شازیہ مفتی
نومبر کی رات میں پہلے پہر کی خنکی بہت خوشگوار لگ رہی تھی ۔ آکاس بیل سے ڈھکی چاردیواری کے ساتھ ساتھ بہت پرانے درخت پورے باغ کا احاطہ کیے تھے گھر کی دیوار میں کہیں کہیں کوئ کھڑکی روشن تھی ۔ زلیخا کے شوہر حسن کا چچازاد بھائ یوسف سالوں بعد جرمنی سے آیا تھا ۔ نیلو آپا نے اس کی فرمائش پر چند دوست عشائیہ پر بلائے تھے ۔ لوگ تین چار ٹولیوں میں بٹ گئے تھے اور سب اپنی باتوں میں گم ۔ کئ بلانوش خالص پی رہے تھے اور پیگ پر پیگ چڑھانے کے باوجود تروتازہ تھے کئ بیچارے نیبو پانی پی کر ہی ترنگ میں آئے جاتے تھے ۔ متوسط طبقے کی زلیخا پہلی دفعہ یہ سب دیکھ رہی تھی نمکین مونگ پھلیاں پھانکتی کو یہ سب خواب سا لگ رہا تھا ۔اجنبیت اور بے مائیگی کا احساس شدید تر ہوتا جاتا تھا ۔ یہاں آتے ہوئے راستہ بھر حسن ایسی محفلوں کے آداب اور شرفا و امراء کے طور طریقوں پر بلاتکان بولتا رہا تھا ۔
اور اب وہ چپ کھانا لگنے کی منتظر تھی ۔ فضا تکے کباب اور کوئلے جلنے کی خوشبو سے بھری تھی ۔ غزلیں ، نیم کلا سیکی گیت ، فلمی گانے ، بانسری کی دھنیں سماں باندھے تھیں پینے والے کھانے کی ضرورت سے بے نیاز تھے شاید ۔ اور
سازندے اگلی فرمائش کے منتظر۔ یوسف ان سے کچھ کہہ رہاتھا کچھ گنگنا کر بتارہاتھا شاید کسی گیت کے بول ۔ اور پھر ان کے ساتھ ہی بیٹھ گیا ۔ بانسری سے اک دھن اٹھی طبلے پر تھاپ پڑی اور ہار مونیم سے سُر بلند ہوئے ۔ دل کو چھولینے والا گیت ۔
” لگ جا گلے کہ پھر یہ حسیں رات ہو نہ ہو شاید پھر اس جنم میں ملاقات ہو نہ ہو ”
زلیخا ایک ستون کی اوٹ میں برستی آنکھوں کو چھپاتی سن رہی تھی ۔
” تم کیوں نیر بہا رہی ہو؟”
مخمور لہجے میں حسن نے پوچھا اور جواب سنے بغیر پھر کسی اور طرف متوجہ ہوگیا
ساز بج رہے تھے ، گانے والے خوش گلو فنکار کے ساتھ یوسف بھی گارہا تھا ۔ بار بار دہرا رہا تھا
” شاید پھر اس جنم میں ملاقات ہو نہ ہو ”
بہت صبح نیلو آپا نے دستک دی ۔ وہ کروٹیں بدلتی جاگ ہی رہی تھی ۔
” جلدی چلو کوئ دیکھ نہ لے اسے وہاں ۔ ابھی فون آیا ہے ”
وہ بہت پریشان تھیں
"میں بھی آجاوں ”
حسن کے منع کرنے سے پہلے ہی نیلو آپا اس کا ہاتھ تھام کر تیز تیز باہر چل دیں ۔
اشرف علی گاڑی سٹارٹ کیے دروازہ کھولے کھڑا تھا ۔ ابھی سورج طلوع نہیں ہوا تھا لیکن آسمان پر لالی پھیل گئ تھی ۔ چند گلیاں ،ایک بڑا پل اور پھر چند گلیاں ، بس اتنا سا راستہ . . . . . . . . منٹوں میں سفید دیواروں والا گھر سامنے تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ یوسف پتھر پر بیٹھا سامنے دیکھ رہا تھا ۔
” چلیں ” نیلو آپا کے پکارنے پر چونک کر اٹھااور وہ چپ چاپ ساتھ چل پڑا ۔
. . اس سفید گھر میں رہنے والی زلیخا کی ہم نام تھی ۔ یوسف کی منگیتر اور محبت بھی ۔ پھر کسی حاسد نے تیلی سلگائ ۔ چاروں طرف سے مزید حاسدین جلتے شعلوں پر تیل ڈالتے رہے ۔ آگ بھڑکی اور محبتوں سے بنا آشیانہ بھسم ہوگیا اور اب باقی رہ گئ پچھتاوں کی راکھ ۔
سفید گھر کی فرنچ ونڈو کے پیچھے کھڑی زلیخا اور یوسف کے ساتھ بھابھی کا رشتہ نبھاتی زلیخا میں ایک اور بھی رشتہ تھا
” درد کا رشتہ ” ۔ وہ بھی یوسف کی
” ہم. . . درد ” تھی ۔
اور ان تینوں میں بس فرق اتنا سا تھا کی وہ کھلم کھلا رو سکتا تھا ، گاسکتا تھا اور یہ دونوں اپنا اپنا دکھ اپنے اندر ہی سموئے تھیں ۔
شازیہ مفتی