افسانہ نگار: سعادت حسن منٹو
شفقت دوپہرکو دفتر سے آیا تو گھر میں مہمان آئے ہوئے تھے۔ عورتیں تھیں جو بڑے کمرے میں بیٹھی تھیں۔ شفقت کی بیوی عائشہ ان کی مہمان نوازی میں مصروف تھی۔ جب شفقت صحن میں داخل ہوا تو اس کی بیوی باہر نکلی اور کہنے لگی۔
’’عزیز صاحب کی بیوی اور ان کی لڑکیاں آئی ہیں۔ ‘‘
شفقت نے ہیٹ اتار کر ماتھے کا پسینہ پونچھا۔
’’کون عزیز صاحب۔ ‘‘
عائشہ نے آواز دبا کر جواب دیا۔
’’ہائے، آپ کے ابا جی کے دوست۔ ‘‘
’’اوہ۔ عزیز چچا۔ ‘‘
’’ہاں، ہاں وہی۔ ‘‘
شفقت نے ذرا حیرت سے کہا۔
’’مگر وہ تو افریقہ میں تھے۔ ‘‘
عائشہ نے منہ پر انگلی رکھی۔ ذرا آہستہ بات کیجیے۔ آپ تو چلانا شروع کردیتے ہیں۔ وہ افریقہ ہی میں تھے، لیکن جو افریقہ میں ہو کیا واپس نہیں آسکتا۔ ‘‘
لو، اب تم لگیں مین میخ کرنے۔
’’آپ تو لڑنے لگے، عائشہ نے ایک نظر اندر کمرے میں ڈالی۔ ‘‘
عزیز صاحب افریقہ میں ہیں، لیکن ان کی بیوی اپنی لڑکی کی شادی کرنے آئی ہیں۔ کوئی اچھابر ڈھونڈ رہی ہیں۔ ‘‘
اندر سے عزیز کی بیوی کی آواز آئی۔
’’عائشہ تم نے روک کیوں لیا شفقت کو۔ آنے دو۔ آؤ شفقت بیٹا، آؤ۔ تمہیں دیکھے اتنی مدت ہو گئی ہے۔ ‘‘
’’آیا چچی جان‘‘
شفقت نے ہیٹ اسٹینڈ کی کھونٹی پر رکھا اور اندرکمرے میں داخل ہوا۔
’’آداب عرض چچی جان۔ ‘‘
عزیز کی بیوی نے اٹھ کر اس کو دعائیں دیں، سر پر ہاتھ پھیرا اور بیٹھ گئی۔ شفقت بیٹھنے لگا تو اس نے دیکھا کہ سامنے صوفے پر دو گوری گوری لڑکیاں بیٹھی ہیں۔ ایک چھوٹی تھی، دوسری بڑی۔ دونوں کی شکل آپس میں ملتی تھی۔ عزیز صاحب بڑے وجیہہ آدمی تھے۔ ان کی یہ وجاہت ان لڑکیوں میں بڑے دلکش طور پر تقسیم ہوئی تھی۔ آنکھیں ماں کی تھیں۔ نیلی۔ بال بھورے اور کافی لمبے۔ دونوں کی دو چوٹیاں تھیں۔ چھوٹی کا چہرہ بڑی کے مقابلے میں زیادہ نکھرا ہوا تھا۔ بڑی کا چہرہ ضرورت سے زیادہ سنجیدہ تھا۔ ان کی ماں ان سے مخاطب ہوئی۔
’’بیٹا سلام کرو بھائی کو۔ ‘‘
چھوٹی نے اٹھ کر شفقت کو آداب عرض کیا۔ بڑی نے بیٹھے بیٹھے ذرا جھک کر کہا۔
’’تسلیمات۔ ‘‘
شفقت نے مناسب و موزوں جواب دیا۔ اس کے بعد عزیز صاحب اور افریقہ کے متعلق باتوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ نیروبی، ٹانگانیکا، د ارالسلام، کراتینا، یوگنڈا، ان سب کی باتیں ہوئیں۔ کہاں کا موسم اچھا ہے، کہاں کا خراب ہے، پھل کہاں اچھے ہوتے ہیں۔ پھلوں کا ذکر چھیڑا تو چھوٹی نے کہا۔
’’یہاں ہندوستان میں تو نہایت ہی ذلیل پھل ملتے ہیں۔ ‘‘
’’جی نہیں، بڑے اچھے پھل ملتے ہیں، بشرطیکہ موسم ہو۔ ‘‘
شفقت نے اپنے ہندوستان کی آبرو بچانا چاہی۔
’’غلط ہے۔ ‘‘
چھوٹی نے ناک چڑھائی۔
’’امی جان، یہ جو کل آپ نے مارکٹ سے مالٹے لیے تھے، کیا وہاں کے مچنگوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ ‘‘
لڑکیوں کی ماں بولی۔
’’شفقت بیٹا یہ صحیح کہتی ہے۔ یہاں کے مالٹے وہاں کے مچنگوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ ‘‘
عائشہ نے چھوٹی سے پوچھا۔
’’طلعت، یہ مچنگا کیا ہوتا ہے۔ نام تو بڑا عجیب و غریب ہے۔ ‘‘
طلعت مسکرائی۔
’’آپ ایک پھل ہے۔ مالٹے اور میٹھے کی طرح۔ اتنا لذیذ ہوتا ہے کہ میں بیان نہیں کرسکتی۔ اور رس۔ ایک نچوڑیئے۔ یہ گلاس جو تپائی پر پڑا ہے، لبالب بھر جائے۔ ‘‘
شفقت نے گلاس کی طرف دیکھا اوراندازہ لگانے کی کوشش کی کہ وہ پھل کتنا بڑا ہو گا۔
’’ایک مچنگے سے اتنا بڑا گلاس بھر جاتا ہے؟‘‘
طلعت نے بڑے فخریہ انداز میں جواب دیا۔
’’جی ہاں!‘‘
شفقت نے یہ سن کر کہا۔
’’تو پھل یقیناً بہت بڑا ہو گیا۔ ‘‘
طلعت نے سر ہلایا۔
’’جی نہیں۔ بڑا ہوتا ہے نہ چھوٹا۔ بس آپ کے یہاں کے بڑے مالٹے کے برابر ہوتا ہے۔ یہی تو اس کی خوبی ہے کہ رس ہی رس ہوتا ہے اس میں۔ اور امی جان وہاں کا انناس۔ بڑی روٹی کے برابر اس کی ایک قاش ہوتی ہے۔ ‘‘
دیر تک انناس کی باتیں ہوتی رہیں۔ طلعت بہت باتونی تھی۔ افریقہ سے اس کو عشق تھا۔ وہاں کی ہر چیز اس کو پسند تھی۔ بڑی جس کا نام نگہت تھا بالکل خاموش بیٹھی تھی۔ اس نے گفتگو میں حصہ نہ لیا۔ شفقت کو جب محسوس ہوا کہ وہ خاموش بیٹھی رہی ہے تو وہ اس سے مخاطب ہوا۔
’’آپ کو غالباً ان باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ‘‘
نگہت نے اپنے ہونٹ کھولے۔
’’جی نہیں۔ سنتی رہی ہوں بڑی دلچسپی سے۔ ‘‘
شفقت نے کہا۔
’’لیکن آپ بولیں نہیں۔ ‘‘
عزیز کی بیوی نے جواب دیا۔
’’شفقت بیٹا اس کی طبیعت ہی ایسی ہے۔ ‘‘
شفقت نے ذرا بے تکلفی سے کہا۔
’’چچی جان۔ اس عمر میں لڑکیوں کو خاموشی پسند نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بھی کوئی بات ہے کہ منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے رہو۔
’’پھر وہ نگہت سے مخاطب ہوا۔ جناب آپ کو بولنا پڑے گا۔ ‘‘
نگہت کے ہونٹوں پر ایک شرمیلی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔
’’بول تو رہی ہوں بھائی جان۔ ‘‘
شفقت مسکرایا۔
’’تصویروں سے دلچسپی ہے آپ کو۔ ‘‘
نگہت نے نگاہیں نیچی کرکے جواب دیا۔
’’جی ہے۔ ‘‘
’’تو اُٹھیے میں آپ کو اپنا البم دکھاؤں۔ دوسرے کمرے میں ہے۔
’’یہ کہہ کر شفقت اٹھا۔
’’چلیے۔ ‘‘
عائشہ نے شفقت کا ہاتھ دبایا۔ پلٹ کر اس نے اپنی بیوی کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں کوئی اشارہ کیا جسے شفقت نہ سمجھ سکا۔ وہ متحیر تھا کہ خدا معلوم کیا بات تھی کہ اس کی بیوی نے اس کا ہاتھ دبایا اور اشارہ بھی کیا۔ وہ سوچ ہی رہا تھا کہ طلعت کھٹ سے اٹھی۔
’’چلیے بھائی جان۔ مجھے دوسروں کے البم دیکھنے کا شوق ہے۔ میرے پاس بھی ایک کولکشن ہے۔ ‘‘
شفقت، طلعت کے ساتھ دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ نگہت، خاموش بیٹھی رہی۔ شفقت، طلعت کو تصویریں دکھاتا رہا، حسب عادت طلعت بولتی رہی۔ شفقت کا دماغ کسی اور طرف تھا۔ وہ نگہت کے متعلق سوچ رہا تھا کہ وہ اس قدر خاموش کیوں ہے۔ تصویریں دیکھنے اس کے ساتھ کیوں نہ آئی۔ جب اس نے اس کو چلنے کے لیے کہا تو عائشہ نے اس کا ہاتھ کیوں دبایا۔ اس اشارے کا کیا مطلب تھا جو اس نے آنکھوں کے ذریعے کیا تھا۔ تصویریں ختم ہو گئیں۔ طلعت نے البم اٹھایا اور شفقت سے کہا۔
’’باجی کو دکھاتی ہوں۔ ان کو بہت شوق ہے تصویریں جمع کرنے کا۔ ‘‘
شفقت پوچھنے ہی والا تھا کہ اگر ان کو شوق ہے تو وہ اس کے ساتھ کیوں نہ آئیں مگر طلعت البم اٹھا کر کر کمرے سے نکل گئی۔ شفقت بڑے کمرے میں داخل ہوا تو نگہت بڑی دلچسپی سے البم کی تصویریں دیکھ رہی تھی۔ ہر تصویر اس کو مسرت پہنچاتی تھی۔ عائشہ لڑکیوں کی ماں سے باتیں کرنے میں مشغول دیکھ رہی تھی۔ شفقت کنکھیوں سے دیکھتا رہا۔ اس کا چہرہ جو پہلے ضرورت سے زیادہ سنجیدگی کی دھند میں لیٹا تھا۔ اب بشاش تھا۔ ایسا لگاتا تھا کہ تصویریں جو آرٹ کا بہترین نمونہ تھیں اس کو راحت بخش رہی ہیں۔ اس کی آنکھوں میں اب چمک تھی۔ لیکن جب ایک گھوڑے اور صحت مند عورت کی تصویر آئی تو یہ چمک ماند پڑ گئی۔ ایک ہلکی سی آہ اس کے سینے میں لرزی اور وہیں دب گئی۔ تصویریں ختم ہوئیں تو نگہت نے شفقت کی طرف دیکھا اور بڑے پیارے انداز میں کہا۔
’’بھائی جان شکریہ!‘‘
شفقت نے البم نگہت کے ہاتھ سے لیا اور مینٹل پیس پر رکھ دیا۔ اس کے دماغ میں کُھد بُد ہورہی تھی۔ اس کو ایسا لگتا تھا کہ کوئی بہت بڑا اسرار اس لڑکی کی زندگی کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس نے سوچا، شاید کوئی نامکمل رومان ہو، یا کوئی نفسیاتی حادثہ۔ چائے آئی تو شفقت، نگہت سے مخاطب ہوا۔
’’اٹھیے، چائے بنائیے۔ یہ پرولج لیڈیز کا ہے۔ ‘‘
نگہت خاموش رہی لیکن طلعت پھدک کر اٹھی۔
’’بھائی جان میں بناتی ہوں۔ ‘‘
نگہت کا چہرہ پھر دھند میں ملفوف ہو گیا۔ شفقت کا تجسس بڑھتا گیا۔ ایک بار جب اس نے غیر ارادی طور پر نگہت کو گھور کے دیکھا تو وہ سٹ پٹا سی گئی۔ شفقت کو دل ہی دل میں اس بات کا افسوس ہوا کہ اس نے کیوں ایسی نازیبا حرکت کی۔ چائے پر ادھر ادھر کی بے شمار باتیں ہوئیں۔ طلعت نے ان میں سب سے زیادہ حصہ لیا۔ ٹینس کا ذکر آیا تو اس نے شفقت کوبڑے فخریہ انداز میں جو شیخی کی حد تک جا پہنچا تھا، بتایا کہ وہ نیروبی میں نمبرون ٹینس پلیئر تھی اور پندرہ بیس کپ جیت چکی تھی۔ نگہت بالکل خاموش رہی اس کی خاموشی بڑی اداس تھی۔ صاف عیاں تھا کہ اس کو اس بات کا احساس ہے کہ وہ خاموش ہے۔ ایک بات جو شفقت نے خاص طور پر نوٹ کی یہ تھی کہ عزیز کی بیوی کی ممتا کا رخ زیادہ ترنگہت کی طرف تھا۔ اس نے خود اٹھ کر بڑے پیار محبت سے اس کو کریم رول دیے۔ منہ پونچھنے کے لیے اپنا رومال دیا۔ اس سے کوئی بات کرتی تھی تو تو اس میں پیار بھی ہوتا تھا۔ ایسا لگتا تھاکہ وہ باتوں کے ذریعے سے بھی اس کے سر پر محبت بھر ہاتھ پھیر رہی ہے یا اس کو چمکا رہی ہے۔ رخصت کا وقت آیا تو عزیز کی بیوی اٹھی، برقع اٹھایا، عائشہ سے گلے ملی۔ شفقت کو دعائیں دیں اور نگہت کے پاس جا کر آنکھوں میں آنسو لا دینے والے پیار سے کہا۔
’’چلو بیٹا چلیں۔ ‘‘
طلعت پھدک کر اٹھی۔ عزیز کی بیوی نے نگہت کا ایک بازو تھاما، دوسرا بازو طلعت نے پکڑا۔ اس کو اٹھایا گیا۔ شفقت نے دیکھا کہ اس کا نچلا دھڑ بالکل بے جان ہے۔ ایک لحظے کے لیے شفقت کا دل و دماغ ساکت ہو گیا جب وہ سنبھلا تو اسے اپنے اندر ایک ٹیس سی اٹھتی محسوس ہوئی۔ لڑکھڑاتی ہوئی ٹانگوں پرماں اور بہن کا سہارا لیے نگہت غیر یقینی قدم اٹھا رہی تھی۔ اس نے ماتھے کے قریب ہاتھ لے جا کر شفقت اور عائشہ کو آداب عرض کیا۔ کتنا پیارا انداز تھا۔ مگر اس کے ہاتھ نے شفقت کے دل پر جیسے گھونسہ مارا۔ سارا اسرار اس پر واضح ہو گیا تھا۔ سب سے پہلا خیال اس کے دماغ میں یہ آیا۔
’’قدرت کیوں اتنی بے رحم ہے۔ ایسی پیاری لڑکی اور اسکے ساتھ اس قدر ظالمانہ بہیمانہ سلوک۔ اس معصوم کا آخر گناہ کیا تھا۔ جس کی سزا اتنی کڑی دی گئی؟‘‘
سب چلے گئے۔ عائشہ ان کو باہر تک چھوڑنے گئی۔ شفقت ایک فلسفی بن کر سوچتا رہ گیا، اتنے میں شفقت کے دوست آگئے اور وہ بھی اپنی بیوی سے نگہت کے بارے میں کوئی بات نہ کرسکا۔ اپنے دوستوں کے ساتھ تاش کھیلنے میں ایسا مشغول ہوا کہ نگہت اور اس کے روگ کو بھول گیا۔ جب رات ہو گئی اور عائشہ نے اسے نوکر کے ذریعے سے کھانے پر بلوایا تو اسے افسوس ہوا کہ اس نے محض ایک کھیل کی خاطر نگہت کوفراموش کردیا، چنانچہ اس کا ذکر اس نے عائشہ سے بھی کیا، لیکن اس نے کہا۔
’’آپ کھانا کھائیے، مفصل باتیں پھر ہو جائیں گی۔ ‘‘
میاں بیوی دونوں اکٹھے سوتے تھے۔ جب سے ان کی شادی ہوئی تھی وہ کبھی رات کو ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوئے تھے، اور ان کی شادی کو قریب قریب چھ برس ہو گئے تھے، مگر اس دوران میں کوئی بچہ نہ ہوا تھا۔ ڈاکٹروں کا یہ کہنا تھاکہ عائشہ میں کچھ قصور ہے جو صرف آپریشن سے دور ہوسکتا ہے، مگر وہ اس سے بہت خائف تھی۔ میاں بیوی بہت پیار محبت کی زندگی گزار رہے تھے۔ ان کے درمیان کوئی رنجش نہیں تھی۔ رات کو وہ اکٹھے لیٹتے۔ حسب معمول جب ایک دوسرے کے ساتھ لیٹے تو شفقت کو نگہت یاد آئی۔ اس نے ایک آہ بھر کر اپنی بیوی سے پوچھا۔
’’عائشہ، نگہت بے چاری کو کیا روگ ہے؟‘‘
عائشہ نے بھی آہ بھری اور بڑے افسوسناک لہجے میں کہا۔
’’تین برس کی ننھی منی بچی تھی کہ تپِ محرقہ ہوا۔ نچلا دھڑ مفلوج ہو گیا۔ ‘‘
شفقت کے دل میں نگہت کے لیے ہمدردی کا بے پناہ جذبہ پیدا ہوا۔ اس نے اپنی بیوی کی پیٹھ کو اپنے سینے کے ساتھ لگا لیا اور کہا۔
’’عائشہ، خدا کیوں اتنا ظلم ہے؟‘‘
عائشہ نے کوئی جواب دنہ دیا۔ شفقت کو دن کے واقعات یاد آنے لگے۔ جب میں نے اس سے کہا تھا کہ چلو، میں تمہیں البم دکھاتا ہوں تو تم نے میرا ہاتھ اسی لیے دبایا تھا کہ۔ ‘‘
’’ہاں ہاں، اور کیا؟۔ آپ تو بار بار۔ ‘‘
’’خدا کی قسم مجھے معلوم نہ تھا۔ ‘‘
’’اس کو اس کا بہت احساس ہے کہ وہ اپاہج ہے۔ ‘‘
’’تم نے یہ کہا ہے تو مجھے ایسا معلوم ہوا ہے کہ میرے سینے میں کسی نے تیر مارا ہے‘‘
’’جب وہ آئی، تو خدا کی قسم مجھے بہت دکھ ہوا۔ بے چاری کو پیشاب کرنا تھا۔ ماں اور چھوٹی بہن ساتھ گئیں۔ ازار بند کھولا۔ پھر بند کیا۔ کتنی خوب صورت ہے۔ بیٹھی ہو۔ ‘‘
’’تو خدا کی قسم بالکل پتا نہیں چلتا کہ فالج زدہ ہے۔ ‘‘
’’بڑی ذہین لڑکی ہے۔ ‘‘
’’اچھا؟‘‘
’’ماں کہتی تھی کہ اس نے کہا تھا کہ امی جان میں شادی نہیں کروں گی، کنواری رہوں گی!‘‘
شفقت تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گیا۔ اس کے بعد اس نے انتہائی دکھ محسوس کرتے ہوئے کہا۔
’’تو اُس کو اس بات کا احساس ہے کہ اس سے شادی کرنے کے لیے کوئی رضا مند نہیں ہو گا۔ ‘‘
عائشہ نے شفقت کی چھاتی کے بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کرتے ہوئے کہا۔
’’شفقت صاحب کون شادی کرے گا ایک اپاہج سے؟‘‘
’’نہیں نہیں ایسا نہ کہو عائشہ!‘‘
’’اتنی بڑی قربانی کون کرسکتا ہے شفقت صاحب؟‘‘
’’تم ٹھیک کہتی ہو۔ ‘‘
’’خوبصورت ہے، اچھے کھاتے پیتے ماں باپ کی لڑکی ہے۔ سب ٹھیک ہے، مگر۔ ‘‘
’’میں سمجھتا ہوں۔ لیکن۔ ‘‘
’’مردوں کے دل میں رحم کہاں؟‘‘
شفقت نے کروٹ بدلی۔
’’ایسا نہ کہو، عائشہ‘‘
عائشہ نے بھی کروٹ بدلی۔ دونوں روبرو ہو گئے۔
’’میں سب جانتی ہوں کوئی ایسا مرد ڈھونڈیئے جو اس بیچاری سے شادی کرنے پر آمادہ ہو۔ ‘‘
’’مجھے معلوم نہیں، لیکن۔ ‘‘
’’بڑی بہن ہے، غریب کوکتنا بڑا دکھ ہے کہ اس کی چھوٹی بہن کی شادی کی بات چیت ہورہی ہے۔ ‘‘
’’صحیح کہتی ہو تم!‘‘
عائشہ نے ایک لمبی آہ بھری۔
’’کیا بے چاری اسی طرح ساری عمر کڑھتی رہے گی۔ ‘‘
’’نہیں!‘‘
یہ کہہ کر شفقت اٹھ کر بیٹھ گیا۔ عائشہ نے پوچھا۔
’’کیا مطلب؟‘‘
’’تمہیں اس سے ہمدردی ہے؟‘‘
’’کیوں نہیں؟‘‘
’’خدا کی قسم کھا کرکہو۔ ‘‘
’’ہائے، یہ بھی کوئی قسم کھلوانے کی بات ہے، ہر انسان کو اس سے ہمدردی ہونی چاہیے۔ ‘‘
شفقت نے چند لمحات خاموش رہنے کے بعد کہا۔
’’تو میں نے ایک بات سوچی ہے؟‘‘
عائشہ نے خوش ہو کرکہا۔
’’کیا؟‘‘
’’مجھے ہمیشہ اس بات کا احساس رہا ہے تم بہت بلند خیال عورت ہو۔ آج تم نے میرے اس خیال کو ثابت کردیا ہے۔ میں نے۔ خدا میرے اس ارادے کو استقامت بخشے۔ میں نے ارادہ کرلیا ہے کہ میں نگہت سے شادی کروں گا۔