اور
راہ صوفیاؤں کی
عشق کی زیارت اور
بندگی کے سب مرقد
درد کی وہ درگاہیں
جن کے گنبدوں پر تھے
پارساکبوتر اور
قمریوں کا اک ٹولہ
جن کے صحن میں ہر دم
اک درخت کے نیچے
سائلوں کی سنگت میں
جمگھٹا بنا کے جب
قمریاں کبوتر سب
رب کی مدح کرتے تھے
دل کو چین آتا تھا
درد مٹ سا جاتا تھا
درد مٹ سا جاتا تھا
#بانو